حکمران بدلے پولیس کی روش نہ بدلی


سال نو کے آغاز پر گزرے سال کی تلخیوں، وبا کی المناکیوں، بچھڑوں کی یادوں، دکھوں کی کربناک کہانیوں اور تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامیوں اور تمام تر وعدوں سے روگردانیوں کے باوجود میں ایک امید بھرا کالم لکھنا چاہا رہا تھا سوچ رہا تھا کہ شاید حکومت اپنی کمیوں خامیوں اور کجیوں پر توجہ دے کر عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب ہو جائے میں امید کر رہا تھا کہ شاید اس سال عوام کے تبدیلی کے خوابوں کو تعبیر دے کر ووٹ دینے والوں کا مان رکھ لے سوچ رہا تھا کہ شاید اس سال ریاست مدینہ کی طرف ہمارا عملی سفر شروع ہو جائے سوچ رہا تھا ہمارا پاکستان شاید نیا پاکستان بن جائے اور شاید واقعی اس ملک میں کوئی تبدیلی آ جائے مگر میری سوچ غلط تھی میری امید ایک سراب تھی میرے خواب بس خواب تھے وہی خواب ہم ستر برس سے دیکھ رہے ہر حکمران ایک نئے انداز میں خواب دکھاتا ہے اور پھر آنکھیں بھی نوچ لیتا ہے وہ امید دلاتا ہے پھر سانس بھی کھینچ لیتا ہے۔

اسلام آباد میں پولیس گردی کے نتیجے میں معصوم نوجوان کی موت کی خبر نے میری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا میرے ریاست مدینہ کے خوابوں کو چکناچور کر دیا جہاں دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی موت کا ذمہ دار بھی حاکم وقت تھا مگر یہاں تو ریاستی کے اہلکاروں کے ہاتھوں مرنے والوں کا بھی کوئی ذمہ دار نہیں حیرت ہوتی ہے کہ معصوم لوگوں کو مشکوک سمجھ کر خون میں نہلا دیا جاتا ہے اور خون میں نہلانے والوں کو معصوم قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسامہ ندیم ستی کے والد نے واضح طور پر بتایا ہے گزشتہ روز اسامہ نے آگاہ کیا تھا کہ پولیس کے کچھ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی ہے اور انھوں نے مزہ چکھانے کی دھمکی دی اور دوسرے دن اسامہ کو خون میں نہلا دیا گیا اور پھر پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ حادثہ نہیں ٹارگٹ کلنگ ہے۔

پولیس کی طرف سے نہتے اور معصوم شہریوں کو مزہ چکھانے کی روش کوئی نئی بات نہیں ماضی میں پولیس کے ذریعے باقاعدہ مخالفین کو ٹھکانے لگایا جاتا تھا اور آج بھی پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پولیس اسی روش پر قائم ہے اور ہر چند ماہ بعد کسی نا کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یہ تو وہ واقعات ہوتے ہیں جو میڈیا کے ذریعے سامنے آ جاتے ہیں ورنہ ایسے بہت سے واقعات بھی ہوتے ہیں جو سامنے نہیں آ پاتے لواحقین پولیس کے خوف سے زبان بند رکھتے ہیں کیونکہ ایسے کسی بھی انسانیت سوز واقعہ میں ملوث لوگوں کو کبھی بھی سزا نہیں ملی ہاں البتہ حکومت نوٹس لیتی ہے دو چار معطلیاں ہوتی ہیں گرفتاریاں ہوتی ہیں انکوائریاں ہوتی ہیں اور پھر شک کا فائدہ دے کر سب کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے اور جان سے جانے والوں کے لواحقین کی جان پر ہمیشہ بنی رہتی ہے۔

ہم سانحہ ساہیوال کو کیسے بھول سکتے ہیں جس میں پولیس نے دو معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اس واقعہ میں دو خواتین سمیت چار افراد کی موت ہوئی اس المناک سانحہ میں ملوث اہلکاروں کا کیا ہوا وزیر اعظم نے نوٹس بھی لیا تھا انصاف دلانے کا وعدہ بھی کیا تھا پھر کیا ہوا انصاف کا۔ سب لوگ باعزت بری ہو گئے۔ رحیم یار خان کے ذہنی مریض صلاح الدین کے والدین کو انصاف ملا اس نے گرفتاری کے وقت کہا تھا مجھے مارو گے تو نہیں، مگر پھر وہ مار دیا گیا والد نے پولیس سے صلح کر لی سب کو معاف کر دیا جب ریاست آنکھیں بند کر لے تو بے بس لوگ کب تک مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اور پھر سیاست کی سرپرستی میں پولیس گردی کی سب سے بدترین مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں جس میں اس وقت کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے نزدیک درجنوں ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے لاہور پولیس نے تحریک منہاج القرآن کے دو خواتین سمیت 14 کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور سو سے زائد افراد کو زخمی کر دیا پوری قوم نے یہ المناک سانحہ ٹی وی چینلوں پر براہ راست دیکھا مگر نظام عدل کی آنکھوں پر آج بھی پٹی بندھی ہوئی ہے 6 سال گزر چکے ہیں مگر لواحقین کو انصاف نہیں ملا آج بھی قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور لواحقین انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔

حالانکہ تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تھی تو ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں، جنوبی پنجاب صوبہ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ پولیس اصلاحات بھی اس کے منشور میں شامل تھی جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا ہم پولیس کو غیر سیاسی کریں گے افسران کے تقرر اور تبادلے میرٹ پر کیے جائیں گے کسی افسر کو میعاد سے پہلے تبدیل نہیں کیا جائے گا اس حوالے سے سابق آئی جی کے پی ناصر درانی کو پنجاب میں اصلاحات کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا مگر چند روز بعد ہی انھوں نے معذرت کر لی اس کی وجہ اندھا دھند تبادلے تھا اب تک بھی دو سالوں میں کئی بار آئی جیز اور چیف سیکرٹریز تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک اصلاحات کا عمل شروع نہیں کیا جا سکا تبدیلی کے تمام دعوے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں نئے پاکستان کے تمام خواب چکناچور ہو چکے ہیں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے بلکہ اب تو تمام امیدیں خون میں لت پت ہو چکی ہیں پولیس گردی کا شکار نوجوان اسامہ ندیم ستی بھی ان نوجوانوں میں شامل تھا جنہوں نے تبدیلی کے وعدوں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے تحریک انصاف کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا وہ اسامہ جس نے تحریک انصاف کی کامیابی کے لیے اپنا پسینہ بہایا آج تحریک انصاف کی حکومت میں اس کا خون بہا دیا گیا اس نے جن آنکھوں میں تبدیلی کے خواب سجائے تھے اور آج اس کی وہ آنکھیں بھی بند کر دی گئیں اس نے جس زبان سے تحریک انصاف کے لیے نعرے لگائے تھے وہ زبان بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی سوال تو یہ ہے کہ جو حکمران جماعت اپنے کارکنوں کا تحفظ نہیں کر سکتی وہ عام لوگوں کا کیا خاک تحفظ کرے گی؟ اور جو جماعت کارکنوں کو تحفظ نہیں دے سکتی وہ انہیں انصاف کیا دے گی؟ سچ تو یہ ہے سال بدلیں، حکمران بدلیں یا پارٹیاں بدلیں مگر اس وقت تک کچھ بھی نہیں بدل سکتا جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).