کرنل نادر علی، کچھ یادیں


سال 2020 میں اچھی خبریں شاذ و نادر ہی ملی ہیں۔ بری خبریں البتہ قطار لگائے کھڑی ہیں۔ ابھی عرفان حسین اور شمس الرحمان فاروقی صاحب کی رحلت سے سنبھلا ہی تھا کہ معلوم ہوا کرنل نادر علی انتقال کر گئے۔ کرنل صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ پنجاب اور پنجابی سے محبت ان کے خمیر میں شامل تھی۔ وہ علاقائی شاونزم سے بالاتر تھے اور ان کی پنجابی شناخت دیگر صوبائی شناختوں سے متصادم نہیں بلکہ انسانیت اور عالمیت میں گھلی ہوئی تھی۔ میں ایسے بہت کم لوگوں کو جانتا ہوں جو تمام تر مشکلات کے باوجود ان کی طرح زندگی انجوائے کرتے ہیں اور کرنا جانتے ہیں۔

انہیں موسیقی، رقص اور پنجابی زبان سے عشق تھا۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔ کئی برس پہلے میں مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ پر سلسلہ مضامین لکھ رہا تھا تو اس دوران کسی نے بتایا کہ کرنل صاحب لاہورمیں مقیم ہیں۔ خوش قسمتی سے میں ان کے بیٹے کو کئی برس سے فیس بک کے ذریعے جانتا تھا، لہٰذا کرنل صاحب کا پتہ اور فون نمبر حاصل کیا۔ اس کے بعد کئی دفعہ ان کی طرف جانا ہوا اور مختلف کانفرنسوں میں ملاقات ہوتی رہی۔

کئی برس قبل تھاپ کانفرنس میں انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے اوراپنے بچپن کا ذکر کیا۔ کرنل صاحب کی پیدائش کوہاٹ میں ہوئی لیکن انہوں نے بچپن کا زیادہ حصہ گجرات اور اس کے گردونواح میں گزارا۔ بٹوارے کے دوران ان کے والد نے کئی غیر مسلموں کی جان بچائی۔ اپنے والد صاحب کے بارے میں بتاتے تھے کہ علی گڑھ میں داخلے کے لئے انہوں نے علامہ اقبال سے سفارشی رقعہ لکھوایا تھا۔

کرنل صاحب نے ابتدائی تعلیم گجرات میں حاصل کی اور پھر کیڈٹ کالج حسن ابدال کے راستے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستانی فوج میں کمانڈو ٹریننگ انہی دنوں شروع ہوئی تھی اور کرنل صاحب اس ٹریننگ کا حصہ بنے۔ ملاقاتوں کے دوران وہ ذکر کرتے تھے کہ کمانڈو ٹریننگ کے لیے امریکی استاد بلائے گئے تھے۔ ان کا قیاس تھا کہ یہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے لمبی سازش کا حصہ تھا۔ میں اس قیاس کو غلط سمجھتا ہوں۔ اس موضوع پر جنرل مٹھا کی کتاب میں کافی مواد موجود ہے۔

کرنل صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں کچھ عرصہ بنگال میں گزارا اور انہیں اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ مغربی پاکستان کا استحصالی رویہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔ انہوں نے دیکھا کہ بنگالی افسروں کو باقی فوج سے کم تر سمجھا جاتا تھا اور ان سے امتیازی سلوک ہوتا۔ سنہ 1971 میں بنگال میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو کرنل صاحب اس وقت پی ایم ای کاکول میں انسٹرکٹرتھے۔ بنگال سے واقفیت کی بنیاد پر انہوں نے رضاکارانہ طور پر وہاں تعیناتی کے لیے درخواست دی۔ ان دنوں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران کی کوشش ہوتی تھی کہ بنگال نہ جانا پڑے، ایسے حالات میں کرنل صاحب کی درخواست بہت جلد منظور کر لی گئی۔

بنگال میں گزرے وقت نے کرنل صاحب کی زندگی پر گہرا نقش ڈالا۔ وہ بتاتے تھے کہ فوجی افسران عام بنگالیوں کو جنگ کا ایندھن سمجھتے تھے اور بے دریغ قتل عام میں ملوث تھے۔ انہوں نے کئی ”آپریشنز“ کا ذکر کیا جن میں مزاحمت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پاکستانی افسران پر فاتح بننے کا بھوت سوار تھا اور انہیں بنگالی لاشوں کا سکور بڑھانے کو کہا جاتا تھا۔ ان حالات میں کرنل صاحب نے اپنی محدود استطاعت کے مطابق کوشش کی کہ کسی بے گناہ کا خون ان کے یا ان کے ماتحتوں کے سر نہ ہو۔ اس خونریزی نے ان کے دماغی توازن پر اثر کیا اور بنگال میں پانچ مہینے گزارنے کے بعد وہ مغربی پاکستان آ گئے۔ لاہور میں انہیں Schizophrenia کا علاج کروانا پڑا اور کچھ عرصہ کے لئے وہ یادداشت کھو بیٹھے۔

ذہنی مرض کے باعث انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنی زندگی کا دوسرا باب شروع کیا۔

انہوں نے پنجابی زبان میں نظمیں اور کہانیاں لکھیں۔ وہ نجم حسین سید کی ہفتہ وار بیٹھک میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ذکر کیا کہ بیٹھک میں گرنتھ صاحب پڑھائی جا رہی ہے۔ میرے مطابق پاکستانی پنجاب میں پنجابی زبان کی ترویج اور ترقی میں نجم صاحب جیسا کردار کم ہی لوگوں نے ادا کیا ہے۔ کرنل صاحب نے The News on sunday کے لیے انگریزی میں ہفتہ وار کالم بھی لکھے۔ بی بی سی اردو پر ان کا طویل انٹرویو بنگال کی جنگ پر سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے اعزازات ملے۔ ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی آپ بیتی پنجابی میں لکھ رہے ہیں جو غالباً پنجند میگزین میں قسط وار شائع ہوئی۔ موسیقی اور رقص انہیں مرغوب تھے اور ان کی وفات پر ایک تصویر مشہور ہوئی جس میں وہ محو رقص ہیں اور پیروں میں گھنگرو بندھے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سنہ 2011 میں بریک (BRAC) کانفرنس سے ان کا خطاب تاریخی نوعیت کا حامل ہے۔ مکمل متن اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے :

بریک (BRAC) کانفرنس سے ڈاکٹر نادر علی کا خطاب

میرے لئے کرنل صاحب کی تاریخی حیثیت ایک گھر بھیدی کی ہے۔ انہوں نے پاکستانی نیشنلزم اور اس کے مضر اثرات کا آنکھوں دیکھا حال لگی لپٹی کے بغیر بیان کیا۔ فوج جیسے ادارے میں انہوں نے اپنے اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی اور اس تصادم میں اپنی ذہنی صحت کو خطرے میں ڈالا۔ عالمی ادب میں ان کا موازنہ آرتھر کوئسلر سے ہونا چاہیے جس نے کمیونسٹ نظام حکومت پر تنقیدی کتب لکھیں۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed