ایک پیج یا آئین کا پیج: اسٹبلشمنٹ عوامی کٹہرے میں


اب یہ سوال اہم نہیں رہا کہ نئے سال 2021 میں نیازی حکومت کب گرے گی یا عوامی غیظ و غضب سے بچی رہے گی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزراء کی گھبراہٹ، پریشانی اور اپوزیشن پر دن رات اندھا دھند گولہ باری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار کھونے کے خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ملک کو ریاست مدینہ بناوں گا، چوروں اور ڈاکووں کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا، لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لاؤں گا، یہ کھوکھلے نعرے عوام کی تفریح طبع کے لئے لطیفے بن چکے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ اڑھائی سالہ حکومتی کارکردگی کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہیں۔ عمران خان کا حکومتی ناکامیوں کو اپنی ناتجربہ کاری کے پلے باندھنا دراصل نالائقی اور نا اہلی کا کھلا اعتراف ہے۔

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے کہ خفیہ ہاتھوں نے دھاندلی کے زور پر نیازی حکومت کو اقتدار پر قابض کرایا۔ عوام عمران خان کو مقتدرہ کا کٹھ پتلی وزیر اعظم سمجھنے لگے ہیں اور پردے کے پیچھے کٹھ پتلی نچانے والے ہاتھ ملکی حالات میں بگاڑ کے اصل ذمہ دار ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پنجاب، سندھ، خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا یک زبان ہو کر سیاسی و حکومتی معاملات میں مقتدرہ کی مداخلت بند کرنے کا بیانیہ عوام کے دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ عمران خان کے ایک پیج کی تسبیح اور پی ڈی ایم کی اسٹبلشمنٹ پر سیاست میں مداخلت کے الزامات کی بوچھاڑ نے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کے بڑھتے ہوئے مسائل کی ذمہ دار عمران حکومت سے زیادہ ایک پیج والی اسٹبلشمنٹ ہے۔

اب آئین و قانون کی حکمرانی، منتخب سول اداروں کی بالادستی، خودمختار و آزاد عدلیہ اور میڈیا، اور غیر منتخب ریاستی اداروں کو آئینی دائرہ کار میں رکھنے کا بیانیہ، محض چند دانشوروں، سیاسی کارکنوں یا سیاسی اشرافیہ کا نعرہ نہیں رہ گیا۔ اسے محض سیاسی اشرافیہ کا بیانیہ کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ اس کی مخالفت میں حیلوں بہانوں سے تاویلیں گھڑنے والے آمرانہ قوتوں کے کا سہ لیس اور جمہوریت دشمن سوچ رکھنے والے کہلائیں گے۔

پاکستانی تاریخ کے اس موڑ پرعوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرتا ہوا یہ بیا نیہ، ہمیشہ سے جمہوریت پسند، ترقی پسند اور قوم پرست قوتوں کی جمہوری جد و جہد کا خاصہ رہا ہے۔ جمہوریت پسندوں، ترقی پسندوں اور قوم پرستوں نے پاکستان میں ہر فوجی آمر کو للکارا۔ فوجی آمروں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ غیر آئینی قبضوں کے خلاف، آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے ہمیشہ جد و جہد کی اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔

زوال پذیر پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان کے مخدوش سیاسی مستقبل کی نشانیاں ظاہر ہونے کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم خصوصاً پی پی پی، نون لیگ اور جے یو آئی کی آزمائش کا وقت بھی شروع ہو چکا ہے۔ مذکورہ سیاسی جماعتوں نے ماضی میں عوامی مفادات پر سودی بازی کر کے اقتدار تک پہنچنے میں کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے مقتدرہ کے آستانے پر جمہوری اصولوں اور عوامی مفادات کی قربانی دینے میں جھجک محسوس نہیں کی۔ اب مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں ابھرتی ہوئی نون لیگ اور پی پی پی کی نئی قیادت کے سیاسی مستقبل، ان کی جمہوری قدروں اور عوام کے ساتھ کمٹمنٹ کا بھی امتحان شروع ہو چکا ہے۔

ریاستی اداروں کی مداخلت کے بغیر فری اور فئیر الیکشن، پارلیمنٹ یعنی سویلین منتخب اداروں کی بالا دستی، آئین و قانون کی حکمرانی، آزاد اور خودمختار عدلیہ اور میڈیا، اس تحریک کے بنیادی مقاصد ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے عمران حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا، پی ڈی ایم تحریک کا پہلا نشانہ ہے۔ عمران حکومت کو گرانا تو شاید ممکن ہے۔ مگر محض عمران حکومت کے خاتمہ سے ملک میں سویلین بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ بنیادی اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کی تحریک مقتدرہ کو اس حد تک لے آئے گی کہ وہ آئین میں متعین کردہ حدود کی پاسداری کرنے پر قائل ہو جائے گی۔ اس سوال کا جواب پانے کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت کو برٹش انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے مطابق چلایا جاتا رہا۔ جس میں عوامی نمائندوں کے ذریعے جمہوری طرز حکمرانی کی بنیاد رکھنے کی بجائے ملک کو سول بیوروکریسی، فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے چلانے کی استبدادی راہ اپنائی گئی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی 1951 میں شہادت کے بعد برٹش سول سروس کا ایک کارندہ غلام محمد برٹش انڈین ایکٹ 1935 کے تحت گورنر جنرل کے طاقتور عہدے پر قابض ہو گیا۔

غلام محمد نے فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزارت دفاع پر فائز کر کے سول بیوروکریسی اور عسکری اشرافیہ کے اتحاد کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کو عملی شکل دے دی۔ غلام محمد اور جنرل ایوب خان کی شکل میں سیاسی اقتدار پر قابض سول ملٹری اشرافیہ نے جمہوری قوتوں کے خوف اور اپنے ناجائز اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کی خودمختاری کا سودا کرنے سے دریغ نہ کیا۔ ملک کو امریکہ کے ساتھ فوجی اور اقتصادی معاہدوں میں جکڑ دیا۔

1958 کو مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب خان ملک کے اقتدار اعلیٰ کا مالک و مختار بن گیا۔ 1969 کو جنرل یحییٰ مارشل لاء، 1977 کو جنرل ضیا ء مارشل لاء اور 1999 میں جنرل مشرف مارشل لاء نے عسکری اور سول بیوروکریسی اشرافیہ کے اقتدار پر آہنی شکنجے کو مضبوط تر کیا۔ طرز حکمرانی اور مخالف سیاسی جماعتوں سے روا سلوک کی بنا پر پی ٹی آئی کے نام پر بظاہر سیاسی بندوبست کو گزشتہ آمرانہ ادوار کا تسلسل ہی سمجھا جا رہا ہے۔

1973 میں عوامی منتخب نمائندوں کا متفقہ آئین نافذ ہونے کے باوجود پاکستان کی عسکری اشرافیہ نے سول بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے تعاون سے 1977 اور 1999 میں جمہوری منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر دو با ر اقتدار پر غیر آئینی غاصبانہ قبضہ کیا۔ اس دوران ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ ایک سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو دن دھاڑے راولپنڈی میں قتل کیا گیا۔ ایک سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو جبری جلاوطن کیا گیا۔ سیاسی کارکنوں کو پھانسیاں دینے، کوڑے مارنے، قتل کرنے، اذیت خانوں میں ٹارچر کرنے، جیل کی سزاوں اور جبری جلاوطن کرنے میں جنرل ضیاء حکومت کی دنیا میں مثال ڈھونڈنی مشکل ہے۔ سیاست میں کرپشن اور رشوت ستانی کا چلن بھی جنرل ضیاء مارشل لاء کی سوغات ہے۔

یہاں یہ یاد دہانی کرانی ضروری ہے کہ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے تمام طالع آزماؤں غلام محمد، جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو عوامی اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج کا دست تعاون حاصل رہا۔ سول بیوروکریسی اور عسکری اشرافیہ کی حکومتوں نے ظالمانہ قبائلی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو استحکام بخشا، جمہوری امنگوں کو کچلا، چھوٹی قومیتوں اور صوبوں کے حقوق سلب کیے ، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا خون کیا، جمہوریت اور جمہوری عمل کو برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ 1971 میں ملک کا دو لخت ہونا بھی فوجی جرنیلوں ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمرانہ پالیسیوں کا شاخسانہ تھا۔

اب دنیا کے حالات کروٹ بدل چکے ہیں۔ جمہوری اور سول حکومتوں کے تختے الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے طالع آزما جرنیلوں کو آسانی سے سامراجی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ جمہوری اور قوم پرست قوتوں کو کچلنے کے لئے انڈو سوویت لابی کے الزامات لگا کر امریکی سامراج کی حمایت حاصل کرنے کا ہتھیاربھی طالع آزماؤں کو میسر نہیں رہا۔ مگر ملک میں غداری کے سر ٹیفکیٹ بانٹنے اور انڈین لابی کا چورن بیچنے والے اسٹبلشمنٹی دانشور کہیں نہ کہیں اپنا گلا سڑا کچرا بیچتے مل جائیں گئے۔

اسٹبلشمنٹی دانشوروں کی سہولت کے لئے اسٹبلشمنٹ کی لغت میں انڈ و سوویت لابی کی بجائے انڈ و امریکی لابی کے الفاظ درج کر دیے گئے ہیں۔ ماضی میں انڈ و سوویت لابی کی رٹ لگانے والے اسٹبلشمنٹی طوطوں کی چونچوں سے انڈو امریکی لابی کی ٹر ٹر سننے کو مل رہی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ امریکی سامراج اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اگر اب بھی امریکی سامراج کو اپنے مذموم عزائم کے لئے کسی ملک میں فوج کے ذریعے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا پڑا تو یہ کر گزرے گا۔

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے مزاحمتی بیانیے نے عسکری اشرافیہ کو عوامی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے عسکری قیادت پر براہ راست الزامات، پی ڈی ایم کی قراردادوں اور قیادت کی طرف سے عسکری قیادت کے سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات نے عسکری اسٹبلشمنٹ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ اب عسکری قیادت کے لئے نیازی حکومت کی نا اہلی کا بوجھ اٹھانا اور پہلے جیسی حمایت جاری رکھنا دشوار ہو تا جا رہا ہے۔

پی ڈی ایم کی تحریک کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا تحریک کی قیادت کو خود علم نہیں۔ مگر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی کشمشکش اور حالات جوں کے توں رہے تو سیاسی بحران ٹلنے والا نہیں اور نہ ہی ملک کی معیشت بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے موجودہ کٹھ پتلی سیاسی بندوبست قائم ہوا اور برقرار ہے۔ تمام حربے برتنے اور توانائیاں صرف کرنے کے باوجود موجودہ کٹھ پتلی نظام چلنے سے معذور ہے۔

یہ کہنے میں حرج نہیں کہ بحران کی شدت کم یا ختم کرنے کی کنجی اسٹبلشمنٹ کی جیب میں ہے کیونکہ حالات میں بگاڑ کا ذمہ بھی اسی پر ڈالا جاتا ہے۔ شدید بحرانی کیفیت میں عسکری اسٹبلشمنٹ کے پاس کیا کیا آپشن ہیں۔ 1، نام نہاد ایک پیج والے موجودہ نظام کی پشت پناہی جاری رکھی جائے اور اسے رینگنے دیا جائے، اپوزیشن کی تحریک کو ریاستی قوت سے کچل دیا جائے۔ 2، پردے سے باہر نکل کر کٹھ پتلی نظام ختم کر کے براہ راست عنان اقتدار سنبھال لیا جائے۔ 3، آئین کے پیج پر آ کر ملک کی تقریباً سب سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے مطالبات کی روشنی میں ملکی سیاسی نظام کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کے لئے آمادگی ظاہر کی جائے۔

پہلا آپشن ناکامی سے دو چار ہو چکا ہے۔ اس آپشن کو موجودہ سیاسی و معاشی بحران کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ ممکن ہے دوسرے آپشن کے لئے مقتدرہ میں مشاورت بھی ہوئی ہو۔ شاید ساز گار حالات میسر نہ ہونے کی وجہ سے دوسری آپشن پر عمل کرنا مشکل نظر آتا ہو۔

ملک کے دگرگوں معاشی و سیاسی حالات، وسیع تر قومی مفاد اور بین الاقوامی صورت حال کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آئینی پیج پر یکجا ہونے کا نسخہ ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ واحد آپشن ہے جو سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور قومی یکجہتی کا راستہ کھول سکتا ہے۔ اب مقتدرہ کے پاس برٹش انڈین ایکٹ 1935 کے آمرانہ نو آبادیاتی ریاستی نظام کو جاری رکھنے کی آپشن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اب عوام اور جمہوری قوتیں برٹش نو آبادیاتی ریاستی بند و بست سے نجات پانے کی راہ پر چل نکلی ہیں۔

اب جمہوری قوتوں کے پاس ریاستی چیرہ دستیوں کے سامنے کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ جمہوریت لاغر ہو چکی ہے، منتخب سول ادارے بے بس اور زیر دست ہو چکے ہیں، آئین و قانون کی بالادستی خواب بن چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ اب جمہوری قوتوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا، صرف پانے کو ہے۔ آج حالات اور تاریخ کا دھارا عوام اور جمہوری قوتوں کے ساتھ ہیں۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں مقتدرہ، جمہوری قوتوں کے لئے کتنی جگہ خالی کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی اور منتخب سول اداروں کی بالادستی آواز خلق بن چکی ہے۔ اور یہ کسے معلوم نہیں کہ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).