گیولیا طوفانہ: 17ویں صدی کی خاتون جس نے دنیا کا سب سے پرسرار اور مہلک زہر بنایا


گیولیا توفانہ
سنہ 1791 میں ولفینگ امیڈیوس موزارٹ بسترِ مرگ پر پڑے یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ان کی بیماری دراصل زہر دیے جانے کا نتیجہ ہے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس زہر کے اجزا کیا ہیں۔

انھوں نے اس وقت کہا کہ ’کسی نے مجھے ایکوا طوفانا دیا اور میری موت کے عین وقت کا حساب بھی لگا لیا۔‘

ایکوا یا ایکوا طوفانا ایک افسانوی زہر تھا اور یہ جرائم کو مہارت اور انتہائی باریکی سے سرانجام دینے کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ یہ بظاہر بے زائقہ، بے رنگ اور بنا خوشبو کے تھا اس لیے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔

اس زہر کو دینے والا متاثرہ شخص پر اس کے اثرات کو کنٹرول کر سکتا تھا اور متاثرہ شخص کی موت کے وقت کو ایک ہفتہ، ایک ماہ یا ایک برس قبل تک جان سکتا تھا اور اس کے متاثرہ شخص کے جسم میں کوئی نشان نہ ملتے۔

اس پرسرار مائع، جس نے یورپ کو خوفزدہ کیے رکھا، کی تاریخ ایک صدی پرانی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس راز کا انکشاف ہونے سے قبل چھ سو مرد اپنی بیویوں کے ہاتھوں اس زہر کے اثرات سے مارے گئے تھے۔

یہ سب کیسے ہوا تھا یہ ایک تاریک لوک کہانی جیسا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بندوق کے زور پر زہر کا پیالہ

آسٹریلیا کا درخت جس کا زہر ’بچھو اور مکڑے جیسا ہوتا ہے‘

عالمی سطح پر پانچ میں سے ایک موت کا سبب سیپسِس

ایکوا طوفانا کی سب سے زہریلی قسم کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ 17ویں صدی کے دوران ایک اطالوی امیر خاتون گیولیا طوفانہ کی تخلیق تھی۔

وہ دیسی یا آرگینک کاسمیٹکس بنانے کے لیے جانی جاتی تھی، خصوصاً وہ ان خواتین کے لیے کاسمیٹک مصنوعات تیار کرتی تھی جنھیں چہرے پر نشانات او چھائیوں سے زیادہ سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔

ان کے ہم عصروں کے مطابق ایکوا طوفانہ کو ’سان نکولس ڈی باری کے مینا‘ کے طور پر چھپا کر بیچا جاتا تھا اور اسے ایک شفا بخش تیل سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کے گھروں میں عام پایا جاتا تھا۔

گیولیا توفانہ

’چیمبرز جریدے‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1890 میں اس کے چند قطرے کسی بھی طاقتور ترین شخص کی زندگی ختم کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے۔

کسی بھی خوشامدی غدار کی نگرانی میں اسے شراب، چائے یا کسی اور مشروب میں ملا کر دیا جاتا اور اس کے مہلک اثرات کا پتہ بھی نہ چلتا۔ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کو دیتی تو اس کے اثرات کے باعث شوہر تھوڑا چڑچڑا ہو جاتا، کچھ کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرتا، صرف اتنی سے طبیعت ناساز ہوتی جس پر وہ بمشکل ہی ڈاکٹر سے معائنہ کرواتا۔

اس زہر کی دوسری خوراک کے بعد سے ہی کمزوری اور تھکاوٹ کی شکایات مزید بڑھ جاتی مگر ایسے میں وہ خوبصورت بیوی جو اپنے شوہر کی حالت پر انتہائی پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتی دکھائی دیتی اور اپنے خوبصورت ہاتھوں سے ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق اپنے شوہر کا کھانا بھی تیار کرتی، پر شائد ہی کسی کو شبہ ہوتا۔

بس اسی طرح اس زہر کی تیسری خوراک ملتے ہی بڑے سے بڑا جنگجو بھی ڈھیر ہو جاتا تھا۔

’ڈاکٹر بھی یہ دیکھ کر پریشانی اور شش و پنج کا شکار ہو جاتے کہ محض ایک معمولی سی بیماری پر ان کی دوا اثر نہیں کر رہی اور انھیں اس مرض کی وجہ بھی سمجھ نا آتی، وہ مزید ادویات دیتے یہاں تک کے آخر کار متاثرہ شخص کی موت ہو جاتی۔‘

اتنے سارے مرد کیوں؟

اس داستان کے مطابق گیولیا طوفانہ نے یہ زہر سینکڑوں اطالوی خواتین کو دیا تھا جب تک کہ ان میں سے ایک خاتون نے اپنے شوہر کو زہریلا سوپ دیتے وقت گھبرا کر یہ بھانڈا نہیں پھوڑا تھا اور اس طرح اس نے وہ سب کچھ بتا دیا جو دیگر خواتین اب تک چھپانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

اگر آپ اس بات پر حیران ہیں کہ اس وقت کیوں اس قدر زیادہ تعداد میں خواتین یہ جرم کرنے پر آمادہ ہو گئی تھیں تو یاد رکھیں محبت کی شادی کرنا آج کے دور کے بات ہے۔ اس دور میں بااثر خواتین کی شادی بھی ان کی مرضی کے بنا طے کر دی جاتی تھی اور ان سے ان کے مستقبل کے شوہر کے متعلق راضی نامہ نہیں لیا جاتا تھا۔

اس طرح اس وقت کے معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ کم تر سمجھا جاتا تھا اور یہ بات حیران کن نہیں تھی کہ اگر ان میں سے کسی کا شوہر غصیلا ہوتا اور اس پر تشدد کرتا تو یہ رشتہ ان خواتین کی موت پر ختم ہوتا یا ان کی زندگیاں خطرے میں ہوتی تھی۔

محبت کے لیے قتل کرنا

ماریہ آلڈوبر انڈینی روم کے ایک نہایت بااثر اور طاقتور قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی شادی تیرہ برس میں ان سے تیس برس بڑے شخص ڈیوک آف سیری فرانسیسکو سیسی کے ساتھ کر دی گئی۔ ڈیوک فرانسیسکو بھی بہت نامور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔( ان کے والد گلیلیو کے قریبی سائنسدان ساتھی تھے اور مستقبل کے پوپ الیون کے بھتیجے تھے۔)

ڈیوک آف سیری سنہ 1657 میں شادی کے نو برس بعد اچانک فوت ہو گے اور ان کا شمار ان امیر ترین اور طاقتور ترین افراد میں ہونے لگا جو ایکوا طوفانہ زہر سکینڈل کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔

الیسیندرو اڈیمولو (1826-1891) کے بیان کے مطابق، جنھوں نے آرکیو دی سٹیٹو ڈی روما کے قدیم عدالتی ریکارڈوں کی بنیاد پر اپنی تحقیقات کے نتائج شائع کیے تھے، جیوانا ڈی گرینڈس، جو طوفانا کے لیے کام کرتے تھے، نے اعتراف کیا کہ الڈوبرانڈینی کو کسی اور سے پیار ہوگیا تھا اور اس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی جو پہلے ہی بیمار تھے۔

گیولیا توفانہ

انھوں نے روم کے ایک مرکزی چرچ کے پادری فادر گیرالو ڈی سنٹگانیس سے رابطہ کیا جو خواتین کو طوفانہ کا زہر مہیا کیا کرتے تھے۔

پادری نے انھیں ایکوا طوفانہ دیا اور کچھ دن بعد سیسی کی لاش تابوت میں پڑی تھی۔

تاہم وہ امید کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کر سکیں، ان کے اپنے گھر والوں نے اس کے پریمی سینٹینیلی کے ساتھ سکینڈل زدہ اور غیر مساوی دوسری شادی سے بچنے کے لیے انھیں قید کر دیا۔

کچھ برس بعد جب زہر خورانی کی حقیقت سامنے آئی تو ان پر اپنے شوہر کی موت کا شبہ کیا گیا لیکن سکینڈل سے بچنے کے لئے ان پر کبھی بھی الزام عائد نہیں کیا گیا۔

یہ کہانی الجھی ہوئی ہے

اس کہانی کے ساتھ مسئلہ صرف ناکافی تفصیلات اور معلومات کا ہے۔ چند روایات کے مطابق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گیولیا طوفانہ سنہ 1630 میں سسلی میں کام کرتی تھی۔ روم، نیپلز اور پالرمو کی باقی روایات میں کہانی کچھ ایسے ہی بیان کی گئی ہے۔

بعض جگہوں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ کہ انھوں نے اس زہر کو ایجاد کیا تھا۔ کچھ روایات کے مطابق انھیں یہ ان کی والدہ کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔

اس انتہائی پر اثر محلول کی ترکیب کسی کو نہیں پتہ البتہ سب ذرائع اس کو آرسینک یعنی سنکھیا کے عنصر ملا محلول قرار دیتے ہیں۔

محقق ڈیش کا کہنا ہے کہ یہاں اس کی پرسراسریت میں اضافہ ہو جاتا ہے جب ہم اس متنازع سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ طوفانہ اپنے انجام کو کب اور کیسے پہنچی تھیں۔

ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1651 میں طبی موت مری تھیں جبکہ دوسرے ذرائع کے مطابق انھوں نے ایک کونونٹ میں پناہ لے لی تھی اور کئی برس وہاں بیتائے اور وہاں وہ اپنا زہر بناتی رہیں اور مذہبی رہنماؤں کے ذریعے اس کو پھیلاتی رہیں۔

چند دعوؤں کے مطابق انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا، پھر تشدد کا نشانہ بنا کر انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ البتہ ان کی موت کے حوالے سے مختلف دعوے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان کی موت 1659، 1709 یا 1730 میں ہوئی تھی۔

ایک تفصیلی روایت کے مطابق طوفانہ کو ان کی پناہ گاہ سے لے جا کر گلا دبا کر مار دیا گیا تھا اور اس کے بعد ان کی لاش کو کونونٹ کے علاقے میں ہی رات کے اندھیرے میں دفنا دیا گیا تھا۔

ولفینگ امیڈیوس موزارٹ کا کیا بنا؟

ولفینگ امیڈیوس موزارٹ کبھی بھی اپنے بستر مرگ سے نہیں اٹھ سکے۔ وہ پانچ دسمبر 1791 کو 35 برس کی عمر میں فوت ہو گئے۔ ان کی موت کے تقریباً 230 برس اور درجنوں تحقیقوں کے بعد آج ہم ان کی موت کی وجہ جانتے ہیں۔

لیکن اب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی موت شاید زہر خورانی کے باعث ہوئی تھی لیکن آج بھی کوئی ایکوا طوفانہ کا ذکر نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp