پاکستان کا تعلیمی نظام: 125 / 130


پچھلے دنوں ایک بین الاقوامی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے بیشتر ممالک کے تعلیمی نظامات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک رینکنگ رپورٹ جاری کی جس میں کل ایک سو تیس ممالک کے تعلیمی نظامات کا جائزہ لیا گیا اور پاکستان کا تعلیمی نظام ایک سو پچیسویں نمبر پر تھا۔ جو انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک بات ہے لیکن اس سے بھی شرم ناک بات تو یہ ہے کہ ”شرم ہم کو مگر نہیں آتی“ خیر اس ملک میں شرم کا نہ آنا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جہاں تہتر سالوں میں بجلی اور گیس تک نہ آسکی ہو۔

ویسے بھی شرم آئے ہی کیوں، کیوں کہ جن شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں دلچسپی ہے وہاں تو نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں ہمارا کوئی ثانی اور مدمقابل نہیں مثلاً آپ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، آلودگی، مہنگائی، مذہبی انتہا پسندی، یا خاص طور پر انٹرنیٹ پہ فحش مواد کی سرچنگ اور ڈاؤن لوڈنگ وغیرہ کو دیکھ لیں تو ہماری رینکنگ اور ریکارڈز ناقابل شکست ہیں۔ ہمارے ہاں حکام سے لے کر حجام تک ہر شخص اپنے آپ کو ہر فن مولا خیال کرتا ہے۔

اس لیے علم و ادب پر نہ تو کوئی خاص توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی دلچسپی ہے۔ البتہ کوئی اصرار کرے بھی کہ ہم واقعی تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہیں تو آپ اس سے یہ پوچھ کر تصدیق کر سکتے ہیں کہ ”ہمارے سالانہ بجٹ کا کتنے فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے؟“ چلیں اگر آپ ایک لمحے کے لیے بجٹ کو نظر انداز کر کے بھی دیکھیں

کہ ہماری تعلیمی پالیسیاں کس طرح تشکیل دی جاتی ہیں تو آپ کو محسوس ہو جائے گا سونے پہ سہاگہ کیسے چلایا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے تدریسی نصاب اور دیگر تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی وغیرہ سے خصوصی ٹیمی بلوائی جاتیں ہیں۔ جو ہمارے اسلام آباد میں براجمان معزز ماہرین کے ساتھ بیٹھ کے ہماری تعلیمی پالیسیاں اور نصاب تشکیل دیتی ہیں۔ جن کے نتیجے میں ہمارے ڈاکٹرز اور وکلاء جیسے پڑھے لکھے اور معزز طبقات ہسپتالوں اور سڑکوں پہ دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں۔

اور جج جیسے معزز پیشے سے منسلک لوگ ریڈ زون میں فائرنگ کر کے ہمارے نظام تعلیم کی شہرت کو چار چاند لگا تے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جب غیر ملکی لوگ آپ کا نصاب طے کریں گے اور آپ ملکی آمدنی کے سوروپے میں سے صرف تین روپے تعلیم پر خرچ کریں گے تو یقیناً طلباء رٹے مار کے اور شارٹ کٹس استعمال کر کے تعلیم یافتہ تو بن جائیں گے تربیت یافتہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر آپ کو سڑکوں اور گلیوں بازاروں میں تعلیم یافتہ بدمعاش ہی ملیں گے نہ کہ ادیب و سائنسدان اور مہذب شہری۔ بنیادی وجہ پھر وہی ہے کہ نہ تو تین فیصد بجٹ خرچ کرنے سے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام آباد اور کینیڈا کے ماہرین موضع جنگل مسیت یا بستی مہر آباد کے بچوں یا اساتذہ کے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔ جب سمجھ ہی نہ سکیں گے تو حل کیسے کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).