ایشیا میں کورونا وائرس کی آڑ میں لوگوں کی آزادی کیسے سلب ہو رہی ہے


Safoora Zargar
صفورہ زرگر شہریت کے خلاف احتجاج کے دوران اپریل میں گرفتار کیا گیا تھا
صفورہ زرگر کو جب انڈیا کے دارالحکومت دلی میں گرفتار کیا گیا تو انھیں حاملہ ہوئے تین ماہ ہوئے تھے۔ انھیں شہریت کے متنازع بل کے خلاف مظاہرہ کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

یہ دس اپریل کی بات ہے جب کووڈ 19 اپنی جڑیں انڈیا میں مضبوط کر رہا تھا۔ انڈین حکومت نے خاص طور پر حاملہ خواتین کو وائرس کے خطرے سے آگاہ کیا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود صفورہ زرگر کو قیدیوں سے بھری تہار جیل میں دو ماہ سے زیادہ رکھا گیا۔

صفورہ زرگر نے بی بی سی کی گیتا پانڈے کو بتایا کہ ’وہ دوسرے قیدیوں سے کہتے تھے کہ مجھ سے بات نہ کرو، میں ایک دہشتگرد ہوں جس نے ہندوؤں کو قتل کیا ہے۔ ان لوگوں کو باہر ہونے والے مظاہروں کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ مجھے مظاہرے میں شرکت کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔"

صفورہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ شہریت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے۔ ان مظاہروں کو دنیا بھر میں دیکھا گیا اور پورے ملک کی توجہ ان پر لگی ہوئی تھی۔

لیکن صفورہ کی رہائی کے لیے کوئی مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اور کیا جا بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ انڈیا میں بہت سخت لاک ڈاؤن کی صورتحال تھی۔ صفورہ کی گرفتاری بھی لاک ڈاؤن کے دوران ہوئی تھی۔

ایسا صرف انڈیا میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ہوا

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایشائی ممالک میں کووڈ 19 کی آڑ میں بہت سے متنازع قوانین نافذ کیے اور گرفتاریاں کی گئی ہیں جو کہ عام دنوں میں ہوتی تو اس کے خلاف ملک اور بیرونی ملک زبردست مظاہرے کیے جاتے۔

لیکن حکومتوں کے خلاف مظاہروں کے بجائے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کووڈ کے اس بحران میں عوام رہنمائی کے لیے حکومت کی طرف دیکھ کر رہی ہیں۔

Political party activists, different University students shout slogans and the university students tried to break the police barricades during the protest against India's new citizenship law

انڈیا میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا تھا

سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سیویکس کے نمائندے جوزف بینڈکٹ کہتے ہیں ہیں کہ وائرس لوگوں کا دشمن ہے اور اس نے لوگوں کے لیے جنگ کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں وائرس سے نمٹنے کی آڑ میں متنازع قوانین منظور کر رہی ہیں۔

اس کا مطلب ہوا کہ انسانی اور سماجی حقوق کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔

ادارے کی نئی رپورٹ کا عنوان ہے ’اٹیک آن پیپل پاور‘ یعنی کہ عوامی طاقت پر حملہ۔ اس رپورٹ میں ایشا پسیفک کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ متعدد حکومتوں نے سینسرشپ اور ریاستی ناانصافی اور ظلم کو چھپانے کے لیے کووڈ 19 کا استعمال کیا ہے۔

رپورٹ میں بڑھتی ہوئی نگرانی اور ٹریکنگ کا بھی ذکر ہے جو کہ اس وقت وائرس کی شناخت اور اس کی روک تھام کے لیے ’کنٹیکٹ ٹریسنگ‘ کے نام سے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان قوانین کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو کہ اس پورے عمل پر کسی بھی قسم کی تنقید کرنے والوں کے خلاف بنائے گئے ہیں۔‘

یہ تمام قوانین چونکہ وبا کی آڑ میں بنائے گئے ہیں تو اس کی وجہ سے ان کے خلاف زیادہ مخالفت سامنے نہیں آئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 26 ممالک میں اس طرح کے قوانین منظور کیے گئے ہیں اور 16 ممالک میں انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف قانونی چار جوئی کی گئی ہے۔

ایک خوفناک پیغام

انڈیا میں صفورہ کے علاوہ اور بھی دوسرے انسانی حقوق کے کارکنان ہیں۔

ان میں 83 سالہ عیسائی پادری کو بھی غداری کے جرم میں گرفتار کر کے حراست میں رکھا گیا ہے۔ انھیں پارکنسنز کی بیماری ہے۔ اس مذہبی رہنما کو بغاوت اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جن کے تحت گرفتار افراد کی ضمانت پر رہائی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔

اس صورتحال نے متعدد اداروں کو چوکنا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پانچ مندوبین نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان گرفتاریوں کے ذریعے انڈیا کی سول سوسائٹی کو ایک خوفناک پیغام دیا جا رہا ہے۔

میتریائی گپتا، انٹرنینشنل کمیشن آف جیورسٹ میں انڈیا کے لیگل ایڈوائزر ہیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کئی بار حکومت سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی دباؤ کے باوجود گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے خلاف زیادہ مظاہرے یا احتجاج بھی نہیں ہو رہے۔

حکومت نے مستقل یہ موقف اختیار کر رکھا ہے ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے وہ ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور حکومت کسی کو بھی بلاوجہ نشانہ بنانے کے الزام کو رد کرتی ہے۔

فلپائن میں گرفتاریاں

فلپائن میں ایک 62 برس کے کارکن ٹریسیٹا نائل کو دمہ اور دل کی بیماری ہے۔ انھیں لوگوں کو اغوا کے کر غیر قانونی حراست میں رکھنے اور توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کی میڈیا کے سامنے پریڈ کرائی گئی ہے اور انھیں ایک ٹاپ کیمونسٹ لیڈر کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ ان کے ساتھ چار سو اور لوگوں بھی جنھیں گرفتار کیا ہے ۔ ان لوگوں میں زیادہ تعداد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہے۔ زارا الواریز اور رینڈل ایخینچس جیسے لوگوں پر حملہ کر کے انھیں قتل بھی کیا گیا ہے۔

وبا کے دوران ملک کے سب سے بڑے ٹی وی چینل اے بی ایس۔ سی بی این کو جبری طور پر بند کیے جانے کی وجہ سے اہم معلومات لوگوں تک نہیں پہنچ پائی ہیں لیکن ان سب کے باوجود فلپائن کے صدر رودریگو دوتیرتے کی مقبولیت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔

: Employees and supporters of ABS-CBN light candles in front of its main studio to show support

فلپائن میں براڈکاسٹر اے بی ایس بی این کو کووڈ کی وبا کے دوران بند کر دیا گیا

ادھر بنگلہ دیش نے بھی ان ویب سائٹس پر پابندی لگا دی ہے جو کہ حکومت پر تنقید کر رہی تھیں۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ یہ کووڈ 19 کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہی تھیں۔

اور نیپال میں بدیا شرستھا نامی کارکن، جن کا تعلق مقامی نیور قبیلے سے ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ کیسے حکومت نے کووڈ کی آڑ میں ان کے قبیلے کو نشانہ بنایا اور ان کے خلاف کارروائی کی۔

انھوں نے بتایا کہ کووڈ کے دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک آڈر کی خلاف ورزی کی اور 46 مکانوں کو گرا دیا۔ یہ مکان کٹھمنڈو کے پہاڑی علاقے میں نیور قبیلے کے روایتی گھر تھے۔ اس جگہ ایک نئی سڑک تعمیر کی جائے گی۔ ان مظاہرین کو جبری طور پر احتجاج کرنے والی جگہ سے ہٹایا گیا۔

حکومت کا موقف ہے کہ مقامی لوگوں اپنے مسائل مناسب چینل کے ذریعے ان تک پہنچائیں۔

سوئکس رپورٹ میں کمبوڈیا، سری لنکا، تھائی لیڈ اور ویتنام کا بھی ذکر ہے۔ ان ممالک کے بارے میں کارکنوں کو حد سے زیادہ سخت سزائیں دینے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر پر وبا کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے پر قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے۔

میانمار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے آزادی رائے پر قدغنیں لگانے کے لیے شدت پسندی کے قوانین استعمال کیا ہے۔

A man wearing a Voting Is A Right costome stand off with riot police during an anti-government protest on September 6, 2020 in Hong Kong

ہانگ کانگ میں مظاہرین اور پولیس متشدد انداز اختیار کر رہے ہیں

لیکن بعض ایشیائی ممالک جن میں جنوبی کوریا، سنگاپور، تائیوان، اور ہانگ کانگ شامل ہیں وہاں نگرانی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کووڈ کی وبا پر قابو پانے میں بہت مدد ملی ہے لیکن آئی سی جے نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ شاید ان ٹیکنالوجیز کا استعمال وبا کے خاتمے پر بھی جاری رہے۔

ہانگ کانگ میں جون میں قومی سکیورٹی کے حوالے سے لائے گئے قوانین کا خوفناک اثر جمہوریت پسند تحریک پر پڑا۔ وائرس کی وجہ سے کئی ماہ تک جاری رہنے والے مظاہرے بلکل بند ہوگئے۔

اس وبا کے دوران ہونے والی گرفتاریاں اور پاس کیے گئے قوانین، کووڈ 19 کے خاتمے کے بعد تک بھی بہت گہرا اثر چھوڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp