بچوں کا جنسی استحصال: زینب الرٹ بل بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام میں کتنا کارآمد رہا؟


احتجاج
زینب ریپ اور قتل کیس کے بعد یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی کے ساتھ دیگر اقدامات اٹھائے جائیں
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر میں قصور میں سنہ 2018 میں آٹھ برس کی بچی زینب انصاری کا اغوا، ریپ اور پھر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے پس منظر میں بچوں کے جنسی استحصال اور ریپ کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں آواز اٹھائی گئی۔

پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات آئے روز سامنے آتے ہیں جبکہ ان واقعات کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو رپورٹ نہیں کی جاتی۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب میں گذشتہ برس (سنہ 2020 میں) بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے تقریباً 1337 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ شدہ کیسز کے مطابق صوبے میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے تقریباً 900 مبینہ واقعات ہوئے اور 400 سے زائد بچیوں کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔

پولیس کے ہی اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں سنہ 2009 سے لے کر سنہ 2019 کے دوران بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے تقریباً 18 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور سنہ 2018 میں یہ کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے تاہم سزا پانے والوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی۔

یہ بھی پڑھیے

قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کی منظوری دے دی

’زینب الرٹ ایپ‘ کیا ہے اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ کار

پاکستان: پانچ سال میں بچوں سے زیادتی کے 17 ہزار واقعات

اس بارے میں پولیس مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے کسیز میں زیادہ تر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد فریقین عدالت سے باہر معاملات طے کر لیتے ہیں۔

’یہی نہیں بلکہ قانونی معاملات سست اور مہنگے ہیں جس کی وجہ سے بھی بچے کے ورثا پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘

ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہمارے جیل کے ایک ڈاکٹر کے بیٹے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جسے والد کی جانب سے اس لیے رپورٹ نہیں کیا گیا کہ میرے بیٹے کی بدنامی ہو گی۔‘

مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ کے افسر کا کہنا تھا کہ میں نے خود اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کے باوجود بھی اس کا یہی ماننا تھا کہ کیس کا کچھ نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے ایسے کیسز کی بہت بڑی تعداد ہے جو رپورٹ ہی نہیں کی جاتی اور جس کی بنیادی وجوہات ہمارا نظام، آگاہی اور معاشرتی دباؤ ہیں۔

جنوری 2018 میں قصور میں زینب کے ریپ اور قتل کے بعد ملک بھر میں پائے جانے والے عوامی غم و غصے کے بعد شاید پہلی بار اس مسئلے پر کھل کر بات کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی کے ساتھ دیگر اقدامات اٹھائے جائیں۔ جس کے بعد ’زينب الرٹ بل‘ کی تیاری شروع کر دی گئی۔

زينب قتل کیس

قصور کی آٹھ برس کی زینب کے اغوا، ریپ اور قتل کے واقعے کے 14 دن بعد 24 برس کے مجرم عمران علی کو پکڑ لیا گیا تھا۔ مجرم انھی کے محلے کا ایک رہائشی تھا جسے ڈی این اے ٹیسٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا اور انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلا۔

ٹرائل کے بعد مجرم کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی۔

مجرم عمران علی نے سزا کے خلاف پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جو مسترد کر دی گئی جبکہ صدر مملکت کی جانب سے بھی رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد 12 اکتوبر 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے اور 17 اکتوبر 2018 کو انھیں پھانسی دے دی گئی۔

حکومت اور اداروں کی جانب سے زیب قتل کیس کو بطور ٹیسٹ کیس لیا گیا اور بار بار یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوششوں کو تیز کیا جائے گا مگر اس سب کے باوجود بھی پاکستان کے کئی شہروں میں بچوں کے خلاف جرائم کے کسیز سامنے آتے رہے۔

قصور میں رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے سنہ 2019 میں ’زینب الرٹ بل‘ کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر مقدمے کو مکمل کرنا ہو گا۔

زينب الرٹ بل کیا ہے؟

سنہ 2019 میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے پیش کیے جانے والے مسودے کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اور ایسے کسیز پر جلد از جلد کارروائی اور مجرم کی سزا کے حوالے سے نکات شامل کیے گئے۔

مسودے کے مطابق پولیس کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعے کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹے کے اندر اس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ بل میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا یہ اقدام قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔

اس کے علاوہ بل میں شامل ایک شق کے مطابق حکومت بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک ایپ لانچ کرے گی جس کی مدد سے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو فوری رپورٹ کیا جا سکے گا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں بھی مدد ملے گی۔

اس ایپ کو وزارت انسانی حقوق کی جانب سے اکتوبر 2020 میں لانچ کیا گیا تاہم اس بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت کی حدود میں ہو گا اور ملک کے چاروں صوبوں میں اس معاملے میں صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کی ذمہ دار ہوں گی۔

مجرم کو سزا کے معاملے پر بل میں شامل شق کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 14 سال کر دیا گیا جبکہ اگر کسی بھی کم عمر لڑکے یا لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد قتل یا شدید زخمی کر دیا جاتا ہے یا اسے خواہش نفسانی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی یا پھر عمر قید اور یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم سات سال قید کی سزا دی جائے گی۔

جائیداد کے حصول کے لیے اگر 18 سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید اور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ 18 سال سے کم عمر بچے کو ورغلا کر یا اغوا کر کے اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانا یا اسے اس کے والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کیے جانا قابل سزا جرم ہو گا۔

قصور واقعے کے دو سال بعد جنوری 2020 میں اس زینب الرٹ بل کو قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کر لیا گیا اور چند ہی ہفتوں بعد سینیٹ نے بھی اس قانون سازی کی منظوری دے دی۔

زنیب الرٹ بل کتنا کارآمد ہے؟

جب اس بل کو سینٹ میں پیش کیا گیا تھا تو اس کی منظوری سے قبل حزب اختلاف کے سینیٹرز نے بل کی فوری منظوری پر کچھ اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں چند خامیاں ہیں۔ جس پر حکومتی اراکین کی جانب سے کہا گیا کہ اعتراضات درست ہیں لیکن پوری قوم اس بل کے پاس ہونے کی منتظر ہے تاہم اس وقت یہ تجویز پیش کی گئی کہ ابھی بل کو پاس کیا جائے اور بعد میں ترمیم کی جائے۔ جس کے بعد اس بل کی منظوری دے دی گئی۔

ماہرین کے مطابق اس بل میں آج بھی کمیاں موجود ہیں۔ ایڈووکیٹ امتیاز احمد بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے قانونی معاملات سے منسلک ہیں۔

احتجاج

زینب الرٹ بل کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’اگر اس بل کے عملی نفاذ کی بات کی جائے تو اس میں ابھی تک سب سے زیادہ توجہ صرف پولیس کے نظام اور غفلت پر کی گئی ہے جبکہ اس بل میں مجرم کی سزا کی بات کریں تو پاکستان کے قانون کے مطابق پہلے ہی ریپ کیس میں موت کی سزا موجود ہے لیکن آج تک کتنے لوگوں کو یہ سزا ملی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بل کا اطلاق صرف اسلام آباد کی حدود تک ہی ہے جبکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

انھوں نے مزید کہا: ’میرے خیال میں اس بل کو ابھی تک اسلام آباد میں تجربے کے طور پر نافذ کیا گیا ہے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ کتنا کارآمد ثابت ہو گا جبکہ یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات پورے پاکستان میں رونما ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں ان کیسز میں سزا کی شرح کافی کم ہے، جس کی وجہ ادارے ہیں۔

’یہاں سب سے پہلے پولیس اور پھر اس کے بعد عدلیہ کا نظام آتا ہے۔ اگر پولیس ان کیسز میں جلدی ردعمل دیتے ہوئے 14 دن کے اندر اندر چلان جمع کرواتی ہے تو ہی کیس آگے چلتا ہے جبکہ عام روٹین میں پولیس کی جانب سے یہ چالان چھ، چھ ماہ تک جمع نہیں کروایا جاتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق ان کے پاس ایسے کیسز بھی ہیں جن میں پانچ سال بعد فیصلہ آیا ہے جبکہ ابھی بھی کئی کیس برسوں سے تاخیر کا شکار ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ساحل کے پلٹ فارم پر اس وقت بھی دو سو کیس التوا کا شکار ہیں۔

انھوں نے مزيد کہا کہ قانون بنانے سے مسائل کا حل نہیں نکلتا جب تک اس پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔

’بچوں کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے کیسز اور اس میں دی جانے والی سزاوں کا جائزہ لیں تو اس کی شرح انتہائی کم ہے۔ اس لیے یہ بل بھی اس وقت تک کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک نظام میں بہتری لا کر قانون پر سختی سے عملدرآمد نہ کروایا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp