لوگ بیٹی کو ’بیٹا‘ کہہ کر کیوں بلاتے ہیں؟


آپ نے بہت لوگوں کو بیٹی کو ’بیٹا‘ کہہ کر پکارتے دیکھا ہو گا لیکن کبھی دیکھا کہ کسی نے بیٹے کو بیٹی کہہ کر بلایا ہو، نہیں ناں، بھلا کیوں؟ میں بتاتا ہوں۔

آپ نے بہت لوگوں کو زیر لب مسکراتے سنا ہو گا، لڑکا بڑا ہو گیا ہے۔ سکینڈل بن رہے ہیں، کریکٹر ڈھیلا ہو رہا ہے۔ اس کی شادی کر دو لیکن کبھی کسی لڑکی کے بارے میں ایسی بات ہلکے پھلکے سے انداز میں ہوتے دیکھی، نہیں ناں، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ روز سنتے ہوں گے کہ بھائی نے بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ کبھی سنا کہ بہن نے بھائی کو غیرت کے نام پر قتل کیا ہو۔ نہیں ناں ، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے کسی خاتون کو جرم کا نشانہ بننے پر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہو گا  کہ ‘غلطی اسی کی ہے، گھر سے نکلی ہی کیوں’ جیسا کہ موٹروے سانحے کے بعد ہوا تھا۔ ایسا کسی مرد کے لیے سنا، نہیں ناں ، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے بہت لوگوں کو کہتے سنا ہو گا کہ میٹرک بہت ہے۔ اس نے کون سا نوکری کرنی ہے جبکہ لڑکے ایسی کسی بندش سے مستثنیٰ ہیں، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے بہت لڑکوں کو دوسرے شہروں یا ملکوں میں جا کر نوکریاں کرتے دیکھا ہو گا لیکن لڑکیاں کتنی دیکھیں؟ وجہ؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے بہت لوگوں کو خود ہی اپنے گھر کی خواتین کو کم عقل کہتے سنا ہو گا ایسے الفاظ کبھی ان سے باپ، بھائی یا بیٹے کے لیے سنے، نہیں ناں، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

غصہ کسی پہ بھی ہو گالیوں کی کلاشنکوف گھریلو خواتین کی طرف ہی ہوتی ہے، کیوں؟ بتاتا ہوں۔
آپ نے اکثر لوگوں کو کش لگاتے ہوئے سنا ہو گا ’وہ فلاں عورت سگریٹ پیتی ہے ۔۔۔۔۔ کہیں کی‘

آپ نے برلب سڑک ’وٹوانی‘ کرنے والے سے  لے کر ایسے شارٹس، دھوتی، سوٹ اور جینز والے بھی دیکھے ہوں گے جو بتائیں گے کہ تمام مسائل کی جڑ کپڑوں کی وہ قسم ہے جو آج کل خواتین پہنتی ہیں۔ وہ کیسے؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر لوگوں کو فخر سے کہتے سنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو باپ کی شکل میں سہارا موجود ہوتا ہے۔ بڑی ہوتی ہے تو بھائی، شادی کے بعد شوہر اور اس کے بعد بیٹے کے طور پر سہارا موجود ہوتا ہے لیکن کبھی کسی کو یہ کہتے سنا کہ لڑکی کو آخر سہاروں ضرورت ہے کیوں، وہ اپنا سہارا خود کیوں نہیں بن سکتی؟ نہیں ناں، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر ماؤں کو بیٹیوں کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ ڈولی میں بیٹھ کر جا رہی ہے، وہاں سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہیے۔ کبھی بیٹے کے لیے ایسی کوئی ’نصیحت‘ سنی، نہیں ناں ، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر مذہب، روایات اور کلچر کو خواتین کے خلاف استعمال ہوتے دیکھا ہو گا جیسا کہ کافی سال قبل بلوچستان کی ایک سیاسی شخصیت نے خواتین کو زندہ دفن کرنے کے واقعے پر کہا تھا ’یہ ہماری روایت ہے۔‘

آپ نے اکثر خواتین کے کسی ایشو پر ایسے غیر متعلقہ نکات ضرور سنے ہوں گے جن کا سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا جیسا موٹر وے واقعے کے ملزموں کو نامرد کرنے کی تجویز کے موقع پر ہوا اور ایک مولانا اسمبلی میں فرماتے دیکھے گئے کہ ’زبردستی کے واقعات تو مردوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں، کیا خواتین کو بھی ایسی سزا دی جا سکے گی؟‘ ایسا کیوں ہے؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اچھی خاصی پڑھی لکھی، بولڈ، ملازمت پیشہ خواتین کو بھی غیرمتوقع طور پر مصلحتوں کا شکار ہوتے دیکھا ہو گا، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ فلاں مذہب کی لڑکی نے مذہب لڑکے سے شادی کر لی، لیکن کبھی سنا کہ لڑکے نے مذہب تبدیل کیا ہو، نہیں ناں، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے یہ بھی سنا ہو گا کہ ایک دھان پان سی لڑکی نے پورے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی لیکن اسی خاندان کے گھبروؤں سے کبھی ایسی ’غلطی‘ نہیں ہوتی، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

اب یہ نہ پوچھ لیجیے گا کہ پورے خاندان کی عزت اس لڑکی کے پلو سے کب اور کس نے باندھی؟ چلیں یہ بھی بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر جرگوں، پنچایتوں میں بچیوں کو سوارہ یا ونی ہوتے دیکھا ہو گا لیکن کبھی کسی مرد کو ایسی کسی قربانی کی ’سعادت‘ نصیب نہیں ہوتی، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

آپ نے اکثر لوگوں کو غیرت میں آ کر قتل کرتے دیکھا ہو گا لیکن جب صلح میں بیٹی، بہن کا رشتہ دینا پڑے تو ان کی غیرت کسی کونے میں جا کر سو جاتی ہے، بھلا کیوں؟ بتاتا ہوں۔

جہاں پہلی بچی کی پیدائش پر خاتون کو ملامتی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجانا پڑے۔ دوسری کی پیدائش پر خود کو مجرم تصور کرنا پڑے اور تیسری اولاد کی آمد سے قبل لاکھوں خدشات دامن تھامے رہیں۔ وہاں قصور وار کون ہے؟ بتاتا ہوں۔

اب آئیے اصل بات کی طرف اور جھٹک دیجیے اس نکتے کو کہ ’عورت اور مرد برابر ہیں‘ کیونکہ اس کے جواب میں ناچیز  نے ایسے ایسے ’دلائل‘ سن رکھے ہیں کہ محاورتاً نہیں حقیقتاً سر پیٹنا پڑا۔

ایک صاحب کا استدلال تھا کہ ’کیا خاتون دھوتی باندھ کر گلی میں رکشہ دھو سکتی ہے؟‘
ایک اور کے مطابق ’کیا بس کی چھت پر بیٹھ کر فیصل آباد سے لاہور جا سکتی ہے؟‘

ایک اور دانشور ٹائپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’مغرب میں تو عورت اور مرد کو برابر سمجھا جاتا ہے، پھر وہاں واش روم الگ الگ کیوں ہوتے ہیں؟‘

ایک سیاسی شخصیت کے منہ سے ایسے الفاظ بھی سن رکھے ہیں جو صحت کا شعبہ خاتون رکن کے حوالے کرنے کے مشورے پر بولے گئے، جناب نے فرمایا ’جو خود مہینے میں تین روز بیمار رہے، وہ یہ شعبہ کیسے سنبھال سکتی ہے‘

خیر بات ہو رہی تھی بیٹی کو بیٹا کہنے کی، بھئی تو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس سے غیر شعوری طور پر ہم یہ بات تسلیم کر اور بچیوں کے ذہنوں میں انڈیل رہے ہوتے ہیں کہ بیٹی کمزوری کی علامت ہے اور اس کو بیٹا ہونا چاہیے تھا۔ اوپر کے تمام سوالات کا جواب یہی سوچ ہے۔

میری دو بیٹیاں ہیں اور دو ماہ بعد نئے مہمان کی آمد متوقع ہے۔ کل ہی شریک حیات بتا رہی تھیں کہ ایک بزرگ خاتون نے لڑکے کے لیے کوئی وظیفہ بتایا ہے جو ماں باپ دونوں کو کرنا ہے ساتھ ہی بزرگ خاتون کا یہ فرمان بھی سنایا ’بھائی بہنوں کا پردہ ہوتے ہیں، بھائی نہ ہو تو لڑکیاں‘ تلی تلی تصویر ’ہو جاتی ہیں۔‘

آج کل حال یہ ہے کہ روز ہی اہلیہ ایسی احادیث اور اقوال ڈھونڈ ڈھانڈ کر موبائل پر بھیج رہی ہیں جن میں بیٹیوں کے ماں باپ کے لیے بڑے اجر کا ذکر ہوتا ہے۔ آج بھی انہوں نے ایک ویڈیو کلپ بھجوایا ہے جس میں کوئی صاحب بتا رہے ہیں کہ بیٹیاں باپ کو ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں  لے کر جائیں گی۔ اب میں صدف کو کیسے بتاؤں کہ مجھے شاید جنت میں جانے کی خواہش ہی نہ رہے، اگر تیسری گڑیا مل جائے تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).