محبت اور عقیدت


سندھو سے میری ملاقات بہت بہت بعد میں ہوئی ۔ لیکن میں اسے جانتا اور پہچانتا تھا۔ سندھو سے میری پہلی شناسائی سندھو دریا کی نسبت ہوئی تھی۔ سندھو سے دوسری پہچان امر جلیل کی کتاب ”سندھو منھنجے ساھ میں“ کے کردار سندھو کی وجہ سے ہوئی۔ سندھو دریا اور امر جلیل کے کردار سندھو نے میرے دل میں سندھو سے بے پناہ محبت کو بیدار کر دیا تھا۔ یہ بیدار محبت قطرہ قطرہ جمع ہوتی رہی۔

پھر ایک دن سندھو سے میری ملاقات ہو گئی۔

سندھ یونیورسٹی کے مارئی ہاسٹل کی سامنے والی سڑک پرایک شام ہم دیر تک چہل قدمی کرتے رہے۔ جامشورو میں دن جتنا گرم رہتا ہے شام اتنی ہی شاندار ہوتی ہے اور ہماری وہ شام بھی شاندار تھی جو مجھے آج تک نہیں بھولی۔ شاید اسے بھی یاد ہو گی۔ سندھو سے یہ میری آخری طویل ملاقات تھی۔

کچھ لوگوں سے پہلی ملاقات میں ایسا لگتا ہے جیسے انہیں برسوں سے جانتے ہیں اور کچھ لوگ بار بار ملنے پر بھی اجنبی ہوتے ہیں۔ کسی کو پہچاننے کے لئے کئی ملاقاتوں کی ضرورت نہیں ہوتی، بس ایک ملاقات ہی کافی ہوتی ہے۔ سندھو کی باتیں تازہ ہیں، گویا ابھی کی ہیں۔ وہ میرے ساتھ نہیں لیکن ہم ساتھ ہیں۔

سندھو نے ایک بار کہا تھا ”تنہائی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک فزیکلی، دوسری ایموشنلی۔ میں شاید فزیکلی تمہارے ساتھ نہ رہوں لیکن ایموشنلی ہمیشہ ساتھ رہوں گی۔“

اس کی بات صحیح تھی وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔

لوگوں کے رویوں پر سندھو کی بات بڑی دلچسپ ہے۔ اس کا کہنا تھا ”کچھ لوگ پیاز کی طرح ہوتے ہیں، تہہ در تہہ۔ اور کچھ ٹماٹر کی طرح۔ اندر باہر ایک جیسے۔“

”میں نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا“ پھر ہم دونوں کون سے ہیں، پیاز یا ٹماٹر؟ ”

سندھو نے فوراً کہا ”ٹماٹر۔ اس لیے کہ ہم میں کوئی بناوٹ نہیں، کچھ چھپا کے نہیں رکھا۔ انسان کو ٹرانسپیرنٹ ہونا چاہیے۔ پانی کی طرح۔“

سندھو نے مجھے ’شاہ جو رسالو‘ اور گلاب کا پھول تحفے میں دیا تھا۔ تب سے شاہ لطیف کی شاعری میرے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں بس گئی اور گلاب کی خوشبو میرے اعصاب اور خیالوں میں سمائی ہوئی ہے۔

یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن بلاک سے پگڈنڈی پر پہاڑی سے نیچے اترتے ہوئے سندھو اچانک درختوں کے جھرمٹ میں رک گئی اور آم کے ننہے پودے کو دیکھنے لگی۔

میں نے کہا ”کیا دیکھ رہی ہو؟“ ” آم کے پودا دیکھ رہی ہوں، یہ بہت چھوٹا ہے، یہاں اگ نہیں پائے گا، اگر اگ بھی گیا تو شاید ہم نہ ہوں۔ اس پیڑ کا پھل کوئی اور کھائے گا۔“

” کیسے، تمہاری فلسفیانہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی؟“ میں نے پوچھا۔

” یہ ایسا دیس ہے جہاں زندگیوں کو سنبھالنے اور انہیں درست ڈگر پر چلانے کا رواج نہیں۔ اگر کوئی خودرو پودے کی طرح اگ بھی آئے تو اسے زندگی نہیں ملتی۔ تبھی یہاں جنگلات بچے ہیں نہ ہی باشعور اور سوچنے والے انسان۔“ سندھو کی بات سن کر میں چپ ہو گیا۔

وہ آم کے چھوٹے سے پودے کو وہاں سے نکالنے لگی۔ پوچھنے پر اس نے کہا کہ ”یہ پودا ہاسٹل کے آنگن میں اپنے یادگار کے طور پر لگاؤں گی“

سندھو سے ملنے کے بعد مجھے اس سے محبت نہیں عقیدت ہو گئی۔ میں جب بھی اس کے علاقے سے گزرتا، سفر کے دوران اپنے پیر ننگے کر کے آنکھیں موند لیتا۔ ایک بار ساتھ سفر کرتے ہوئے مجھے یوں کرتا دیکھ کر سندھو نے کہا تھا

” یہ کیا کر رہے ہو؟“

”جن سے عقیدت ہو جائے ان کا احترام کرنا لازم ہے اور میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں، مجھ سے لاشعوری طور پر یہ ہوجاتا ہے۔“

سندھو میری بات سن کر ہنسنتے ہوئے کہنے لگی، ”تم پاگل ہو۔“
”میں کیسے پاگل ہوں“ میں نے احتجاج کیا۔
” پاگلوں کے سینگ تھوڑی ہوتے ہیں، بس ان کی حرکتوں سے پتہ لگ جاتا ہے۔“

میں نے اسے ہنستا دیکھتے ہوئے کہا ”دنیا کے سارے بڑے کارنامے پاگل پن ہی کی وجہ سے تو ہوئے ہیں، عالمی جنگیں ہوں یا پھر ایجادات۔“

” تم میری باتوں کو فلسفیانہ کہتے ہو اور خود پاگلوں والی باتیں کرتے ہو، لوگ سنیں گے تو سچ میں پاگل ہی سمجھیں گے۔“ سندھو نے کہا۔

یونیورسٹی کا آخری دن تھا اور ہمارا سفر بھی آخری تھا۔ سندھو نے کہا ”والدین نے میرے لیے رشتہ دیکھا ہے۔ شاید پھر ہماری کبھی ملاقات نہ ہو۔“

میں اس کی بات سن کر چپ ہو گیا۔ اسے خاموش نظروں سے دیکھنے لگا۔ مجھے ایک بار دیکھنے کے بعد اس نے نظریں کھڑکی کی طرف کردیں۔ پھر طویل سفر خاموشی میں گزرا۔

بس اب شہر میں داخل ہو چکی تھی، پہلے سندھو کا اسٹاپ آیا۔ وہ مجھے کچھ کہے بغیر گاڑی سے اتر گئی۔ اور میں پیر ننگے کر کے اپنی آنکھیں موند چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).