سوات کے دکاندار کی ایمان داری



مینگورہ شہر بہت ہی رش والی جگہ ہے۔ اگرچہ پاکستان کے دوسرے شہروں کی مانند یہاں کی گلیاں اور بازار بہت کشادہ نہیں مگر لوگوں کے دل کشادہ اور مہمان نوازی، خلوص اور محبت سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں بہت حیران ہوا جب میں نے بازار میں تقریباٰ ایک کلومیٹر لمبی گاڑیوں کی قطار دیکھی۔ حیرت انگیز طور پر ڈراؤر اپنی لین میں صبر کے ساتھ چل رہے تھے۔ کسی نے لائن توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ مزید حیرانی یہ ہوئی کہ ٹریفک ایک لمحے کو بھی رکی نہیں۔ دراصل یہاں ہر چوک میں ٹریفک پولیس مستعدی سے اپنا کام کر رہی ہے۔

بازار میں گرم کپڑے، شال، جراب اور جرسی جیکٹ وغیرہ کا کاروبار عروج پر ہے۔ یہ دسمبر کے آخری ایام ہیں اور کالام، مالم جبہ اور ارداگرد کے پہاڑوں پر برف باری متوقع ہے، اس لیے یہاں ٹورسٹ بے حساب پہنچا ہوا ہے۔ ٹورسٹ رش کی ایک وجہ کرسمس کی چھٹی اور ویک اینڈ کا اکٹھے ہونا بھی ہے۔ منگورہ میں اب بہت سارے ہوٹل بن گئے ہیں اور مناسب کرائے پر اچھا کمرہ مل جاتا ہے۔ لیکن آج پچیس دسمبر کو سارے ہوٹل فل ہوئے پڑے ہیں۔ یہاں کے ہوٹل بزنس کے لوگ مہمان نواز ہیں اور مسافر کا خیال کرتے ہیں۔

کم از کم مری کے ہوٹل مالکان کی نسبت یہ لوگ زیادہ خوش اخلاق ہیں اور آپ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ مینگورہ شہر کے رش سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ مینگورہ شہر کو بائی پاس کر کے فضا گٹ، جو شہر کا ہی حصہ ہے، جہاں درجنوں کے حساب سے بڑے، آرام دہ اور خوبصورت ہوٹل ہیں، میں قیام کریں۔ یہ ہوٹل دریائے سوات کے کنارے واقع ہیں۔ آپ اگر لاہور، ملتان یا جنوبی پنجاب اور سندھ سے آئے ہیں تو یہاں کا سٹاپ اور آپ کو فریش کردے گا۔

یہا ں ایک رات گزار کر آپ آگے مالم جبہ، بحرین، کالام، گبرال یا کمراٹ جا سکتے ہیں۔ اس بار فضاگٹ کے تمام ہوٹل ویک اینڈ اور دسمبر کی چھٹیوں کی بنا پر ہاؤس فل کا بورڈ لگائے بیٹھے تھے۔ امسال ہوٹل والوں کا گرمیوں کا سیزن کرونا کا شکار ہو گیا تھا۔ اگرچہ کرونا پاکستانی قوم کو زیر نہیں کر سکا۔ یہ لوگ شاید ایسی چھوٹی موٹی بیماری کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ قوم فضائی حملے کے وقت مورچوں میں چھپنے کی بجائے چھتوں پر چڑھ کر جنگی جہازوں کے کرتب دیکھا کرتی ہے۔

بادل نخواستہ مینگورہ شہر عازم ہوئے۔ کسی دوست نے کہا تھا مینگورہ شہر جانا خجل خواری کے سوا کچھ نہیں۔ ہم کہ خجل ہونے کو مجبور تھے، ٹریفک کے دشت میں بے خطر کود پڑے۔ ہوٹل ”پامیر“ تک پہنچتے گاڑی کا پٹرول جواب دے جاتا اگر مینگورہ پولیس مستعدی سے ٹریفک کنٹرول نہ کر رہی ہوتی۔ سلام ہے اس پولیس کو مجال ہے کوئی ڈرائیور لائن توڑے۔ ہوٹل بہرحال اچھا تھا کھانا ناشتا بھی خوب تھا۔ بچوں نے مزے کیے ۔ شہر کے ہوٹل کا نقصان یہ ہوا کہ خواتین شاپنگ کو نکل آئیں۔

دکانیں بند ہو رہی تھیں مگر کمال مہارت سے بھاو تاو کر کے بیگم نے ایک شال خرید لی۔ دکاندار پٹھان تھا۔ خود ہی کہنے لگا ”میں کابلی پٹھان نہیں کہ پانچ ہزار بتا کر دو ہزار پر آ جاؤں“ میں نے پانچ ہزار ہی دے دیے اور اسے کہا چلو سواتی پٹھانوں والی ایمانداری دکھاو۔ کچھ سوچنے کے بعد اس نے دو ہزار واپس کر دیے۔ فرمایا ”آپ نے ہمارا دل جیت لیا“ ۔

ناشتے کے بعد ہم عازم کالام ہوئے۔ ہم پانچ لوگ تھے۔ میرا بیٹا نعمان ابھی تازہ گریجوئٹ ہو کر ملائشیا سے مڑا ہے اور ہر پانچ منٹ کے بعد غلط ڈراؤنگ پر کسی نہ کسی ڈرائیور پر غصہ نکا لتا ہے۔ ”پاکستانیوں کو کبھی ڈراؤنگ سینس نہیں آئے گی“ اس کا معمول کا جملہ ہے۔ اس کی بہن ڈاکٹر آمنہ اس کو غصہ کم کرنے اور ڈراؤنگ کی طرف زیادہ دھیان دینے کا کہتی ہے تو دونوں میں بحث و تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ ان کی ماں بیچ میں مزاحم ہو کر دونوں کو چپ کرانے کے لئے لفافہ کھول کر کاجو یا پستہ کھلاتی ہے، یوں بھیڑ بھاڑ کے باوجود ہمارا سفر چلتا رہتا ہے۔

مینگورہ می مقیم ایک دوست حسیب خان ہمارا رہبر ہے اور ہوٹل کی بکنگ میں ہمارا مدد گار ہے۔ خوازہ خیلہ کے قریب پہنچے ہیں تو اس کی کال آتی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کالام میں آج کوئی ہوٹل خالی نہیں مگر اس نے ہمت کر کے ایک دوست کے ذریعے دو بیڈ کا ایک کمرہ رکھوایا ہے۔ اپنی لوکیشن بتائی تو اس نے بتایا کہ ہمیں دریائے سوات کے بائیں کنارے سفر کرنا چاہیے تھا جبکہ ہم دائیں کنارے سفر کر رہے تھے، جگہ جگہ قصبے آرہے تھے اور رش کی وجہ سے سفر سست روی کا شکار تھا۔

اس کے بتانے پر ”باغ ڈھیری“ کے مقام پر ہم پل کراس کر کے دریا کے بائیں کنارے ہو لئے۔ بحرین تک اسی روڈ پر سفر جاری رہا۔ دراصل مینگورہ سے نکلتے ہی کانجو چوک آتا ہے جہاں سے اب بئی پاس روڈ بحرین تک دریا کے بائیں کنارے چلتی ہے اور اس پر ”مٹہ“ اور ”کالاکوٹ“ کے علاوہ بہت کم رش ملتا ہے یوں سفر آسان ہو جاتا ہے۔

دوپہر بارہ بجے تک ہم بحرین پہنچ چکے تھے۔ یہاں ”مدینہ ٹاور“ کا پٹھان مالک ہمارا منتظر تھا۔ ہم نے اپنی گاڑی ہوٹل میں کھڑی کی اور لینڈ کروزر کرائے پر لے کر کالام روانہ ہوئے۔ ڈرائیور فرید خان بحرین کا رہنے والا خوش اخلاق انسان تھا اور حکومت کا سخت مخالف۔ اسے اس بات پر غصہ تھا کہ حکومت بحرین کالام روڈ پر ٹوٹے پل کیوں تعمیر نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک بلاک ہوتی ہے اور مسافروں کی میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس کے بقول اس بار جتنا رش گزشتہ دو دن سے دیکھنے میں آیا ہے اتنا تو کبھی گرمیوں کے سیزن میں بھی نہیں ہوا۔

باقی سارا دن کالام میں برف باری کے انتظار میں گزر گیا۔ اتنا تو کبھی محبوبہ کا انتظار نہیں کیا جتا برف کے گالوں کا۔ چلو کوئی بات نہیں سارا کالام برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ چوٹیاں سفید ہوئی پڑی ہیں۔ جگہ جگہ برف کے ڈھیر پڑے ہیں۔ فاریسٹ کا نظارہ اچھوتا ہے۔ ہرے درختوں کے بیچ سفید برف کے ڈھیر لگے ہیں۔ برف سے کھیلتے شام پڑ گئی ہے۔ چائے کی طلب میں ایک ڈھابے کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرید پلاسٹک کی کرسیاں اٹھا لاتا ہے۔ ایک اور ڈرائیور کے ساتھ مل کر شاخیں اور پتے اکٹھے کر کے الاو روشن کرتا ہے۔

چاروں اطراف برفیلے پہاڑ ہیں اور الاو کے گرد ہم چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں۔ ایسے میں کون کم بخت چائے کا ذائقہ دیکھتا ہے۔ برف سے ہاتھ ٹھنڈے کیے بچے بھی الاو کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ مرد وزن کی کوئی قید نہیں۔ ڈرائیور بتا رہا ہے کہ کالام میں کرائم ریشو صفر ہے۔ ہماری عورتیں رات کو بھی لکڑیاں اکٹھی کرنے جنگل چلی جاتی ہیں۔ لکڑی ہماری زندگی ہے، اس کے بغیر یہاں زندگی چل نہیں سکتی۔ کالام میں جو کمرہ ملا اس میں پانی نہیں تھا اور یخ ٹھنڈا۔ رات پڑ چکی تھی۔ ویسے بھی ایک کمرہ پانچ لوگوں کے لئے نا کافی تھا لہاذا ہم واپس بحرین آ گئے جہاں ہم نے پہلے ہی روم بک کرا لیا تھا۔

بحرین میں نہ تو رات کا کھانا اچھا ملا نہ ہی ناشتا۔ ویسے بھی رش کی وجہ سے یہ لوگ بوکھلائے ہوئے تھے۔ ان ہوٹل والوں نے بیک وقت شاید اتنے گاہک نہیں دیکھے تھے اس لیے مناسب سروسز مہیاً کرنے میں ناکام تھے۔ ناشتہ کر کے ہم مینگورہ کی طرف چل پڑے۔ ہمارا ارادہ مال جبہ جانے کا تھا مگر ہم نے پہلے فضا گٹ کا رخ کیا جہاں دریا کنارے ہوٹل میں ہماری پسند کے روم مناسب کرائے میں دستیاب تھے۔ مالم جبہ کی سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے۔

کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں ہم تقریباً ٹاپ پر تھے۔ اگرچہ ٹاپ سے پہلے ٹریفک کے رش کی وجہ سے گاڑی پارک کرنا پڑی اور پیدل اوپر جانا پڑا مگر یہاں موسم زبردست ٹھنڈا تھا۔ ہلکی ہلکی سنو فال ہو رہی تھی جو جلد ہی رک گئی۔ یہاں پہلے ہی بہت برف پڑی ہوئی تھی۔ پہاڑ سفید برف کے ڈھیر میں بدلے ہوئے تھے۔ شام ہو رہی تھی اور بچوں کو چئیر لفٹ کا ٹکٹ نہیں ملا تھا اس لئے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ تقریبا۔ آٹھ بجے ہم اپنے ہوٹل پہنچ چکے تھے۔

دریا کنارے مینگورہ کی صبح شاندار تھی۔ ہوٹل کی زمینی ٹیرس کے کنارے دریائے سوات رواں دواں تھا۔ ٹھنڈی یخ برفانی ہوا میں صبح کی دھوپ کا مزہ وہی جان سکتے ہیں جو اس سے لطف اندوز ہو چکے ہوں۔ ہم نے یہیں ناشتہ کیا۔ ہمارے ساتھ ہی ایک لکڑی کی کمزور سی کشتی بندھی ہوئی تھی۔ ناشتے کے دوران وہ کشتی والا بھی آ گیا۔ جتنی دیر میرے بیٹے نعمان نے گاڑی میں سامان رکھوایا ہم نے کشتی میں دریا کا دوسرا کنارہ بھی دیکھ لیا جو بہت خوشنما لگ رہا تھا۔

موٹر وے سوات بننے سے سوات کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس کا لینڈ سکیپ اور پہاڑوں کے نیچے بنائی گئی تین ٹنلز اس کی خو بصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔ ہم سارے راستے اس موٹروے بنانے والوں کو دعائیں دیتے رہے۔ بڑی موٹروے بنانے والوں کے لیے پہلے سے دعائیں ہیں۔ ملکی ترقی میں جو بھی حصہ ڈالے ہم اس کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).