قوم کے معمار: ذہنی بیمار


ریاست جموں و کشمیر میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی ایک بڑی کھیپ ہائر ایجوکیشن میں عارضی طور تعینات ہو کر قوم کے مستقبل کو روشن کرتے رہے لیکن خود ان کا مستقبل تاریک کیا گیا۔ انہوں نے اپنی جوانی، زندگی کے حسین سال، بڑی محنت و مشقت سے، دھن دولت خرچ کر کے اور کئی طرح کی قربانیاں دے کر اعلی تعلیم پائی تھی اس امید کے ساتھ کہ ان کا مستقبل سنور جائے گا اور یہ اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بنے گے لیکن ان کے مقدر میں روزگار نہیں لکھا تھا بلکہ یہ تو دھکے کھانے، بے عزتی سہنے اور روز جذباتی طور مجروح ہونے کے لیے دنیا میں آئے ہیں۔

اعلی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے بعد گھر والے ان سے اب امیدیں باندھنے لگے تھے کہ یہ اب کمانے لگ جائیں گے لیکن بے روزگاری کی آندھی اتنی تیز ہے کہ یہ اپنے گھونسلوں سے باہر نہیں آسکتے۔ پر ہونے کے باوجود یہ پرواز نہیں بھرتے کیونکہ انہیں وہ گگن میسر نہیں جس میں یہ جی بھر کر اڑان بھر سکیں۔ ان کے پاس یا تو پرائیویٹ اسکول بچ جاتے ہیں جو مشکل سے چار ہزار دینے کو تیار ہوتے ہیں یا اسکول ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن میں کنٹریکچول ہونا۔

ہائر ایجوکیشن میں کام کرنے والے استاتذہ اور اعلی حکام کے درمیان پچھلے ایک دو سال سے تنازعے نے جنم لیا اور ریاست کے مختلف کالجوں میں عارضی طور کام کرنے والے تقریباً تمام استاتذہ نے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے خلاف کیس دائر کر دیا۔ ان کی مانگ رہی کہ انہیں مستقل کیا جائے یا ان کے حق میں جاب پالیسی بنائی جائے۔ ان کے ساتھ تو پچھلے کئی سالوں سے استحصال ہو ہی رہا تھا لیکن جب سے انہوں نے عدالت میں عرضی دائر کی اور ان ہی کالجوں میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی جن میں ایک سال قبل تعینات کیے گئے تھے تب سے یہ اچھوت بن گئے ہیں۔

ان کے ساتھ بھید بھاؤ اور انہیں تنگ کرنے اور ذہینی اذیت دینے کے وہ تمام حربے ہائر ایجوکیشن نے اپنائے جن کو تصور کرنے سے ہی بے چینی ہوتی ہے اور وہ سلوک کرنا شروع کیا جو جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا جاتا۔ ہر سال ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ مختلف کالجوں میں پڑھانے کے لیے عارضی استاتذہ کو تعینات کرتے ہیں۔ کہیں سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف تعلیمی سر گرمی کو جاری رکھنے میں آسانیاں ہوتی ہیں بلکہ ان پڑھے لکھے کم نصیبوں کے گھر کا چولھا بھی جلتا ہے۔

کالج میں آنے اور پڑھانے کے دوران ان کو جن طعنوں، مصائب و مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور جو بے عزتی اور پریشانیاں سہنی پڑتی ہیں وہ الگ۔ ہر سال ان کو لائن میں رہ کر نئے فارم بھرنے پڑتے ہیں اور ہر سال ان کی رزق کے دانے الگ الگ کالجوں میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ان رزق کے دانوں کو چگنے کے لیے بوریاں بستر باندھ کر نکل پڑتے ہیں۔ دسمبر آتے ہی انہیں پھر سے اپنے بوریاں بسترے کو باندھنے کی فکر لگتی ہے۔ مارچ تک ایک کالج میں کام کرنے کے بعد یہ نیا فارم بھرتے ہیں اور کسی اور کالج میں اپنے فرائض انجام دینے پہنچ جاتے ہیں۔

پچھلے تین چار سالوں سے یہ مارچ سے نئے سال کے مارچ تک وہ فرائض کالجوں میں نبھاتے رہے جو ان کو دیے گئے۔ گزشتہ سال نے نہ صرف پوری دنیا کو ماتم کدہ بنایا بلکہ ان کو بھی مجبور کر دیا کہ یہ گھر کی دیواروں کو دن رات تکتے رہے۔ گزشتہ سال جہاں دفعہ 370 کا اختتام ہوا، کرونا جیسی مہلک بیمار نے اموات کے در کھولے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو مبتلا کیا اور ہزاروں کی زندگی کا دیا بجھایا وہی ان کم نصیبوں نے اپنے مستقبل کی فکر میں آ کر ہائر ایجوکیشن کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا کہ انہیں مستقل طور پر رکھا جائے اور ہر سال لائن میں رہنے اور فارم بھرنے کی کوفت سے آزاد کر دیا جائے۔

پی ڈی ایف، پی ایچ ڈی، نیٹ، سیٹ ہونے کے باوجود کالج میں بحیثیت عارضی استاد ( کنٹریکچول) کام کرنا حالانکہ اعزاز کی بات ہے لیکن یہاں کشمیر میں کسی صدمے سے کم نہیں کیونکہ یہاں ان کو استاد نہیں سمجھا جاتا۔ ان کی قدر نہیں کی جاتی۔ انہیں ایک سال کا مزدور مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح پچھلے زمانوں میں غلام کو خرید کر اس کے ساتھ من چاہا سلوک کیا جاتا تھا وہی ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ ان کی محنت کے عوض انہیں چند ٹکے دیے جاتے ہیں جن سے اس مہنگائی کے دور میں بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

مختلف کالجوں میں کنٹریکچول اساتذہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی بھی باضمیر اور غیرت مند انسان کو برداشت نہیں لیکن یہ صرف اس لیے صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں کہ ان کے کندھوں پر اپنے پریوار کا بوجھ ہوتا ہے۔ ان کو مختلف کالجز میں وہ برتاؤ سہنا پڑتا ہے جو ان کے ضمیر کو پاش پاش کرتا ہے۔ انہیں کالجز میں بیٹھنے کے لیے وہ جگہ دی جاتی ہیں جو بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ ہر اس سہولیت سے ان کو محروم رکھا جاتا ہے جو باقی پروفیسر صاحبان کو میسر ہوتی ہے۔

یہ قوم کے معمار کہلانے والے ذہینی بیمار ہوکے رہ گئے ہیں۔ حال بدحال اور ان کا مستقبل تاریک تر اس لیے ہے کہ ان کم نصیبوں میں کچھ زندگی کے اس پڑاؤ پر ہیں کہ اب وہ کسی اور روزگار کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ دس دس بارہ بارہ سال سے مختلف کالجوں میں اپنے فرائض نیک نیتی سے انجام دے رہے ہیں۔ ان کی نہ اب مزدوری کرنے کی عمر رہی اور نہ کاروبار کرنے کی ان میں سکت ہے۔ اس سال تو حد ہی ہو گئی ہائر ایجوکیشن کی ہر میٹنگ میں کالج کے پرنسپل صاحبان کو تاکید کی جاتی تھی کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تاکہ یہ تنگ آ کر گھر بیٹھ جائیں۔

ان کی تنخواہیں چھ چھ ماہ تک بند رکھی گئی۔ انہیں ہر ممکنہ حد تک مختلف اذیتوں سے دوچار کیا گیا جس سے یہ احساس کمتری کے شکار ہوئے اور ذہینی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے۔ ایک استاد جس نے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد اپنے قیمتی بارہ تیرہ سال ہائر ایجوکیشن کو دیے۔ ڈاکٹر موصوف چولیس سال کی عمر کو پہنچ کر آج کل ڈرائیوری کر رہے ہیں۔ غم روزگار نے اسے اتنا ستا رکھا ہے کہ اب وہ جس بھی بچے کے پاس بیگ اور کتابیں دیکھتا ہے اس کو گالیاں دیتا ہے اور نصیحت کرتا ہے کہ کتابیں پڑھ کر اور اسکول جاکر کچھ نہیں ملنے والا وقت رہتے کوئی کام دھندا کرلو تاکہ گھر گھرہستی چلتی رہے اور آنے والے وقت میں در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جاؤ۔

ہائر ایجوکیشن محکمہ ہر سال ان کم نصیب پڑھے لکھے لوگوں کو ہائر تو کرتا ہے لیکن ان کو وہ مقام، عزت اور قدر نہیں ملتی جس کے یہ حقدار ہیں۔ ان کی پڑھائی، محنت اور جانفشانی بے مول مانی جاتی ہے۔ ان کی ڈگریوں کو وہ پرچیاں تصور کیا جاتا ہے جن میں تمباکو لپیٹ کر دکاندار اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی امیدوں، ارمانوں اور خوابوں کو پورا کرنے میں ہائر ایجوکیشن رکاوٹ بنا وہیں ان کے مستقبل کو تاریک اور اندھیرے میں دھکیلنے کا ذمہ دار بھی ہائر ایجوکیشن ہی بنا۔

ایک دہائی سے ان کے ساتھ جو وعدے کیے گئے اور پالیسی کا جھانسہ ان کو دیا گیا وہ ابھی تک پورا نہ ہوا۔ انہوں نے اپنے مطالبات وقتاً فوقتاً اعلی اقتدار کے سامنے رکھے لیکن ان مطالبات کو کوڑے دان میں ڈال دیا گیا۔ ان کے ساتھ کل بھی سوتیلا رویہ رکھا گیا اور آج بھی یہ بچارے اچھوتوں کا سلوک سہہ رہے ہیں۔ نہ کوئی ان کی بات سن رہا ہے اور نہ ہی ان کی حالت زار کا کسی کو خیال ہے۔ یہ کل بھی اپنی کم نصیبی پہ نوحہ کعناں تھے آج بھی اپنی بد نصیبی پر سینہ کوبی کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کو معاشرے میں بھی پریشانیاں رہتی ہیں۔ نکاح کے لیے ان کو رشتے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے کیونکہ ان کو بے روزگار مانا جاتا ہے۔ کیا بھروسا اگلے سال ان کا نمبر لگ جائے گا یا نہیں اور یہ دس ماہ کے لیے ہی سہی صاحب روزگار رہے رہے نہ رہے نہ رہے۔

یہ کاغذی پیرہن پہنے فریاد کرتے ہیں لیکن اعلی حکام کو ان کی فریاد کو سننے اور حالت زار کو دیکھنے کی فرصت نہیں۔ باقی تمام محکموں کے لیے پالسیاں ہیں ان کے لیے نہیں۔ ان قومی معماروں کو ذہینی بیمار نہ بنایا جائے۔ ان کے جائز مطالبات کو پورا کیا جائے اور ان کو مزید اذیت اور پریشانیوں میں مبتلا کیے بغیر لیفٹننٹ گورنر صاحب کو اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لے کر ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).