اسلام آباد سیف سٹی یا شکاگو


سابق امریکی صدر اوبامہ نے The Promised Landکے عنوان سے جو نئی کتاب لکھی ہے اسے پڑھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کریڈٹ کارڈ لیکن مجھے میسر نہیں۔آن لائن آرڈر کی ویسے بھی سکت نہیں تھی۔دس سے زیادہ دوستوں نے یہ کتاب چھپتے ہی اگرچہ انٹرنیٹ کے ذریعے مجھے اس کا PDF ورژن بھیج دیا تھا۔ پرانی وضع کا قاری ہوتے ہوئے اس سے استفادہ نہ کرپایا۔ مجھے یقین تھا کہ مجھ جیسے لوگوں کی سہولت کے لئے پاکستان میں جلد ہی اس کتاب کا Pirated ورژن ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوجائے گا۔گزشتہ ہفتے وہ مارکیٹ میں آگیا۔میری بیوی بازار گئی تو خرید کر میرے سرہانے رکھ دیا۔اتوار کا دن یہ کتاب پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔

اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں اوبامہ نے سیاسی عمل کی جانب اپنی رغبت کو بیان کیا ہے۔نچلے متوسط طبقے میں پیدا ہوکر سیاہ فارم ہوتے ہوئے بھی سابق امریکی صدر امریکہ کے مہنگے ترین اور اشرافیہ کے لئے مختص شمار ہوتے ہارورڈ لاء سکول میں داخلے کے قابل ہوا۔اپنی تعلیم کے دوران ہی اسے پرکشش نوکریوں کی پیش کش ہوئی۔ڈگری حاصل کرنے کے بعد مگر اس نے شکاگو منتقل ہوکر ’’سماجی‘‘ تنظیموں کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔نوکری کے دوران اس کی تمام تر توجہ شکاگو کے غریب ترین محلوں پر چھائی اداسی اور مایوسی کا ’’خیراتی عمل‘‘ کے ذریعے ازالہ ڈھونڈنے کی کاوشوں پر مرکوز رہی۔

بالآخر اس نے دریافت کیا کہ غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اسی باعث وہ مقامی سینٹ کارُکن منتخب ہوا۔اس کا رُکن ہوتے ہوئے اس نے مزید دریافت یہ بھی کیا کہ ’’عوام کے منتخب کردہ نمائندے‘‘قانون سازی کے نام پر درحقیقت مختلف النوع کاروبار پر چھائے اجارہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہی کرتے ہیں۔مزید دُکھ اسے یہ جان کر بھی ہوا کہ عام شہری منتخب اداروں میں بھیجے ’’اپنے نمائندوں‘‘ پر کڑی نگاہ نہیں رکھتے۔فقط یہ توقع رکھتے ہیں وہ ’’اپنے حلقوں‘‘ میں چند ’’ترقیاتی کام‘‘ کروائیں۔

ریاستی خزانے سے نئے سکولوں کے قیام اور چند پلوں اور سڑکوں کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈ حاصل کریں۔اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوں کے پارلیمانی کردار کی بابت عوام کی بے اعتنائی نے اوبامہ کو بہت مایوس کیا۔”Yes We Can”کے نعرے کے ساتھ وہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو بھرپور سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کو اُکسانا شروع ہوگیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔

اوبامہ کی خودنوشت پڑھتے ہوئے بارہا مجھے وطنِ عزیز کے بے تحاشہ مسائل یاد آتے رہے۔اس کی کتاب کھولنے سے قبل میں نے اخبارات اور سوشل میڈیا پر نظرڈالی تو وہاں اسلام آباد میں پولیس کے ہاتھوں ایک 22سالہ نوجوان کی ہلاکت کے بار ے میں غم وغصے سے بھرے پیغامات دیکھنے کو ملے۔اتوار کی شام تاہم وزیر داخلہ اسلام آباد کے آئی جی کو اپنے ہمراہ لے کر مقتول کے گھر چلے گئے۔توقع باندھی جارہی ہے کہ بدنصیب کے ورثا کو ’’صاف شفاف‘‘ تفتیش کے بعد بے دریغ قتل کے ذمہ دارجوانوں کو ’’کیفرکردار‘‘ تک پہنچانے کے وعدے سے تھوڑا مطمئن کردیا گیا ہے۔سوال مگر یہ اُٹھتا ہے کہ ’’ہمارے محافظوں‘‘ کے ہاتھوں ہی کسی بے گناہ نوجوان کا قتل فقط مقتول کے ورثا کے غم وغصے کا باعث ہونا چاہیے۔

اسلام آباد 1990کے وسط تک پاکستان کا پرامن ترین شہر شمار ہوتا تھا۔ 1980کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی میں اس شہر میں شائع ہونے والے واحد انگریزی روزنامے کا رپورٹر ہوگیا۔ثقافتی امور کے علاوہ جرائم کی خبروں پر نگاہ رکھنا بھی میری ذمہ داری تھی۔ میں دن میں کئی گھنٹے مقامی تھانوں اور ہسپتالوں میں ’’وارداتوں‘‘ کا سراغ لگانے میں گزارتا۔چھوٹی موٹی گھریلو چوری چکاری کے علاوہ شاذہی کوئی ایسی ’’خبر‘‘ ملتی جسے نمایاں طورپر شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔

1990کے وسط سے پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح مگر اسلام آباد میں بھی آبادی کا پھیلائو بے تحاشہ بڑھنا شروع ہوگیا۔زرعی یا بے آباد زمینوں کو سی ڈی اے نے نئے رہائشی سیکٹر بنانے کے لئے Acquireکرنا شروع کردیا۔سی ڈی اے کے متوازی نجی سرمایہ کار بھی ہائوسنگ سوسائٹیاں قائم کرنے کے نام پر زمنیوں کی ’’خریداری‘‘ میں مصروف ہوگئے۔زمینوں کے دھندے کے ساتھ ’’ولایتی شراب‘‘ کی Bootlegging کا بھی آغاز ہوگیا۔ پاکستان کا ’’جدید ترین ماڈل اور پرامن ترین شہر‘‘ لہٰذا مختلف النوع مافیا کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔

جنرل مشرف کے ’’عہد زریں‘‘ میں دہشت گردی کا آغاز بھی ہوگیا۔مقامی پولیس کو نئے مسائل سے نبردآزما ہونے کی تربیت ہی میسر نہیں تھی۔غیر ملکی مدد سے جو تربیت فراہم ہوئی وہ بنیادی طورپر ’’دہشت گردی‘‘ پر ہی توجہ دیتی رہی۔

اسلام آباد کتابی حوالوں سے پڑھے لکھے متوسط طبقے کا شہر شمار ہوتا ہے۔اس کے شہریوں کی اکثریت سرکاری ملازموں پر مشتمل ہے۔ان حقائق کو نگاہ میں رکھیں تو برطانوی استعمار کے متعارف کردہ نظام پولیس کے مقابلے میں اسلام آباد Community Policing کو رائج کرنے کے لئے ایک ’’مثالی‘‘شہربن سکتا تھا۔ ہمارے حکمرانوںنے مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔کئی اعتبار سے یہ شہر بلکہ اب 1930کی دہائی والا امریکی شہر شکاگو بن چکا ہے جسے ایک شہرئہ آفاق جرمن ڈرامہ نگار-بریخت- نے The Jungle City پکارا تھا۔

اسلام آباد کے نام نہاد Posh محلوں میں اب دن دیہاڑے ڈاکو درآتے ہیں۔میلوڈی جیسی پُرہجوم مارکیٹ میں بھی سونے کی دکانوں پر حملے ہوچکے ہیں۔ 1975 سے 1988 تک میں نے رات کو سونے سے قبل کبھی اپنے گھر کے دروازہ کو تالے سے بند کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔اب دن میں کئی بار گھر سے باہر نکل کر اس کے اندرداخل ہونے کے امکانات کا تدارک کرنا ہوتا ہے۔ایسی ’’احتیاط‘‘بھی کم از کم تین بار میرے کام نہیں آئی۔1990 کے آغاز میں میرے گھر کا مکمل صفایا ہوگیا تھا۔ میری بیوی کو جو اشیاء اس کی والدہ نے کئی برس تک پھیلے چائو سے فراہم کی تھیں ہمارے ہاں موجود نہ رہیں۔

2008کے بعد جب رحمن ملک ہمارے وزیر داخلہ ہوئے تو چند ہی مہینوں بعد یہ بڑھک لگادی گئی کہ ہمارے یار چین کی مدد سے اسلام آباد کو جدید ترین کیمروں کی مدد سے ’’سیف سٹی‘‘ بنادیا گیا ہے۔اطلاع یہ بھی دی گئی کہ اسلام آباد کی تمام تر شاہراہوں پر ایسے کیمرے نصب ہیں جو ہر گاڑی کا نمبر بھی ریکارڈ کرلیتے ہیں۔اس کے علاوہ موبائل فونز پولیس اور انتظامیہ کو بآسانی بتادیتے ہیں کہ دن کے کس وقت میرے جیسا شہری اپنے گھر سے نکلا اور کونسا راستہ اختیار کرتے ہوئے کونسے محلے میں داخل ہوا اور وہاں کتنا وقت صرف کیا۔

’’جدید ترین کیمروں‘‘ کی تنصیب سے Safe بنائے شہر میں دن دیہاڑے ڈکیتیاں اور ان کا ارتکاب کرنے والے افراد کا بآسانی ’’فرار‘‘ ہوجانا اسلام آباد کے ’’پڑھے لکھے‘‘ شہریوں کے لئے حیرت وپریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔اوبامہ نے 1990کے جس شکاگو کا ذکر کیا ہے اس کے شہریوں کی طرح اسلام آباد کے باسیوں کی اکثریت بھی لیکن قطعاََ بے حس ہوچکی ہے ۔ہمارے شہر میں قومی اسمبلی کی تینوں نشستیں تحریک انصاف نے جیتی ہیں۔خود کو سینہ پھلا کر ’’فرزند کراچی‘‘ بتاتے اسد عمر صاحب تو دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔وہ عمران حکومت کے ذہین ترین اور طاقت ور ترین وزراء میں شمار ہوتے ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے ’’پڑھے لکھے‘‘ اور ’’قانون کو ہر صورت لاگو‘‘ کرنے کے جنون میں مبتلا افراد نے ’’اپنے نمائندوں‘‘ کو کیسے کب اور کتنی بار مجبور کیا کہ وہ داخلہ امور کی نگہبانی کرتی پارلیمانی کمیٹیوں کے ذریعے یہ معلوم کریں کہ اسلام آباد کو ’’سیف سٹی‘‘ بنانے میں کتنی رقم خرچ ہوئی۔ان کیمروں کے ہوتے ہوئے بھی دن دیہاڑے ڈکیتیاں کیوں ہورہی ہیں۔ان کے مرتکب افراد پولیس کی گرفت میں کیوں نہیں آتے۔

ہماری اس ضمن میں اجتماعی بے حسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ہم خود کو سلطانوں کی ’’رعایا‘‘ ہی تصور کرتے ہیں۔خود کو ریاست کے ’’شہری‘‘ شمار نہیں کرتے جنہیں اپنے اجتماعی حقوق کے بارے میں حکمرانوں کو مسلسل سوالات کی زد میں رکھنا ہوتا ہے۔ Communityکا متبادل لفظ ہماری زبان میں موجود ہی نہیں۔اس کی اجتماعی ذمہ داری اور حقوق کی بابت لہٰذا ہم متفکر نہیں۔22سالہ نوجوان کی ہلاکت جیسا کوئی سانحہ ہوجائے تو غصہ بھری ٹویٹس لکھ کر سوشل میڈیا پر چسکہ فراہم کرتی دیگر Postsسے لطف اندوز ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).