سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ’حکومت سیاسی اتفاق رائے پیدا کیوں نہیں کرتی؟‘


سپریم کورٹ
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس برس ملک کے ایوان بالا کے انتخاب اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ سینیٹرز کا انتخاب کرنے والے ووٹرز اپنی سیاسی جماعتوں کو جوابدہ ہیں اور کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں سے بات کر کے کوئی سیاسی حل نکالتی۔

سینیٹ کے الیکشن سے متعلق صدارتی ریفرنس صدر مملکت عارف علوی نے وزیرِاعظم کی تجویز پر 23 دسمبر کو سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل کے تحت عدالت عظمٰی سے رائے طلب کی گئی ہے کہ کیا اوپن بیلٹنگ کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔

اس ریفرنس میں آئین میں ترمیم کیے بغیر متعلقہ قانون میں خفیہ بیلٹ سے متعلق شق میں ترمیم کرنے پر بھی رائے مانگی گئی ہے۔

اس صدارتی ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے جبکہ آئندہ سال سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے تحت کروایا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے بارے میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کی جہاں وفاقی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے صدارتی ریفرنس کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس میں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ الیکشن میں خفیہ کی بجائے اوپن بیلٹ کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر

’سینیٹ کا الیکشن ایک مہینہ پہلے کروائیں یا بعد میں، عمران خان حکومت کو نہیں بچا پائیں گے‘

صدر

انھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پر ہوتا ہے؟

آئین کی اس شق کے تحت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب بھی اوپن کروائے جاسکتے ہیں جبکہ باقی انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہوں گے۔

بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔‘

جسٹس اعجاز الااحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے ہیں، آئین کے تحت نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے۔

انھوں نے کہا کہ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہو گی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح تو مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہو گا اور اُنھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز شامل ہیں، کے درمیان جو میثاق جمہوریت ہوا تھا اس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ہی ہونے چاہییں جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت سیاسی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتی۔‘

بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ اس بات پر دلائل دیں کہ آیا یہ صدارتی ریفرنس قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت دو سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو عدالت کیوں سیاسی معاملات کو دیکھے۔

عدالت نے سینیٹ کے چیئرمین کے علاوہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو نوٹس جاری کرنے کے علاوہ تمام صوبوں اور وفاقی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ اس بارے میں اخبارات میں ایک نوٹس بھی شائع کیا جائے تاکہ اگر کوئی شخص اس بارے میں اپنی معروضات جمع کروانا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہوگی۔

سماعت کے دوران عدالت نے اس معاملے میں عدالتی معاونین بھی مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس صدارتی ریفرنس کی سماعت 11 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

سماعت کے دوران حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چند ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp