حرف ایک طلسم



”آپ کا تعارف“ ؟
بولی ’ ”میرا تعارف آپ کا ظرف ہے“
کانچ کی چوڑیاں دھیرے سے چھنکیں،
نہیں! ہر ہستی کا کوئی نہ کوئی حوالہ، کوئی شناخت ضرور ہوتی ہے۔
، ”کچھ بتائیں ناں“ اصرار بڑھا۔

جیسے گیلی لکڑیوں کی سلگن میں یک دم اضافہ ہوا۔ نگاہ باغیچے کے گوشے سے ہٹی اور کھلتے گلابوں سے جا ٹکرائی، نگاہ کا لمس بھی عجب لمس ہے۔

کبھی محسوس ہوا۔ ؟
آواز کاسحر بھی عجب سحر ہے۔ ہے نا۔
نازکی کا فسوں بھی کیا فسوں ہے، دلربا سا۔ احساس کو حرف میں انڈیلنا بھی تو ایک ہنر ہے۔
بولی، ”جوتے اتار دیں“
”مخملیں گھاس پہ بیٹھ جائیں
اور آرام سے مجھے سنیں ”
جیسے سننے والے بھجن سنتے ہیں، قوالی سنتے ہیں،
وہ کسی معمول کی مانند سننے کے لیے تیارتھا۔
وہ آلتی پالتی مار کے دو زانو بیٹھ گیا جیسے مراقبے میں بیٹھا ہو چپ چاپ دم سادھے۔
روشنی کی لہر نے حرف کو اوڑھا جیسے رات چاندنی کا دوشالہ اوڑھے۔
اس نے پوچھا لکھاری کون ہوتا ہے۔ ؟

وہ دونوں چپ تھے۔ لکھاری لفظ اس کے ہونٹوں سے ادا ہوا یا بیچ میں دم توڑ گیا۔ اسے لگا کبھی کبھار چپ کی آواز میں سر بہتے ہوں ، سکوت میں ڈالی ہلے تو سنائی دیتی ہے، خیال کی آہٹ کو سننے کے لیے کبھی کبھی چپ کی گہری بکل مارنی پڑتی ہے۔ یہ لکھاری کی ضرورت ہے ، اس نے محسوس کیا وہ ڈبکی مارے بحر قیاس کی نچلی اندھیری سطح کو چھونے اتر گئی۔ ہمیشہ کی طرح جہاں اس کے حصے کبھی موتی آئے گوہر نایاب کی مانند اور کبھی صرف خیال کی جھاگ اور جو ہاتھ میں آئے اسے پوری دیانت داری اور سچائی کے ساتھ اپنے پڑھنے والے کے سامنے طشت میں سجا کر پیش کرے ، وہی لکھاری ہے۔ چاہے قاری اسے اپنائے یا پھر یکسر رد کر دے۔

وہ لبوں سے حروف ادا نہیں کر رہی تھی ، ان کے بیچ مکالمہ ہو رہا تھا ، بے زبانی میں بھی تکلم ممکن ہے کیا؟ مگر اسے لگا کہ وہ یہ کہہ رہی ہے۔

پراسرار رات کی رانی کی خوشبو اٹھی۔ جانے پودا کہاں تھا پر اسے خوشبو محسوس ہو رہی تھی ، پودا رات کی سیاہی کا آنچل اوڑھے کہیں اپنی خوشبو سے اپنے ہونے کا راز فاش کر رہا تھا۔ وہ اس وقت خیال پڑھنے پہ قادر تھا۔

”مادام آپ سکوت نہ توڑیں۔

مجھے آپ کاتعارف حاصل ہو گیا۔ ”اچھا! وہ اچنبھے سے مسکرائی“ واہ! آپ تو کمال کے آدمی ہیں۔ ”میری چپ اور آپ کی چپ سے معاملہ حل ہو گیا۔“

”، چلیں مجھ سے میرا تعارف کرا دیں“
”سنیں، وہ گویا ہوا، جیسے طلسمی دروازے پہ لکھے منتر پڑھتا ہو۔ اب تعارف کی ذمہ داری اس کی تھی۔
”آپ رومان ہیں۔

”اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ایک ہستی نہ ہو بلکہ اس کے وجود میں پورا بسا بسایا شہر آباد ہو، شاداب زرخیز زمین، پھوٹتی آبشاریں جھیلیں، کوہستان درے دروازے، وہ اپنی ذات میں ایک شہر کے مانند تھی۔ دستک کے بغیر باب رومان کھلا۔

یہ شہر رومان ہے۔ یہاں صندل سے دہکتی لکڑی کا مہکتا دھواں آنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ کنول کھلتے ہیں۔پانی میں پھول اور ہوا میں عطر کی آمیزش ہے اس کے عین وسط میںدریاے محبت بہتا ہے، ایک کنارے پر وادی تخیل کی گلکاری ہے، یہاں خوابوں کی پریاں محو رقص ہیں۔

دوسرے کنارے پر حقیقت کی تلخ کھائی ہے جہاں سچ کی خاردار بیری ہے۔ اس کے شمال مغرب میں اونچی فصیل ہے جس کی منڈیروں پر سفید اور دودھیا آبی پرندے ہیں۔ ان کے پروں سے دعاؤں کی روشنی پھوٹتی ہے اور شہر رومان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس میں ایک باب حرف ہے جس کا دوسرا سرا تیسرے آسمان کو چھوتا نظر آتا ہے، اس نے تالی بجائی۔ ہوش کی دنیا میں واپس آئیے کوئی پکارا حرف ایک طلسم ہے اسے مت چھوئیں، مقدس حروف ستاروں کی مانند جگمگائے۔ مرغ کی بانگ نے سماعت کو جھنجوڑا سحر ہو چکی تھی۔ صحافی کے ہاتھوں میں ادھ کھلی کتاب جھٹکے سے بند ہوئی۔

رات دیر تک وہ اپنی پسندیدہ مصنفہ کا ناول پڑھتا رہا۔ ابھی تعارف تک ہی پہنچا تھا کہ آنکھ لگ گئی ، حرف تخیل تعارف اور خواب کب ہم آہنگ ہوئے اسے پتہ ہی نہیں چلا ، اس نے پاس پڑے ٹیبل لیمپ کا سوئچ بند کیا اور کروٹ بدل کر دوبارہ نیند کی گہری وادی میں اتر گیا۔ زیرو کی نیلی روشنی میں حرف کا طلسم پھیلتا جا رہا تھا۔ ٹوٹے خواب کا سلسلہ پھر سے جڑنے کو تھا۔ کیا تخیل اور خواب لاشعور کو ٹٹولنے کی سعی میں تھے۔ صبح ہونے سے پہلے کا سارا وقت اس کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).