کیا اسامہ ستی کے قاتلوں کو سزا ہو سکتی ہے؟


اسلام آباد میں دن دھاڑے ایک جواں سال طالب علم پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ متواتر رونما ہونے والے واقعات کا تسلسل ہے جو ہمیں اکثر پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی مجرمانہ غفلت یا ”غلطی“ کی صورت دیکھنے کو ملتا ہے۔

اسامہ ستی کو مبینہ طور پر گاڑی نہ روکنے پر ایک، دو، دس نہیں بلکہ بائیس گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ فقط ایک شخص، جو بظاہر مسلح نہ بھی ہو اور نہ اس کے ساتھ دیگر ساتھی ہوں، اسے روکنے کے لئے اتنی زیادہ تعداد میں گولیاں مار دینا بے شک پولیس کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ اور غیر انسانی رویہ کا ثبوت ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سر عام کسی معصوم قتل و غارت گری میں ملوث پائے گئے۔ ایسے کچھ واقعات درج ذیل ہیں۔

7 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نزدیک خروٹ آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 5 چیچن باشندوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ ابتدا میں حکام کا یہ دعویٰ تھا کہ ان افراد کے خودکش بمبار ہونے کی اطلاع تھی، اس لیے ان پر فائرنگ کی گئی تاہم بعد میں سامنے آنے والی ویڈیو میں یہ لوگ نہتے نظر آتے ہیں۔ ویڈیو اب بھی شاید یوٹیوب پہ موجود ہو مگر میرے دماغ پر نقش ہے کہ مرتے مرتے بھی ایک عورت ہاتھ اٹھا فائرنگ سے منع کر رہی تھی کیونکہ ایک وجود میں دوسرا وجود پل رہا تھا۔ ان افراد میں 2 مرد اور 3 عورتیں تھیں، ایک عورت 7 ماہ کی حاملہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی پاسبان نے پہلے ان افراد سے مختلف مقامات پر رشوت لی اور بعد میں جب یہ لوگ شکایت کے لیے سرحدی سپاہ کی چوکی کی طرف جانے لگے تو پاسبان نے سپاہ کو اطلاع کی کہ خودکش بمبار ان کی چوکی کی طرف آرہے ہیں۔

8 جون 2011، کراچی میں ایک نوجوان سرفراز شاہ رینجرز اہلکاروں کے آگے گڑگڑاتا رہا کہ اسے نہ مارا جائے۔ رینجرز کی گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہوئیں اور اس کے تڑپنے کا نظارہ کرتے اہلکار اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے۔ ابتدا میں بتایا گیا کہ نوجوان تو ڈکیت تھا مگر پھر ویڈیو وائرل ہونے سے اصل واقعے کا پتہ چلا۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ نوجوان بے قصور ثابت ہوا مگر کسی اہلکار کو سفاکیت سے کیے گئے قتل پر سزائے موت نہیں دی گئی۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق مجرم قرار پانے والے اہلکار کو صدارتی معافی دے دی گئی تھی۔

13 جنوری 2017، ایک جعلی پولیس مقابلے میں ایک ”بہادر بچے“ ، ”دبنگ“ اور ”نڈر“ کے القابات سے معروف پولیس افسر راؤ انوار نے حسب عادت ایک نوجوان کو داعش کا کارندہ قرار دے کر مار ڈالا۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ مقتول کو سہراب گوٹھ کے کئی اور نوجوانوں کی طرح اٹھا کر قاری، ملا اور مفتی جیسے کچھ سابقے لاحقے لگا کر قتل کیا گیا ہے۔ راؤ انوار کو مفاہمت کے چیمپیئن جناب آصف زرداری نے بہادری پہ خراج تحسین پیش کیا۔ محکمے کے افسران بھی اپنے پیٹی بھائی کی مدد کو آئے اور کتنے ہی عرصے تک راؤ انوار تحقیقات کے لئے بھی نہ مل سکے۔ پختون پر امن دھرنے اور ملک گیر احتجاج کے بعد آرمی چیف نقیب کے والد سے ملے اور ان سے اچھی اچھی باتیں، وعدے کر کے آئے۔

جنوری 2019 میں سانحہ ساہیوال ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق حساس ذرائع سے معلومات ملنے پر ایک ”آپریشن“ کیا گیا جس میں دہشت گرد جاں بحق ہوئے۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ایک معصوم خاندان مارا گیا جس میں میاں، بیوی، بچی اور ان کا دوست ڈرائیور جاں بحق جبکہ زخمی، سہمے ننھے پھولوں کی تصویر آج بھی دل کو مٹھی میں دبوچنے کے لئے تازہ ہے۔

یہ سینکڑوں میں سے چند واقعات ہیں جن کے بارے میں تصدیق کی گئی کہ بے گناہ لوگ مسلح اہلکاروں کا شکار بنے۔ مقدمات بنے، میڈیا پر خبریں چلیں لیکن کیا کسی کو قرار واقعی سزا ہوئی؟ خروٹ آباد واقعے کی تحقیقات ہوئیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر باقر شاہ کو بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔ کون قصور وار تھا، کیوں سب کچھ ہوا یہ سب آج بھی کلاسیفائیڈ ہے کہ ملکی سلامتی کو غش آ جائے گا۔ سانحہ ساہیوال کے نامزد تمام اہلکار باعزت بری ہو چکے ہیں۔ نقیب اللہ کے والد وفات پا چکے مگر نہ اس کے کیس کا کچھ پتا ہے اور نہ اس کے قاتل کسی گرفت میں۔ ایک ذہنی معذور شخص صلاح الدین کو رحیم یار خان میں پولیس نے بیہمانہ تشدد کر کے مار ڈالا اور یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ثابت بھی ہوا مگر مقدمے کے شروع میں ہی ورثا کی جانب سے مجرموں کو معافی کا اعلان ہو گیا۔

کیا ان تمام واقعات کے تناظر میں ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ اسامہ ستی کے قاتلوں کو سزا ملے گی؟ پولیس یا دیگر ”تحفظ“ فراہم کرنے والے ادارے پاکستان میں بے اعتمادی اور خوف کی علامت کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ قانون پر کسی عام آدمی کا کتنا اعتماد ہے؟ راؤ انوار کے حامی بھی سب کو پتہ ہیں اور پنجاب پولیس کو انکاؤنٹرز پر شہ دینے والے کا نام بھی سب جانتے ہیں۔ وردی کے رنگ جدا جدا ہو سکتے ہیں مگر اس کی طاقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔ وردی کوئی بھی ہو سکتی ہے مگر طاقت ایک ہی ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کیپٹن کے دفاع میں جرات مند کمانڈو کو آنا پڑا اور بالآخر ”مشکوک“ کردار کا داغ لیے متاثرہ خاتون ملک چھوڑ گئی۔

یہ ایک انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ جن اہل کاروں کو ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے ہماری حفاظت کے لئے بندوقیں تھمائی جائیں وہی ہماری جان و مال پر حملہ آور ہوں۔ قانون کو موم کی ناک کی طرح اتنا مروڑ دیا جاتا ہے کہ وہ عام آدمی کی سمجھ اور رسائی سے باہر نکل جاتا ہے۔ پاکستان چاہے پرانا ہو یا نیا، پولیس ہماری وہی روایتی ہے اور جس ”پولیس ریفارم“ کے نعرے بلند کیے جاتے تھے متواتر نئے پاکستان میں وہی پولیس اپنی حماقت اور سفاکیت کے ساتھ چھتر، لتر کلچر کے ساتھ رواں دواں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).