ہمارے فاروقی صاحب


عجیب سی بات ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے گھر میں شمس الرحمن فاروقی کا نام یوں سنا جیسے کوئی گھر کا آدمی ہے جو باغی ہو گیا ہے۔ کبھی والد برائی کرتے کبھی چچا نما والد کے دوست، زیادہ تر ا دبی نشستوں میں فاروقی صاحب کے نام کا چر چا رہتا، کسی نہ کسی حوالے سے نام آ جاتا، پھر یا تو یہ کہا جاتا کہ بہت ذہین آدمی ہے یا یہ کہا جاتا کہ فاروقی ایک عیار اور بے وقوف شخص ہے۔ بچپن کی باتیں اب یاد آتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ تمام لوگ جو شعر کہہ رہے تھے یا افسانہ لکھ رہے تھے، انہیں برائی یا بڑائی کرنے کے لیے کسی نام کی ضرورت تھی جو گھوم پھر کے فاروقی بن جاتا، حالاں کہ اس وقت تک کچھ نام اور بھی تھے، وارث علوی زندہ تھے، باقر صاحب تھے، محمود ہاشمی، گوپی چند نارنگ اور دو ایک مقامی نام لیکن گاج زیادہ تر فاروقی پہ ہی گرتی، کبھی کوئی محمود ہاشمی کو فاروقی کا گوڈ فادر کہتا، کبھی کوئی کہتا کہ وارث کی تنقید کے سامنے فاروقی کا چراغ نہیں جل سکا، کوئی باقر کو ان سے لاکھ گنا زیادہ پڑھا لکھا بتاتا اور کوئی کہتا کہ نارنگ پھر ملنسار اور خوش مزاج آدمی ہے مگر یہ فاروقی تو اول درجے کا کھوسٹ ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری عمر کچھ 15 یا 16 برس رہی ہو گی کہ ایک روز ایک صاحب تابش صدیقی ان کا نام تھا اور ممبئی کے اندھیری نامی علاقے میں رہتے تھے، کچھ بجھے ہوئے دل کے ساتھ والد کے پاس آئے۔ خاصے مشرع آدمی تھے، سفید داڑھی، گھٹنوں سے نیچے تک کی شیروانی، لمبا قد اور دو ایک کتابیں ہاتھ میں لے کر ذرا جھک کے چلتے تھے۔ والد سے قربت محسوس کرتے تھے، بڑی افسردگی سے بولے، فصیح بھائی بڑی بھد ہو گئی۔ والد نے پوچھا خیریت تو ہے۔ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ادھر ایک کتاب میں نے اسلامی تلمیحات کی مرتب کی ہے۔ خاصی ضخیم ہے اور میں نے اس پہ محنت بھی بہت کی تھی، پچھلے دنوں میں اسے لے کر خود شمس الرحمن فاروقی کے پاس گیا تھا۔ بڑی مشکل سے ان سے ملاقات کا وقت ملا اور میں نے خوشی خوشی کتاب پیش کی، لیکن اس شخص میں ذرا بھی مروت نہ تھی کہ میری کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی ادھر ادھر سے الٹ پلٹ کے دیکھا اور جو مجھ پہ برسا ہے کہ یہ کیا گھٹیا قسم کی کتابیں آپ لوگ لکھتے ہیں۔ پھر اس میں ایک ہزار برائیاں نکالیں کہ میں گردن نہ اٹھا سکا۔ مجھے اسی طرح اپنے گھر سے رخصت ہونے کو کہہ دیا۔ والد نے کہا تو آپ کتاب پہنچانے گئے ہی کیوں تھے، کہنے لگے اب تو یہ ہی سوچتا ہوں کہ بھاری بھول ہو گئی۔

یقیناً فاروقی صاحب ایسے ہی تھے، اس زمانے میں جب ان کے متعلق بڑوں سے سنتا تو اکثر ایسا لگتا کہ شاید کوئی بہت بڑا افسر ہے جس تک لوگ پہنچ ہی نہیں پاتے اور اگر پہنچتے ہیں تو زیادہ دیر تک ملاقات کا موقع نہیں ملتا۔ پھر فاروقی صاحب کے متعلق دلی آنے کے بعد بھی میں نے طرح طرح کی باتیں سنیں، دو ایک لوگ ان کے نہایت معتقد تھے وہ بھی ایسے جن سے میں بھی کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتا تھا۔ فاروقی صاحب کے متعلق میں نے ممبئی کی زندگی میں جتنی برائیاں سنی تھیں دلی آ کر دھیرے دھیرے اتنی ہی اچھائیاں سننے کو ملیں۔ ان کی کتابیں بھی دلی آ کر ہی پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ شعر، غیر شعر نثر، تفہیم غالب، شعر شور انگیز، تنقیدی افکار، معرفت شعر نو اور ساحری شاہی صاحب قرآنی وغیرہ کچھ تو ان کتابوں سے بھی ان کے لیے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوا کہ ایک ایسا عالم جو اتنی اچھی کتابیں لکھتا ہے وہ کیسا اچھا اور انصاف پسند شخص ہوگا، پھر یہ کہ ان کے متعلقین سے ملاقات کے موقع آئے تو مزید ان کی برائی احترام میں بدلنے لگی۔ پھر تو جلد ہی وہ وقت آیا کہ میں ان کا پوری طرح معتقد ہو گیا۔

پہلی مرتبہ میں نے انہیں 2007 میں ایک طویل خط لکھا تھا جو تقریباً 8 صفحات پہ مشتمل تھا وہ بھی صرف اس مسئلے پر کہ قومی کانسل سے جو انسائیکلو پیڈیا شائع ہوا تھا اس کی مشاورتی کمیٹی میں ان کا نام سب سے اوپر تھا اور مجھے اس میں آبرو کے ذیل میں ایک غلطی نظر آ گئی تھی کہ ان کے متعلق لکھا گیا تھا کہ وہ غوث گوالیاری کی اولاد سے ہیں جن کا رشتہ فرید الدین گنج شکر تک جاتا ہے۔ میں نے خاصی محنت سے دسیوں تذکروں کے حوالے سے ایک خط لکھا اور انہیں بھیجا اور بہت خوش ہوا کہ فاروقی صاحب کو ایک غلطی ان کی دکھائی ہے، لیکن جلد ہی ان کا چار لائنوں کا جواب آیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ تم نے خط لکھنے میں محنت کی ہے لیکن میرا اس انسائیکلو پیڈیا سے کوئی واسطہ نہیں یہ خط حمید اللہ بھٹ کو بھیج دو، البتہ ایک کتاب کا ذکر پہلی مرتبہ تمہارے خط میں پڑھا اور وہ تھی جواہر خمسہ۔ میری تو جیسے ساری محنت ہی ڈوب گئی، اس کے باوجود میں اس بات پہ خوش ہوا کہ انہوں نے جواب تو دیا اور اپنی علمیت میں اضافے کا اعتراف بھی کیا۔ یہ بات میں نے کئی دنوں تک دوستوں کو بتائی اور دھیرے دھیرے مزید محنت سے ایسا کوئی موقع تلاش کرنے لگا کہ دوبارہ فاروقی صاحب کی کوئی غلطی انہیں دکھاوں اور خط لکھ کر بھیجوں۔ مگرایسا کوئی موقع ہاتھ نہیں آیا۔

دلی میں جن دنوں میں نے دور درشن میں نوکری شروع کی ان دنوں میری ملاقات دلی کے کچھ نئے لکھنے والوں سے ہوئی اور پھر جب ریختہ کے ابتدائی دنوں میں اس کے دفتر جانے کا دو چار مرتبہ اتفاق ہوا تو وہاں بھی نئے لکھنے والوں سے الگ الگ موضوعات پہ باتیں ہوئیں۔ مجھے ان میں زیادہ تر دوست فاروقی صاحب کے متعقد نظر آئے سوائے دو ایک کے جنہوں نے فاروقی صاحب کے رویے اور ان کتابوں اور تحریروں پہ ادھرادھر سے اعتراض کیے، میں نے چند دنوں تک ان کی باتوں کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی، لیکن پھر فاروقی صاحب کا مطالعہ دوبارہ شروع کیا اور اس مرتبہ ذرا سنجیدگی سے اور کسی طرح کے تعصب اور مرعوبیت کے بغیر مطالعے کی ابتدا کی۔ واقعتاً مجھے ان کی کئی کتابیں نہایت کمزور معلوم ہوئیں، مثلاً تفہیم غالب، شعر شور انگیز، معرفت شعر نو یہ تین کتابیں تو بالکل نظر سے اتر گئیں۔ اس کے بعد ان کی تحریریں ادھر ادھر سے تلاش کر کے پڑھیں تو معلوم ہوا کہ وہ شخص جو بڑے بڑے شعرا پہ تنقید کرتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ شعر ایسا ہو اور اس شعر میں یہ ہو وہ خود تیسرے درجے کے شعرا پہ لکھ رہا ہے، ان کی تعریفیں کر رہا ہے اور خود بھی اس میں شعر کہنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

مجھے فاروقی صاحب سے اپنے دوسرے دور کے تعلق میں بہت چڑ محسوس ہوئی اور میں نے فاروقی صاحب کی باتوں اور تحریروں کو جگہ جگہ سے سن اور پڑھ کر ان پہ تنقید کرنا شروع کی، کبھی دوستوں کے درمیان بیٹھ کے ان کی کہی ہوئی باتوں پہ اعتراض کرتا، کبھی ان کی کسی تحریر کا اپنے مضمون میں ذکر کر کے اس پہ اعتراض کرتا اور پھر تو دو ایک مضمون ہی پورے پورے ان کی باتوں کے خلاف لکھ ڈالے۔ کئی چاند تھے سر آسماں کا ذکر جب دوستوں کی محفل میں بڑھنے لگا تو پھر اسے بھی پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ حالاں کہ دو تین مرتبہ میں پہلے بھی کوشش کر چلا تھا مگر 8 یا 10 صفحات سے زیادہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا۔ پھر کچھ یوں کیا کہ فاروقی صاحب کا ناول پڑھنے سے پہلے میں نے شہاب نامہ کا مطالعہ کیا اور سوچا کہ اگر یہ ختم کر لی تو ناول بھی ضرور پڑھ لوں گا اور ہوا بھی یوں ہی کہ جوں ہی شہاب نامہ ختم کیا تو ہمت بندھ گئی کہ اب فاروقی صاحب کا ناول بھی پڑھ سکتا ہوں۔ یقیناً اس ناول کے مطالعے کے بعد میں نے فاروقی صاحب سے متعلق اپنی رائے پھر بدلتی ہوئی محسوس کی۔ کبھی ان کے ایک جملے کی داد دیتا، کبھی مناظر پہ دوستوں کے درمیان گفتگو کرتا۔ کبھی ان کی تخلیقی صلاحیت کو سب سے بہتر بتاتا اور فاروقی صاحب کو ایک کامل نقاد کے بجائے ایک کامل تخلیق کار بتانے کی کوشش کرنے لگتا۔

انہیں دنوں اس ناول پہ ایک نوجوان دوست کا تبصرہ پڑھا تو لگا کہ اگر فاروقی صاحب نئے لکھنے والوں کے متعلق بد ظن ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ پھر ان کی تحریروں سے بھی پوری طرح لوگوں کو ناواقف پایا تو ان کا کلیتاً ہم خیال ہو گیا کہ سب جاہل اور احمق ہیں۔ انہیں دنوں کہ میرا ایمان فاروقی صاحب پہ پختہ ہو ہی رہا تھا کہ ان کا ناول قبض زماں چھپ گیا۔ اب کی جو یہ ناول پڑھا تو سارا اعتقاد جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کہ اتنا اچھا ناول لکھنے والا شخص ایسا گھٹیا ناول بھی لکھ سکتا ہے۔ پھر تو جیسے فاروقی صاحب سے ایک قاری کی حیثیت سے ناراضگی ہو گئی۔ ان کی کسی تحریر کو ہاتھ لگانا ہی بند کر دیا اور ان کی ضد میں نارنگ کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں، مگر یہاں جو اندھیرا نظر آیا تو دل گھبرا گیا۔ کاغذ آتش زدہ ان دنوں نئی نئی چھپی تھی اسے خرید کے الف سے ے تک پڑھ گیا مگر سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ساختیات والی کتاب تو خدا جانے کیا ہے کہ المبین دو بار کی کوشش سے سمجھ میں آ گئی، مسئلہ امتناع النظیر حل کر لیا لیکن یہ کتاب کچھ سمجھ میں نہ آئی۔

یہ کوئی 2017 یا 18 کی بات ہو گی کے جشن ریختہ کے ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تووہاں ایک مجلس میں فاروقی صاحب کی گفتگو سنی لطف آ گیا۔ انہیں دنوں خلیل الرحمن اعظمی پہ البرکات، علی گڑھ میں ایک پروگرام میں گیا تو وہاں دوبارہ انہیں سامنے سے سننے کا موقع ملا۔ اس بار ان کی باتیں سن کر ان پہ پیار آ گیا کہ کتنی اچھی گفتگو کرتے ہیں، کتنی مزے دار باتیں بیان کرتے ہیں۔ میں نے دل ہی دل میں ان کے لیے جو نفرت پیدا کر لی بھی وہ محبت میں بدل گئی۔ اور 2018 میں جب میری پہلی دو کتابیں ایک ساتھ آئیں تو وہ میں نے فاروقی صاحب کو پوسٹ کیں۔ جلد ہی ان کا خط آیا جس میں انہوں نے کچھ میرے کام پہ تنقید کی اور کچھ تعریف، لیکن ان کا ایک جملہ پڑھ کے بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے میری زبان کی بہت تعریف کی تھی۔ میں پھولا نہ سمایا۔

اس کے بعد ایک برس بعد جب میں نے انہیں اپنی تیسری کتاب  ”تاثیر کا متن خانہ“ بھیجی تو ان کا میرے پاس اچانک فون آیا۔ میں تو جیسے حیران ہی رہ گیا، انہوں نے مجھ سے کچھ 10 یا 15 منٹ بات کی اور کہنے لگے کہ میں نے تمہیں نئی کتاب پہ ایک خط میل کیا تھا تمہیں مل گیا میں نے انکار کیا تو کہنے لگے خدا جانے کہاں چلا گیا اور دوبارہ میل کرنے کا وعدہ کر کے فون کاٹ دیا۔ اور جلد ہی میری اگلی کتاب پہ یہ خط مجھے میل کر دیا۔

 ”عزیزم، سلام علیکم۔ تم سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ تم کو میری ایمیل ملی ہی نہیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے لکھی تھی۔ لیکن اب وہ مجھے بھی بھیجے ہوئے خانے میں نہیں مل رہی ہے۔ خدا معلوم کیا پیچ پڑ گیا۔ ہو سکتا ہے میں نے بھیجنے کے بٹن کی جگہ ڈیلیٹ کا بٹن دبا دیا ہو۔ مجھے کمپیوٹر پر کام کرتے بیس سال سے زیادہ ہو رہے ہیں لیکن میں اب بھی طفل مکتب ہوں۔

تمھاری کتاب کے بارے میں پہلی بات یہی ہے کہ تمھارا طرز تحریر اور نثر مجھے شروع ہی سے پسند ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تم صاف صاف بات کہتے ہو اورانشا پردازی سے کام نہیں لیتے۔ انشا پردازی ہم اردو والوں کا سب سے بڑا عیب ہے۔ تنقید میں جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو انشا پردازی خوب چلتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ صاف بات کہنے میں کئی طرح کے جوکھم ہیں اور اوپری زور اور رنگینی میں کوئی خطرہ نہیں۔ تنقیدی تحریر اگر سمجھ میں نہ آئے تو وہ فضول خامہ فرسائی سے بدتر ہے۔ تمھاری تحریر رواں اور واضح ہے۔

ایک بات یہ ہے کہ کتابوں کا تم نے تعارف کرایا ہے (کچھ تو بہت ہی مختصر اور تقریباً بس رسمی تعارف ہیں)، ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں فراہم کیں کہ جس سے قاری کو معلوم ہو سکے کہ وہ کتاب کہاں ملتی ہے اور کتنے میں۔ کبھی کبھی مبصر لکھنا بھول جائے تو مدیر سب معلومات فراہم کر دیتا ہے۔ بہرحال، تمھارے تفصیلی نوشتے بہت خوب ہیں۔ لیکن ناول یا افسانے کی تنقید میں پلاٹ کے خلاصے پر کم تکیہ کیا جائے تو اچھا ہے۔

تمھاری کتاب کا عنوان سمجھ میں نہیں آیا۔ اس میں ایک طرح کی اٹھلاہٹ ہے جو سنجیدہ کتاب کو زیب نہیں دیتی۔

امید ہے تم اپنی تحریری سرگرمیاں جاری رکھو گے۔

تمھارا، شمس الرحمٰن فاروقی

14 مارچ 2020  ”

پھر اس کے بعد ان سے کئی بار فون پہ بات ہوئی، نہ میں نے کبھی ان سے کوئی ایسی بات کی جس سے وہ ناراض ہوں نہ ان کی شفقت میں کچھ کمی آئی۔ پھر جن دنوں میں نے انجمن ترقی اردو (ہند) سے آن لائن پروگرام کرنا شروع کیے تو آصف فرخی کی یاد میں ایک پروگرام رکھا اس میں پاکستان سے کاشف رضا کو دعوت دی اور ہندوستان سے میں نے فاروقی صاحب کو دعوت دی انہوں نے بخوشی رضامندی ظاہر کی اور شرکت بھی کی۔ پھر جلد ہی نہ جانے کس بات پہ ناراض ہو گئے، خدا جانے کیا ہوا، بعد میں معلوم ہوا کہ کسی نے ان سے میرے متعلق دو ایک غلط باتیں کہیں تھیں جس سے وہ ناراض ہو گئے تھے۔ انتقال سے کچھ دنوں پہلے میں نے چاہا کہ ان کی ناراضگی ختم کر نے کی کوشش کروں لیکن وہ ان دنوں بیمار ہو گئے تھے اور پھر بیماری ایسی بڑھی کہ جان لیوا ہو گئی۔

شمس الرحمن فاروقی ہمارے عہد کی ایک ایسی شخصیت تھے کہ ان سے ناراض ہونا ان کی برائی کرنا ان کی تعریف کرنا ان کا تذکرہ کرنا یہ سب ہماری مجبوری تھی، کیوں کہ جب ہم آنکھیں کھول کے ادب کی بساط کو دیکھتے ہیں تو سوائے فاروقی کے کوئی شخص اتنا قد آور نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے بہت اچھی بات ان کے انتقال کے بعد کہی کہ فاروقی صاحب کے انتقال سے ایک ایسا شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا جس پہ ہم ادب کے ہر کام کی اچھائی اور برائی کا الزام لگا سکتے تھے۔ 1960 سے ادبی دنیا میں چمکنے والا ایک ایسا شخص جو 2020 تک یکساں طور پہ روشن رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).