ریاست یا بے رحم ڈائن؟


سنا ہے کوئی خان صاحب ہوا کرتے تھے، ریاست مدینہ کی باتیں کیا کرتے تھے، کہا کرتے تھے کہ ریاست ہو گی ماں جیسی، وہ دور فاروقی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ وطن عزیز کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواب دکھایا کرتے تھے۔ وہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے وعدے کیا کرتے تھے۔ مگر وہ سب شاید جھوٹے وعدے اور جھوٹے لارے تھے۔ وہ سب شاید طفل تسلیاں تھیں کہ انہی کے دور حکومت میں ریاست کے پالے ہوئے سرکاری غنڈوں نے معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا مگر صاحب مسند و اقتدار ’’دورہ قطر“ سے ابھی تک واپس نہ آ سکے۔ اسی ماں جیسی ’ریاست مدینہ‘ کے ”سرٹیفائیڈ صادق و امین حکمران“ کے دور میں کھیتوں میں کام کرتے بوڑھے والدین کے سامنے ان کے نوجوان لخت جگر کو ”سرکاری غنڈوں“ نے گولیوں سے چھلنی کر دیا اور ”ماں“ جیسی ”ریاست مدینہ“ بوڑھے والدین کو انصاف نہ دے سکی۔

”ماں“ جیسی اس ریاست مدینہ میں 13 سال کی بچی ریپ کا شکار ہو کر حاملہ ہو گئی لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ماں جیسی اس ریاست میں اسلام آباد میں فقط ناکے پہ نہ رکنے پہ ایک معصوم نوجوان کو 22 گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ وہ نوجوان جو ”ریاست مدینہ“ بنانے کے ”جرم“ میں پیش پیش تھا۔ وہی نوجوان جو ماں جیسی ریاست کے سربراہ کو برسراقتدار لانے کے لیے محنت کیا کرتا تھا۔ کیا ایسی ہوتی ہے ماں جیسی ریاست؟

مزید پڑھیے صاحب! اگر آپ پڑھ سکتے ہیں، اسی ریاست مدینہ میں کل پھر مزدوروں کی آنکھوں پہ پٹیاں باندھ کر ان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آخر رینگتی بھی کیوں، وہ کسی صاحب اقتدار و اختیار کے رشتے دار تو نہ تھے۔ قتل ہونے والا حیات بلوچ ہو یا اسلام آباد کا رہائشی اسامہ یا مچھ میں کان کنی کرنے والے مزدور۔ اس ملک میں غریب کو کبھی انصاف ملا تھا اور نہ ہی شاید کبھی ملنے کی امید ہے۔

یہ وہی ”ماں جیسی ریاست“ ہے کہ جہاں نشے میں دھت ایک طاقتور غنڈا دن دیہاڑے ایک ٹریفک وارڈن کو گاڑی تلے کچل کر فرار ہوتا ہے اور بعد میں عدالت سے وکٹری کا نشان بنا کر ریاست کے منہ پہ طمانچہ رسید کرتا ہے۔ اسی ماں جیسی ریاست کا ”سرٹیفائیڈ صادق و امین“ سربراہ دوسرے ممالک میں ٹرین حادثے پر وزراء کے مستعفی ہونے کے قصے سنایا کرتا تھا لیکن جب اسی ریاست میں ٹرین حادثے میں 80 لوگوں کی جانیں جاتی ہیں تو مستعفی ہونا تو درکنار کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ وہی ماں جیسی ریاست ہے جہاں غریب صلاح الدین ”ایہہ مارنا کتھوں سکھیا جے“ پوچھتا پوچھتا مار دیا جاتا ہے۔

سوچتا ہوں کیا ماں جیسی ریاست اس کو کہتے ہیں جو اپنے ہی بچوں کو کھا جائے؟ کیا ماں جیسی ریاست وہ ہوتی ہے کہ جس میں 135 بچوں کا قاتل احسان اللہ احسان ریاستی اہلکاروں کی حراست سے ”فرار“ ہو جائے؟ کیا ماں جیسی ریاست وہ ہوتی ہے جہاں شاہدرہ میں بچی کا ریپ کر کے قتل کر دیا جائے اور ورثا کو انصاف کے لیے روڈ بلاک کرنا پڑے مگر انصاف پھر نہ ملے۔ کیا ماں جیسی ریاست وہ ہوتی ہے جو معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر دے؟ ساہیوال کے معصوم، حیات بلوچ کی بوڑھی والدہ، قتل ہونے والے اسامہ کا باپ چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کیا ایسی ہوتی ہے ماں جیسی ریاست؟

نہیں صاحب اس کو ماں جیسی ریاست نہیں کہتے۔ یہ شاید ایک خونی ریاست ہے، جو اپنے بچوں کا خون پی کر خوش ہوتی ہے۔ اس ریاست کو ڈائن کہتے ہیں۔ یا شاید اس سے بھی بڑھ کر کچھ۔،  یہ ریاست اک ایسی ڈائن ماں ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھا جاتی ہے۔ یہ ریاست ساہیوال میں والدین کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ رکھنے والے بچے کو بھی قتل کر دیتی ہے کہ کہیں کل کلاں کوئی گواہی نہ دے دے مگر جب قتل عام کی ویڈیو بن جائے اور اس سے بھی چھوٹا بچہ گواہی دے دے تو ماں جیسی یہ ریاست معاوضہ ادا کر کے قاتلوں کو چھوڑ دیتی ہے کیونکہ قتل میں کچھ بڑے ہاتھ ملوث ہوتے ہیں۔

اس ”ماں“ جیسی ریاست کا بس صرف اپنے غریب بچوں پر ہی چلتا ہے، ملک توڑنے والے مجرموں اور مارشل لاء لگا کر آئین سے غداری کرنے والوں پر نہیں۔ اس ”ماں“ جیسی ریاست کا بس اسامہ ستی پر ہی چلتا ہے، کرنل کی بیوی، جرنل کے بیٹے پر نہیں کہ وہ تو اس ریاست کے ”خوابوں“ میں آتے ہیں اور ریاست کو اس کی اوقات دکھاتے ہیں۔

بس اس ریاست کے بارے مجھے مزید نہیں لکھنا، سکت ہے نہ مزید آنسو بہانے کی ہمت ہے۔ بس اتنا کہنا ہے کہ آپ کی طرح دوسرے بائیس کروڑ ”یتیموں“ کی طرح میں بھی اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب یہ ریاست مجھے، میرے باپ، بھائی، بیٹے کو کھا جائے اور تب تک شاید کوئی آنسو بہانے والا بھی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).