دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد


سن دو ہزار بیس کے آخر میں ہونے والے اہم عالمی واقعات میں ایک یہ تھا کہ چین اور جاپان کی قیادت میں دنیا کے پندرہ ملکوں نے کرہ ارض کے سب سے بڑے تجارتی اتحاد پر دست خط کیے جسے آر سی ای پی (RCEP) کا نام دیا گیا ہے۔

گو کہ فی الوقت اس میں پندرہ ممالک شامل ہیں پھر بھی اس تجارتی اتحاد کو دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد اس لیے کہا جا رہا ہے کہ اس میں شامل ممالک چین اور جاپان کی سرکردگی میں عالمی معیشت کا تقریباً ایک تہائی حصہ رکھتے ہیں۔ اس ریجنل کمپری ہینسیو اکنامک پارٹنر شپ چین اور جاپان کے علاوہ جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ یار رہے کہ اس معاہدے کی تشکیل کے لیے آر سیپ سے متعلق مذاکرات 2012 میں شروع کیے گئے تھے اور آٹھ سال کی طویل بیٹھکوں کے بات اب ویت نام کی میزبانی میں آسیان یا ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین نیشنز کے ورچوئل اجلاس میں اس معاہدے پر دست خط کیے گئے۔

جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان پہلے ہی ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ معاشی و سیاسی تعاون کے راستے پر گام زن رہی ہے۔ پھر اس کا ایک اہم پارٹنر شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) بھی ہے۔ ایس سی او کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چین کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک اور روس بھی شامل ہیں، اسے 2002 میں بنایا گیا تھا جب کہ آسیان کو 1967 میں تشکیل دیا گیا تھا۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے پچاس سال میں جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک بتدریج ایک دوسرے کے قریب آتے گئے ہیں، مگر اب تک ان میں دنیا کی تین اور بڑی معیشتیں یعنی امریکا، بھارت اور جاپان شامل نہیں ہو سکیں۔ جاپان نے آر سیپ کے حالیہ معاہدے میں شامل ہو کر بہت بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے اس خطے اور ایشیا کے علاوہ دنیا پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

آر سیپ کے معاہدے کے مطابق آئندہ بیس برس میں بہت سی اشیا کی برآمد پر ٹیکس ختم کر دیے جائیں گے، خاص طور پر اس معاہدے کے تحت، جملہ حقوق، ٹیلی مواصلات، مالیاتی خدمات اور الیکٹرانک کامرس وغیرہ کے شعبوں میں بڑی پیش رفت ہونے کا امکان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدے سے پہلے بھی آسیان اور ایس سی او یا شنگھائی تعاون تنظیم موجود تھی تو اس نئے اتحاد کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل پچھلے دونوں معاہدے خاص محدود نوعیت کے حامل رہے ہیں اور ان میں پیچیدگیاں بھی کافی تھیں۔ پچھلے معاہدوں کے تحت اشیا کی رسد یا سپلائی چین میں خاصے مسئلے تھے۔

مثلاً ایک چیز میں لگنے والے جز کسی دوسرے ملک سے لائے گئے ہوں تو ان پر ٹیکس لاگو ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی مشین ویت نام میں بن رہی ہو اور اس کے پرزے آسٹریلیا سے آئے ہوں تو آسیان کے معاہدے کے تحت ان پر ٹیکس لگ سکتا ہے، کیوں کہ آسٹریلیا آسیان میں شامل نہیں ہے۔ مگر اب آر سیپ کے تحت کسی بھی چیز یا مشین کو بنانے کے لیے کسی اور آر سیپ رکن ملک سے لائے گئے اجزا یا پرزے برابر تصور کیے جائیں گے یعنی ٹیکس نہیں لگے۔ اب معاہدے کے تحت شامل ممالک کی کمپنیاں پندرہ رکن ممالک سے ہی اجزا یا پرزے خریدنے کی کوشش کریں گے تاکہ ٹیکس سے بچ سکیں یعنی اگر وہ امریکا یا بھارت سے خریدیں گے تو ٹیکس لگے گا۔

اسی لیے جاپان نے بھی عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاہدے میں امریکا کے بغیر ہی شمولیت اختیار کرلی ہے گو کہ جاپان کی فوجی حفاظت کا ذمہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا نے لے رکھا ہے، جس کی وہ بھاری قیمت بھی وصول کرتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد جاپان اور چین کے ساتھ اس خطے کے کل پندرہ ممالک سے مل کر تجارتی فوائد حاصل کر سکے گا، جس کا فائدہ تمام پندرہ ممالک کی کمپنیوں اور معیشت کو ہو گا۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تجارتی اتحاد دراصل سفارتی سطح پر بھی کارآمد ہوتے ہیں اور ان سے سیاسی اور فوجی مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

اس لیے آسٹریلیا، جاپان اور چین کا اس معاہدے میں منسلک ہونا بہت اچھا شگون ہے، کیوں کہ آسٹریلیا اور جاپان عرصے سے امریکا کے بہت قریب رہے ہیں اور اس لیے چین سے دور دور بھی کیوں کہ ان کے حلیف امریکا نے روایتی طور پر چین اور روس کی جانب معاندانہ رویے رکھے ہیں، خاص طور پر پچھلے چار سال میں ٹرمپ کے دور صدارت میں تو چین کو باقاعدہ گھیرنے کی کوشش کی گئی جس سے آسٹریلیا اور جاپان کے تعلقات بھی چین سے متاثر ہو رہے تھے۔ اس معاہدے سے سب سے زیادہ فوائد جاپان اور چین ہی حاصل کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ امریکا بھی اس فائدے میں شریک ہو سکتا تھا مگر ٹرمپ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ 2017 میں امریکا نے ایشیا اور بحرالکاہل کے تجارتی معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا تھا۔

اس معاہدے میں بارہ ممالک شامل تھے اور سابق صدر اوباما اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے تھے تاکہ امریکا بھی جاپان اور چین کی طرح اس خطے میں اپنا کردار ادا کرسکے اور معاشی فوائد بھی لے سکے، پھر ظاہر ہے اس سے خطے کی سیاسی و فوجی کشیدگی بھی کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے چار پانچ برس میں جاپان اور چین نے امریکا سے زیادہ سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے اور بڑی وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے آزاد معیشت کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے، جب کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا اپنے کردار سے پیچھے ہٹتا گیا، یہی ٹرمپ کی ناکامی کی وجوہ میں ایک بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔

امریکا کے ساتھ بھارت نے بھی اس معاہدے کے مذاکرات سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی کیوں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمجھتے تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ ان کو زیادہ فائدے پہنچائیں گے اور چین کے مقابلے میں ایک بڑی فوجی طاقت بننے میں مدد دیں گے۔ ٹرمپ اور مودی کی اس سوچ نے امریکا اور بھارت دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مودی کو پاکستان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے تھا۔ جب پاکستان پوری صدی امریکا کی خدمت کر کے اپنی معیشت کو درست نہیں کر سکا تو مودی یہ کس طرح کر سکتے تھے۔ اب بھارت بھی امریکا کی طرح الگ تھلگ کھڑا ہے اور جاپان، چین فائدے حاصل کریں گے۔ آر سیپ (RCEP) کے نئے اتحاد میں گو صرف پندرہ ممالک ہیں، مگر یہ دنیا کے دوسرے بڑے اتحادوں سے بھی بڑا ہے۔

دیگر اتحاد امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کے تجارتی معاہدے اور یورپی یونین کے معاہدے پر مشتمل ہیں مگر آر سیپ کے رکن ممالک عالمی آبادی کا نہ صرف ایک تہائی حصہ رکھتے ہیں یعنی ڈھائی ارب سے زیادہ آبادی ان پندرہ ممالک میں رہتی ہے اور پھر ان کی کل پیداوار بھی مجموعی عالمی پیداوار کا تقریباً ایک تہائی ہے۔

اس نئے اتحاد کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف آئی ایم ایف ) کے عالمی معاشی تجزیے کے مطابق بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں بہت بڑی کمی کا امکان ہے جب کہ چین اور جاپان اس معاملے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ہی جاری ہونے والے تجزیے میں آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ آئندہ دو سال عالمی معیشت کے لیے بڑے حیران کن ہوسکتے ہیں جن میں بھارت کی خراب کارکردگی اور چین کی بہتر ترقی کے اشارے دیے گئے ہیں۔

اس طرح بنگلہ دیش کے بارے میں جو اندازے لگائے جا رہے ہیں ان کے مطابق وہ بھارت سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا اور اس کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ اس خطے کے بھارت اور پاکستان جیسے ممالک سے خاصا بہتر نظر آ رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس مجموعی پیداوار اس سال چار فی صد کے حساب سے ترقی کرے گی جب کہ بھارت اس میں دس فی صد کمی دیکھے گا۔

اب اس صورت حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق پاکستان اور نیپال سب سے نیچے ہوں گے، حتی کہ بنگلہ دیش کے علاوہ بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک بھی پاکستان اور نیپال سے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ اب آر سیپ (RCEP) میں شمولیت کے بعد چین کیسے آگے جائے گا؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث تقریباً ساری دنیا کی معیشتیں مندی کا شکار ہیں لیکن چینی تجارت پھل پھول رہی ہے۔

صرف ستمبر کے اعداد و شمار کے مطابق چین کی برآمدات میں تقریباً دس فی صد جب کہ درآمدات میں تیرہ فی صد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ چین نے کورونا کی آمد کے بعد شروع میں ہی سخت لاک ڈاؤن لگا کر تین ماہ تو زبردست مندی برداشت کی لیکن جولائی کے بعد اس کی معیشت بہتر ہوتی گئی جس میں اب آر سیپ میں شمولیت کے بعد مزید بہتری کا امکان ہے جب کہ امریکا اور بھارت اس سے محروم رہیں گے۔ جاپان، امریکا اور بھارت سے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے اور اس سلسلے میں آر سیپ جاپان کا بھی معاون ہوگا۔

تجارت میں بحالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہو گی کہ گھریلو الیکٹرانکس اور طبی آلات وغیرہ کی بین الاقوامی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور جاپان کے ساتھ چین بھی ان آلات اور اشیا کی تیاری اور برآمد میں بڑا کردار ادا کرتا ہے، اس لیے ان دونوں ممالک کو آر سیپ سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ اگست 2020 میں جاپانی معیشت نے بہت تیزی سے کمی کا سامنا کیا تھا، جس کی بڑی وجہ برآمدات میں کمی تھی، مگر اب اس میں بہتری کا امکان ہے۔ جاپان اور چین دونوں کے سب سے بڑی تجارتی حلیف آسیان اس کے بعد امریکا اور یورپی یونین رہے ہیں، مگر آر سیپ (RCEP) پر دستخط کے بعد اس کا کردار سب سے اہم ہو جائے گا۔

یہاں ہمیں پاکستان کے کردار پر بات کرنے کی بڑی ضرورت ہے کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو اسرائیل اور عرب ممالک معاہدے کر کے خطے کی معیشت میں اہم تبدیلیاں لا رہے ہیں، دوسری طرف آر سیپ جیسے معاہدے جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے ہیں جب کہ ہم جنوبی ایشیا میں اپنی ستر سالہ پرانی سوچ کو لیے اپنے ہم سایہ ملکوں سے بہتر تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، چاہے وہ افغانستان اور ایران ہوں یا بھارت اور بنگلہ دیش یا پھر خود سارک (SAARC) کے اندر تجارتی تعلقات، ہم ہر سطح پر اپنی سوچ بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ مشرق وسطی اور مشرق بعید دونوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ چاہے وہ اسرائیل اور امارات اور بحرین ہوں یا جاپان، چین اور آسٹریلیا، سب اپنے اپنے معاشی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، پہلے تجارتی تعلقات بہتر کرتے ہیں جن کا نتیجہ بہتر سیاسی تعلقات کی صورت میں نکلتا ہے۔

اسرائیل، امارات اور بحرین کو ہی لیجیے جن میں معاہدوں کی بدولت کاروباری روابط میں موجود رکاوٹیں دور کی جا رہی ہیں اور ایسا ہی آر سیپ (RCEP) کی بدولت مشرق بعید میں ہو رہا ہے۔ اب تجارتی راستے چھوٹے ہو رہے ہیں اور بین البراعظمی کاروبار کو آسان بنانے کے لیے عقل مند ممالک اپنے کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے کر اسرائیل کو جنوبی ایشیا اور مشرق بعید تک بہتر اور جلد رسائی فراہم کی ہے۔

مگر ہم اسرائیل اور بھارت کی جانب روایتی دشمنی کا راگ الاپتے ہوئے اس خطے میں وسطی ایشیا سے جنوب مشرقی ایشیا تک زمینی راستے کھولنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ راستہ کھولنے کے لیے ہمیں راہ داری دینی ہوگی، جس کا بڑا معاشی فائدہ بھی ہوگا اور بالآخر سیاسی و فوجی مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اسرائیل اور امارات کے درمیان تجارت سے اندازوں کے مطابق اربوں ڈالر کے فوائد دونوں ممالک حاصل کریں گے اور ہزاروں کی تعداد میں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، اسی طرح کے فوائد اب آر سیپ کے ممالک اٹھانے کے لیے تیار ہیں مگر ہم اس بساط پر کہیں نظر نہیں آرہے، نہ مشرق وسطی میں نہ مشرق بعید میں اور نہ خود جنوبی ایشیا میں۔ اس وقت ہم صرف سی پیک (CPEC) سے آس لگائے بیٹھے ہیں جس کے پانچ سال گزر چکے ہیں مگر ہماری معیشت مزید پاتال میں دھنستی جا رہی ہے جس کا مداوا صرف وسیع تجارتی معاہدوں سے ہی ممکن ہے۔

اسرائیل، امارات اور بحرین سے لے کر آسٹریلیا، جاپان اور چین تک سب نے کچھ دو اور کچھ لو کا طریقہ کار اپنایا ہے اور ہم سب کچھ لینے کے چکر میں بہت کم لے پا رہے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی اور سیاسی و فوجی ترجیحات بدلنے پر تیار نہیں ہیں، ان سب میں تبدیلی کا راستہ تجارت کے ذریعے نکل سکتا ہے، جس کی طرف جنرل پرویز مشرف نے قدم بڑھائے تھے اور کشمیر کے راستے تجارت بھی کھول دی تھی، مگر پھر دونوں طرف کے انتہا پسندوں نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا اور ہم پھر وہیں پر آ گئے، بل کہ مزید پیچھے چلے گئے۔ اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آر سیپ پر دست خط میں آسیان کے تمام دس ممالک شامل ہیں یعنی کسی نے بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔

آسیان نے برونائی، کمبوڈیا اور انڈونیشیا سے لے کر لاؤس، ملائشیا اور میانمار (برما) تک سب نے یک زبان ہو کر پانچ نئے غیر آسیانی ممالک یعنی آسٹریلیا، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ کو خوش آمدید کہا، نہ آسٹریلیا اور جاپان نے چین سے دشمنی نکالنے کی کوشش کی اور نہ آسیان کے رکن فلپائن نے چین کے ساتھ سمندری حدود کے تنازعوں پر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے سیاسی و فوجی اختلاف اپنی جگہ مگر جب تجارتی اور معاشی مفادات کا معاملہ ہو تو ہمیں سب کچھ پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر اب آر سیپ اور سارک ایسا معاہدہ کرنا چاہیں تو کیا ہوگا۔

اس خطے کے لیے اور پورے ایشیا کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ آر سیپ کو سارک کے ذریعے شنگھائی تعاون تنظیم سے اتحاد کر کے جاپان اور نیوزی لینڈ سے لے کر روس تک ایک وسیع تجارتی اور معاشی اتحاد تشکیل دینا چاہیے، اس میں وسطی ایشیا اور روس تو بخوبی شامل ہوجائیں گے مگر اصل مسئلہ سارک ممالک کا ہوگا، ان میں بھی بھارت اور پاکستان کا۔

اس وقت یہی دونوں ممالک اپنے تعلقات خراب رکھ کر ایک طرف تو خود اپنے وسائل اسلحہ و گولہ بارود پر لگا رہے ہیں، دوسری طرف اپنے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے گریزاں ہیں۔ مثلاً اگر بھارت کو لیا جائے تو وہ نہ صرف پاکستان بل کہ چین کی طرف بھی معاندانہ رویہ رکھے ہوئے ہے۔ اسے اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ارونا چل پردیش کے قریب چین کا ریلوے منصوبہ کیوں آگے بڑھ رہا ہے۔ چین اپنے سیچوان، تبت ریلوے منصوبے کو جلد مکمل کرنا چاہتا ہے جو کہ ارونا چل پردیش کے ساتھ بھارت کی سرحد سے قریب ہے مگر بھارت اس سے خوش نہیں ہے۔ تقریباً پچاس ارب ڈالر کا یہ منصوبہ چین کی معاشی مضبوطی کی ایک واضح دلیل ہے جس کے مقابلے میں بھارت بہت پیچھے ہے۔

بھارت بھی کوشش کرتا ہے کہ اس خطے میں اپنے ذیلی ڈھانچے کو ٹھیک کرے۔ چین اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ بھارت کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اس ریلوے کی تکمیل کے بعد چین اپنے بڑے میزائل بھی بھارت کی سطح تک لا سکتا ہے اور پھر اسے جوہری ہتھیاروں کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت بجائے اس کے کہ چین اور آر سیپ سے تعلقات میں بہتری پر توجہ دے، خود اپنے ملک میں ہندو قوم پرستی کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حکومتیں معاشی طور پر ناکام ہوتی ہیں تو مذہب کو استعمال کر کے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کی اہم ریاست بہار کے حالیہ انتخاب میں بی جے پی نے مذہب کا کارڈ استعمال کیا اور اس کے اتحاد نے سادہ اکثریت حاصل کر لی۔ اس طرح بی جے پی اپنی حیثیت مستحکم کر کے پڑوسی ممالک کو ڈرانے دھمکانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چین اور ویت نام جیسے ممالک جو ماضی میں جنگ بھی لڑ چکے ہیں، خاص طور پر 1979 کی جنگ جو پورے ایک ماہ چلی تھی۔ اس کے باوجود ماضی کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور دوستانہ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح کمبوڈیا اور ویت نام 1978 کے بعد تقریباً دس سال حالت جنگ میں رہے مگر اب سب بھول کر شیر و شکر ہو چکے ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جن کی بدولت پہلے آسیان کام یاب رہی اور اب آر سیپ کی کام یابی میں بھی ممالک کے یہی رویے کام آئیں گے۔ آر سیپ کے معاہدے پر دست خط کرتے وقت خاص بات یہ کہی گئی کہ اس کے دروازے دیگر ممالک کے لیے کھلے ہیں۔

دراصل آٹھ سالہ مذاکرات میں بھارت کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اس نے نومبر 2019 میں باقاعدہ علیحدگی اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مودی نے ایسا امریکا کے صدر ٹرمپ کے اشارے پر کیا جو آر سیپ کے خلاف تھے اور اسے معطل رکھنا چاہتے تھے۔

اب آر سیپ پر اگر آبادی کے لحاظ سے نظر ڈالی جائے تو چین ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ سب سے اوپر ہے۔ انڈونیشیا ستائیس کروڑ اور جاپان ساڑھے بارہ کروڑ کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں جبکہ فلپائن اور ویت نام کی آبادی تقریباً دس دس کروڑ کے برابر ہے۔

مجموعی قومی پیداوار چین کی جاپان کے مقابلے میں تین گنا ہے پھر آسٹریلیا اور انڈونیشیا ہیں جن کی پیداوار تقریباً برابر ہیں۔ فی کس آمدنی دیکھی جائے تو آسٹریلیا پچپن ہزار ڈالر سالانہ فی کس آمدنی کے ساتھ سرفہرست ہے، جب کہ سنگاپور اور نیوزی لینڈ پچاس ہزار اور چالیس ہزار ڈالر کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

سب سے نیچے یعنی غریب ترین میانمار اور کمبوڈیا ہیں جن کی فی کس آمدنی بہ مشکل تیرہ سو ڈالر سالانہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امیر ترین اور غریب ترین ممالک بھی ایک ہی معاہدے یا اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ اتحاد ضرور جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک کے لیے نئے تجارتی اور معاشی راستے کھولے گا، خاص طور پر جاپان اور چین کی قیادت میں اس خطے پر خوش گوار اثرات پڑیں گے کیوں کہ جاپان اپنی مالی امداد کے ذریعے، چین اپنے بیلٹ اور روڈ منصوبوں کے تحت پہلے ہی مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سارک ممالک اس سے کیسے فائدے اٹھاتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے تعلقات بہتر کریں۔ رویوں میں تبدیلی لائیں اور ازلی دشمنی چھوڑ کر دوستانہ طور پر کام کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).