سیاسی اُفق کا شہاب ثاقب بھٹو


5 جنوری 2021، پاکستان ہی نہیں عالم اسلام اور عالم تمام کے بطل جلیل ذوالفقار علی بھٹو شہید کا 93 واں یوم پیدائش ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جو برصغیر کی تاریخ میں مخلوق خدا، مسلمانوں اور پھر ان دونوں میں موجود اکثریتی تعداد یعنی غریب، کمزور، بے بس، مقہور، مظلوم، بدبختیوں کے شکار انسانوں کے مایوس صحرا میں ان کے لیے صدائے ایمان و یقین، صدائے عزم و جہد، صدائے وقار و احترام بن کے ابھرا، گونجا اور چمکا۔

لوگوں نے اسے جئے بھٹو کے نعروں کی گونج میں کندھوں پہ اٹھا کر اعلان کیا، ہم ذلت کے مارے لوگوں کی صف میں سے نکلنے کے لیے تمہارے شانہ بشانہ ہیں، تمہارا بے حد شکریہ تم نے ہمیں جگایا، حوصلہ دلایا، آس بندھائی۔ یہی ذوالفقار علی بھٹو عالم اسلام اور پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی بھٹو  نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جہاں پاکستان کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا وہیں عالم اسلام کو مضبوط کرنے کی خاطر مسلمان ملکوں کے دورے کیے ، تیسری دنیا کے ملکوں میں پاکستان کو ایک رہنما کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا، پھانسی کا پھندا قبول کر لیا مگر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان اور عالم اسلام کے ملکوں کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن سے باز نہ آیا۔ بھٹو نے عوام کو ایک نئی طاقت عطا کی، اسلامی ملکوں کو بتایا کہ اگر طاقت ہوگی تو کوئی مسلمانوں کو کمزور نہیں کرسکے گا۔ پاکستان کے سب سے بڑے اس سیاسی مرکز میں ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، یہیں سے پاکستان میں عوام کے جینز  نے انگڑائی لی جس کے نتیجے میں عوامی شعور نے ریاستی استحصالی قوتوں، مذہبی مفاد پرستوں، رجعت پسند نظریاتی گروہوں اور اہل قلم کو انقلابی رفتار سے پیچھے دھکیل دیا۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے 30 نومبر 1967 کی اس تاریخی صبح، بانی چیئرمین کا اولین اور بنیادی خطاب آ ج بھی تاریخ کا سنہرا ورق ہے جس پر جمہوریت کا روشن باب تحریر ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔

” جب میں اپنے قومی وجود کے گزرے بیس برسوں پر نظر ڈالتا ہوں، مجھے نظر آتا ہے کہ پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مسائل پر مسائل کا انبار، مایوسی اپنی آخری انتہاؤں کو چھونے لگی جبکہ اس سارے بحران کے حل کی کوئی منظم تدبیر دکھائی نہیں دیتی، کیا مسلسل غیریقینی صورتحال کا شکار رہنا ہماری تقدیر بن چکا ہے؟ ہمیں دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے، انہیں بہت سے بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا جنہیں وہ حل کرنے میں بھی کامیاب رہے جس کے بعد ان کی زندگیاں ایک طے شدہ راستے پر چل پڑیں۔

ہم بدقسمتی سے آج بھی وہیں ہیں جہاں پہلے روز تھے، ہمارے بنیادی مسائل بھی وہی ہیں ہم ایک حالت تعطل کا شکار ہیں، میرے خیال میں اس کی اصولی وجہ ایک ہی ہے، ملک و قوم کے معاملات و سوالات کے لیے پاکستانی عوام سے رجوع نہیں کیا گیا، یہی اول و آخر مشکل ہے جبکہ عوام ہی وہ قوت ہیں جن کی تائید و حمایت سے ہم اپنی اس حالت تعطل سے نجات پا سکتے ہیں۔“

اور پھر اسی عظیم مفکر، سیاستدان اور قومی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی 93 ویں سالگرہ کے ان لمحات میں ہم ان راہوں کے شناختی سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں جن راہوں کا اس رہنما نے تذکرہ کرتے ہوئے اس خوار و زبوں قوم کو خبردار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو  نے موت کی کوٹھڑی سے اطلاع دی تھی:

” حالات بڑی سنگدلی کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ اسپین بھی اس طرح کے تصادم سے دوچار ہو چکا ہے، چالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے (یا زیادہ) لیکن ہسپانوی عوام کو اس وقت کی یادیں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح آج بھی ڈراتی ہیں، اسپین پاکستان کو دو طرح سے انتباہ کرتا ہے، ان میں سے ایک انتباہ فوج اور عوام کے درمیان متوقع تصادم کے بارے میں ہے اور دوسرا اس اسلامی ریاست کے خاتمے (نعوذ با اللہ) کے متعلق ہے“ ۔

افسوس کہ پاکستان میں کچھ سیاستدان آج اسی قسم کے حا لات پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو شہید کے افکار و نظریات پر عمل پیرا رہتے ہوئے ان کے مذموم عزائم کی راہ میں مزا حم ہے۔ وہ پارٹی جس کا بانی عوام کی عزت و حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے، تختہ دار کے مراحل پر کہہ اٹھا تھا ”یور لارڈ شپس، میری روح، میرا عزم اور میری قوت ارادی ہے اور یہ کہ میں ایک رہنما ہوں، ان وجوہات کی بنا پر میں اذیت بھری ابتلا کا سامنا کرنے کے قابل ہوں اور یہاں بھی حاضر ہو گیا ہوں، ایک عام آدمی کب کا تباہ و برباد اور بکھر چکا ہوتا، آپ نہیں جانتے کہ میں کتنا پریشان اور بدحال ہو چکا ہوں، میں ختم ہو چکا ہوں“ اور وہ پارٹی جس کے بانی نے یہ بھی کہا تھا:

” سرزمین کے آقاؤ سنو! وقت عوام کے ساتھ ہے یعنی وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، جوں جوں دباؤ بڑھتا جائے گا، جوں جوں عوام کا شعور بلند ہوتا جائے گا، توں توں پیپلز پارٹی طاقتور سے طاقتور ہوگی اور ناقابل تسخیر بن جائے گی“ اس نے یہ بھی کہا تھا ”میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقیناً بلند رکھا ہے۔ اگر میری زندگی میں ایسا نہ ہوسکا تو مرتے وقت آخری الفاظ میں اپنے بچوں سے وعدہ لوں گا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔

میں  نے اس ملک کے ہر غریب ماں باپ کے محروم ہاتھوں میں جنم لیا، میں صدیوں سے روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کے لئے ملک کے سیاسی افق پر شہاب ثاقب کی طرح ابھرا، میں تاریکیوں کو چھٹانے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے تلوار  لے کر آیا، مجھے کوئی ترغیب و تحریص عوام کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔ طاقت کا پلڑا اس طبقے کے حق میں پورا پورا جھکا ہوا ہے جس نے صدیوں در صدیوں سے تاریک گھروندوں پر حکومت کی، سر سے پیر تک مسلح، ناقابل تسخیر حد تک محفوظ پنڈتوں اور ڈاکوؤں کا یہ طبقہ بے زبانوں کو میری کمزور سی آواز مل جانے پر کیوں دانت کاٹنے لگتا ہے، کیوں خوف زدہ ہو جاتا ہے“

آ ج جب ذوالفقار علی بھٹو کی 93 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ذہن میں خون کی طرح گردش کر رہے ہیں، ملک میں ان کے تختہ دار کو سرفراز کیے جانے کا عمل عدالتی قتل کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے! برصغیر کے طاقتور ترین سیاستدانوں کی پہلی صف میں ان کا نام شامل ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک کو غیر آئینی طریقے سے کیوں ہٹایا گیا، ان کی خدمات کا صلہ ان کی آل اولاد کو کیا ملا، دیانتدار سیاستدانوں کے سلسلے کی آخری کڑی ذوالفقار علی بھٹو تھے، ان کے بدترین دشمن بھی ان پر کرپشن کا الزام نہ لگا سکے۔

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی صورت میں نیا بھٹو جنم  لے چکا تھا۔ جنرل ضیا الحق  نے عالمی طاقت کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ غیر آئینی طاقتیں ضیا الحق کے دس برس کے دوران اپنا کنٹرول قائم کر چکی تھیں، نہیں چاہتی تھیں کہ بھٹو ازم دوبارہ پروان چڑھے چنانچہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ہر ناجائز اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال کیا گیا ، اس کے باوجود بینظیر بھٹو  نے اقتدار میں آ کر ہر اس آدمی کو معاف کر دیا جس نے پاکستان اور عالم اسلام کو کمزور کیا اور عوام کا حق چھینا تھا، پھر بھی بینظیر بھٹو کے خلاف جو سازش ہوئی اس کی تفصیل بڑی بھیانک ہے۔

بینظیر بھٹو نے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے باوجود جمہوریت کی خاطر جان کی قربانی دے دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے یوم ولادت پر یہ یاد دہانی نوحہ خوانی کی خود ترحمی نہیں، عدل کی زنجیر پر قابض قوتوں کے ماضی کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور پاکستان اور عالم اسلام کے فرزند جلیل کی توہین کا حساب برابر کرنے کی وہ آئینی جدوجہد ہے جس کا انسانیت تقاضا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).