کیا اداروں کے سربراہ بدلنا کافی ہے؟



آئے روز یہ خبریں ہم پڑھتے ہیں کہ ہمارے سرکاری و نجی اداروں کے سربراہ تبدیل کر دیے گئے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ من پسند نئے سربراہ مقرر کرنے کے بعد یہ توقع کی جاتی ہے کہ پورا ادارہ تیر کی طرح سیدھا ہو جائے گا اور سربراہ جادو کی چھڑی گھمائے گا اور سیاہ سفید ہو جائے گا۔

نیا سربراہ بینڈ باجے کے ساتھ ادارے کا چارج سنبھالتا ہے اور تبدیلی کے خواب کی تعبیر ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔ جب اس پر دھیرے دھیرے زمینی حقائق منکشف ہونے کا آغاز ہوتا ہے تو اسے علم ہو جاتا ہے کہ یہ سربراہی تو کانٹوں کا تاج ہے۔ اس کے ادارے میں اختیارات اور حصول طاقت کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ اس کے ادارے کے ہر شعبے کے سربراہ نے اپنی دنیا الگ بسائی ہوئی ہے اور صدر شعبہ کی پوری کوشش ہے کہ وسائل کا رخ ان کے شعبے کی طرف موڑ دیا جائے۔

کچھ خوشامدی بھی اس کے ارد گرد گھیرا تنگ کر دیتے ہیں۔ وہ نئے سربراہ کو ظل الہیٰ کا درجہ عنایت کر دیتے ہیں اور اسے وہی سناتے ہیں جو وہ سننا چاہتا ہے اور وہی دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے چاپلوس نااہل اراکین ٹیم اسے مسلسل باور کرواتے رہتے ہیں کہ نئے سربراہ کی آمد کے بعد ادارے کا راوی ادارے کے بارے میں چین کی نوید سناتا ہے۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں رواں دواں ہیں۔ یہ اور بات کہ یہ سارے خیالات بقول اسد اللہ غالب دل کو بہلانے کے لیے ہوتے ہیں۔

نئے سربراہ کی آمد موقع پرستوں کو اپنا فن آزمانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ ازسر نو اپنی صف بندی کرتے ہیں اور نئے امام کے پیچھے قبلہ رو ہو کر نیت باندھ لیتے ہیں۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ ان کے قبلے کی سمت ان کے مفادات سے طے ہوتی ہے اور جہاں پر ان کے مفادات کو گزند پہنچنے کا اندیشہ بھی ہو یہ اپنے قبلے کو تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ ادارے کا سربراہ بھی ایک فرد ہی ہوتا ہے اور ایک فرد کے لیے پورے نظام کو سنوار دینا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ ادارے کا سربراہ معروضی اور موضوعی حالات کے آگے تقریباً بے بس ہوتا ہے۔ جب اس کا گمان اس یقین میں بدل جاتا ہے کہ تبدیلی کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہے تو پھر وہ بھی نمک کی کان کا حصہ بن کر نمک کے اوصاف کو اپنانے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ ویسے بھی جب لیڈر کی تاج پوشی ہو جاتی ہے تو پھر ادارے کی اصلاح اس کے پیش نظر نہیں رہتی ہے بلکہ قیادت کی کرسی پر براجمان رہنا اس کا مطمح نظر بن کر رہ جاتا ہے۔

اداروں کے سربراہ تبدیل کر دینے سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ اداروں کی کارکردگی جوں کی توں رہتی ہے۔ اگر ہم اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمیں اداروں کے اندر میرٹ کو پیش نظر رکھ کر بھرتی کرنا ہو گی۔ ہر ملازم کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہو گا اور ادارے میں کام کرنے والے لوگوں کو ملازم سمجھنے کی بجائے بزنس پارٹنر سمجھنا ہو گا۔ ”سب اچھا ہے“ کا منترہ سننے کی بجائے جو اچھا نہیں ہے اسے بھی سننے اور دیکھنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔

ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو صرف لیڈروں کا قصیدہ ہی نہیں پڑھتے رہتے بلکہ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سچ بولنے کی جرأت بھی کر لیتے ہیں۔ جب ہمارے اداروں میں ہر سطح پر ایسے لوگ شامل ہوں گے جو اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے کام میں مہارت کے حصول کو بھی عبادت تصور کرتے ہیں تو پھر ہمارے تمام ادارے اپنی کارکردگی کی معراج پر ہوں گے ۔ ہمارے سرکاری و نجی اداروں کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جن کا کردار بھی مثالی ہو اور جو اپنے کام میں مہارت بھی رکھتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).