جان کی امان پاؤں تو بولوں


جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا، کہیں دور دور تک یہ امکان موجود نہ تھا کہ آمریت کے اس دور کو کوئی چیلنج کرے گا۔ پھر نو مارچ 2007 کا دن آیا، جنرل مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس کو اٹھا باہر کیا، وقت رعونت کو کہاں معاف کرتا ہے۔

عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا، تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا اورجنرل مشرف نے دوسری بار آئین کو معطل کر دیا، سیاسی جماعتیں، وکلا تنظیمیں، ذرائع ابلاغ اس تحریک کا حصہ بن گئے، میڈیا کی آزادی پر بھی شب خون مارا گیا۔ مجھ ناچیز سمیت پانچ اینکرز پر پابندی عائد کر دی گئی تو میڈیا کی تاریخ کا طویل ترین آزادی کیمپ لگایا گیا۔

ہم تمام ساتھی اسلام آباد کے عارضی پریس کلب یا جیو کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگاتے، سڑک پر پروگرام کرتے، شاعری پڑھتے اور یہ جدوجہد آگے بڑھتی چلی گئی۔

انھی مظاہروں میں اکثر نظر آتے مشہور شاعر احمد فراز صاحب۔ میں ان احتجاجی مظاہروں میں اکثر فراز صاحب کی مشہور نظم ’محاصرہ‘ سُناتی۔ ایک بار پڑھنے لگی تو دیکھا فراز صاحب بھی حاضرین میں موجود ہیں۔ ہمت نہ ہوئی مگر فراز صاحب کی جانب سے حوصلہ افزائی کے بعد اُنھی کے سامنے اُن کی یہ مشہور نظم پڑھی تو یہ احساس انتہائی لطیف تھا کہ فراز صاحب نے قبولیت کی سند عطا کر دی۔

احمد فراز کی نظم ’محاصرہ‘ آمروں کے منھ پر وہ طماچہ ہے جو لفظوں کی صورت ہر دور کے آمر کے منھ پر رسید ہوتا رہے گا۔ آج بھی حالات مختلف نہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی۔۔۔

’میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے‘

مگر جواب وہی ہے جو احمد فراز نے لکھا تھا کہ۔۔۔

’سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے‘

سوچ اور سوچ کو جانے والے سارے راستوں پر خاردار باڑ لگا دی جائے، لفظ گروی رکھ دیے جائیں، فہم اور ادراک کو پابند سلاسل کر دیا جائے اور آگہی پر دفعہ 144 لگا دی جائے تو بھی تخلیق کا راستہ کیسے ختم ہو سکتا ہے۔

ایک جھوٹ سقراط کو زہر کے پیالے سے تو دور کر سکتا تھا مگر تاریخ کے اوراق پر سیاہ حرفوں سے تحریر ہوتا۔ موسیٰ فرعون کو خدا تسلیم کر لیتے مگر تاریخ کے سامنے کیسے جوابدہ ہوتے؟ عیسیٰ غلط کو صحیح مان لیتے تو مصلوب ہونے سے بچ جاتے مگر مسیحا کیسے بنتے؟ حق کے راستے پر چلنے والے سب امام، کربلا میں سر کٹانے والے حسین، شاہوں کا قصیدہ نہ پڑھنے والے ملنگ، حق اللہ کا سبق پڑھنے والے تمام صوفی اور آج کے دور کے مرد حُر انکار کے وجود سے اقرار پاتے ہیں اور تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔

یہ تاریخ بھی عجب چیز ہے، کیسے کیسوں کو سرخرو کرتی ہے اور کیسے کیسوں کو مصلوب کرتی ہے۔ تاریخ نہ جبر مانتی ہے اور نہ ہی پابندی۔ تاریخ پر نہ کوئی تازیانہ لگتا ہے نہ ہی کوئی دفعہ۔ تاریخ نہ جیل جاتی ہے اور نہ ہی من مرضی عدالت میں۔۔۔

تاریخ کا انصاف بھی عجب انصاف ہے۔ حال میں زندہ رہنے والوں کو مصلوب لکھتی ہے، حال کے فیصلے بدل دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 1400 سال پہلے جنھیں باغی کہا گیا وہ کربلا کی ریت سے شہید بن کر نا اُٹھتے، جس سُقراط کو دیوانہ اور سماج کا دشمن قرار دیا گیا وہ آج سچ کا علمبردار کبھی نہ بنتا، جس منصور کو دشمن قرار دے کر تختہ دار پر سجا دیا گیا اُسے تاریخ آج بھی جری کے نام سے یاد نہ کرتی۔

تو کیا حالات کے جبر کو سہہ کر ممکنات کا انتظار کیا جائے؟ کیا قلم کو مصلحتوں کی سیاہی میں ڈبو دیا جائے؟ کیا سچ کو پابستہ حالات بنا دیا جائے؟ لمحہ بھر تو یہ سوچ لبھاتی ہے مگر تاریخ۔۔۔ تاریخ سوچ کو مصلوب کر دینے والوں کو کیا نام دے گی؟ تاریخ قلم کو گروی رکھنے والوں کو کس نام سے یاد کرے گی؟ تاریخ کی عدالت میں کس نام سے پُکارا جائے گا؟ تاریخ کیا گواہی دے گی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).