کشیدگی کہاں لے جاتی ہے


شیخ رشید اپنی بات مکمل کر چکے تو بچوں نے احتجاجا ٹیلے ویژن کا گلا دبایا اور سوال کیا:کوئی شخص ملک کا شہری ہو، خواہ ہی بڑا ملزم یا مجرم کیوں نہ ہو، اسے شہریت سے کس طرح محروم کیا جاسکتا ہے؟

مجھے افراسیاب خٹک یاد آگئے۔ نیب پر پابندی لگی تو ابھی ان کے کھیلنے کھانے کے دن تھے یعنی وہ طالب علم تھے اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں ہوا کرتے تھے، وہی جیسے نوجوان ہوتے ہیں، بڑے بڑے خواب دیکھنا اور ہم عمروں کو ان میں شریک کرنے کے لیے دھواں دھار تقریریں کرنا۔پشاور زرعی کالج والوں نے انھیں مدعو کیا اور کہا کہ ہمارے مسائل ان دنوں کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہو گئے ہیں، آپ آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟

خٹک صاحب نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے، ابھی آواز اٹھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے تقریر کی اور کہا کہ ہمارے دیس میں ہر مسئلے کا حل مارشل لا میں تلاش کیا جاتا ہے، ہمارے مسائل حل نہ ہوئے تو طلبہ بھی مارشل لا لگا دیں گے۔ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لیے لکھے پہ ناحق، یہ بات بھی کسی فرشتے یعنی کسی خفیہ ادارے کے کارندے نے سنی اور رپورٹ کر دی۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگی اور حیدرآباد سازش کیس بنایا گیا تو یہ جملہ کام آیا اور نوجوان افراسیاب خٹک کو بھی مقدمے میں پھانس لیا گیا۔

بچوں نے یہ واقعہ سنا تو پھر ہنگامہ کیا کہ کل سے آج تک کچھ بدلا ہی نہیں، ماضی میں بے ضرر جملوں پر مقدمے بنائے جاتے تھے، اب پاناموں سے اقامے نکل آتے ہیں۔ مجھے پھر خٹک صاحب کی یاد آئی۔ حیدرآباد سازش کیس میں ان پر ایک الزام تھا کہ وہ ایسا پمفلٹ بانٹتے ہوئے پکڑے گئے تھے جس میں لکھا تھا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام پختونوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے اور اس جگہ کا نام رکھا جائے، پختونستان۔ یہ جرم عدالت کے روبرو آیا تو جج نے سوال کیا کہ کیا یہ پمفلٹ ملزم نے لکھا ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں۔ اچھا تو اس کے مصنف کو پیش کیا جائے۔ بتایا گیا کہ اس کے مصنف کو تو پکڑا نہیں گیا۔

پھر انھیں پکڑا کیوں گیا تھا؟ اس سوال کا جواب کئی برس کے بعد جنرل نصیر اللہ بابر نے دیا۔ واقعہ یہ تھا کہ خٹک صاحب ایجی ٹیشن بہت کرتے تھے جس سے حکمران جزبز ہوا کرتے، انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی مگر پختونوں کے اس چشم و چراغ نے پٹھے پر ہاتھ ہی نہ دھرنے دیا، اس پاگل پن کا علاج یہی تھا کہ جو الٹا سیدھا سمجھ میں آتا ہے، الزام لگاؤ اور بند کردو۔ یہ واقعہ سنا تو بچوں نے پھر شور مچا دیا کہ پھر بدلا کیا ہے؟ کل افراسیاب خٹک اور ان جیسے پکڑے جاتے تھے، آج خواجہ آصف قابو نہیں آئے تو وہ دھر لیے گئے۔

بعض بچے ہوتے ہی مشکل ہیں،کچھ انھیں تعلیم مشکل بنا دیتی ہے اور وہ کار مملکت کو بھی اصول کے ترازو پر تولنا چاہتے ہیں اور سوال پر سوال اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ بچے سیاست میں دلچسپی لیں، یہ کچھ ایسا معیوب بھی نہیں، قومی معاملات میں انھیں دلچسپی لینی چاہئے اور قومی زندگی کو تاریخ کے تناظر میں سمجھنا چاہیے لیکن لا ابالی پن کا برا ہو، ابھی انھوں نے کوئی خبر سنی تو وہ فکر مند ہوئے، سوال پر سوال اٹھا کر بڑوں کو زچ کر دیا، بڑے متوجہ ہوگئے تو بچے پب جی کی طرف متوجہ ہوگئے۔

حیدرآباد سازش کیس کا ذکر چلا تو الف لیلہ کی طرح ایک واقعے سے دوسرے واقعے نے سر نکالا۔ افراسیاب خٹک کا خیال یہ ہے کہ حیدرآباد سازش کیس دراصل بھٹو صاحب کی افتاد طبع کا نتیجہ تھا، ان کا زمانہ مخالفین کی تذلیل کے لیے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس مقدمے نے طول کھینچا تو بھٹو صاحب کو خیال آیا کہ یہ تو غلط ہو گیا، اب اسے درست ہونا چاہئے، انھوں نے اصلاح کی کوشش بھی کی لیکن اب یہ معاملہ کمبل بن چکا تھا، وہ اسے چھوڑنا چاہتے تھے لیکن کمبل ہی چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔

1977ء کے انتخابات قریب آئے تو مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان بھٹو صاحب سے ملے اور انھیں مشورہ دیا کہ انتخابات کھلے اور خوش گوار ماحول میں ہونے چاہئیں، اس لیے حیدرآباد کے اسیروں کو چھوڑ دیں اور مقدمہ بھی ختم کردیں۔

بھٹو صاحب نے کہا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن جنرل ضیا مجھے یہ کرنے نہیں دیتا۔افراسیاب خٹک کا خیال یہ ہے یہ جنرل ضیا الحق جیسے ہی لوگ تھے جو بھٹو صاحب کو تلخی اور کشیدگی میں الجھاتے چلے گئے، بھٹو صاحب کو تو اس سے فایدہ کیا ہوتا، ان لوگوں نے اس صورت حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ آئین جو بڑی محنت اور مشکلوں سے بنا تھا، معطل ہوا اور خود بھٹو صاحب مصیبت میں پھنس گئے۔ گویا اذیت پسندی ممکن ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے انسان کے نفس کی تسکین کا باعث بن جائے لیکن اصل میں یہ راستہ کھوٹا کردیتی ہے۔

مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد بھٹو صاحب نے بھی نئے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، قوم مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر دل گرفتہ تھی، سیاسی قائدین سیاسی، نفسیاتی اور ثقافتی، ہر اعتبار سے بھٹو صاحب سے اختلاف رکھتے تھے لیکن زخموں سے چور ملک کو مضبوط اور توانا کرنے کے لیے ان سے ہاتھ ملانے پر آمادہ تھے لیکن اقتدار کی طاقت نے کچھ ایسے مسائل پیدا کر دیے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، سیاست اور اہل سیاست، دونوں ان مسائل کی اس دلدل میں دھنستے چلے گئے، نتیجہ ایک سانحے کی صورت میں برآمد ہوا۔

تاریخ کی خوبی یہ ہے کہ وہ قوموں اور ان کی قیادتوں کو ماضی کے واقعات سے آگاہ کر کے آنے والے سانحوں سے بچانے کا راستہ دکھاتی ہے کیوں کہ سانحات اپنی عادت کے مطابق قطار باندھے پر وقت قطار میں کھڑے رہتے ہیں اور کوئی ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان کی راہ نہ روک دے تو یہ اسے زیر کر کے ہی رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).