روایت شکن بھٹو کی زندگی کے مہ و سال


”چونکہ میں سکول میں پڑھتا ہوں اس لیے پاک وطن کے قیام میں مدد دینے کے قابل تو نہیں ہوں لیکن وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان تک قربان کر دوں گا“ ، 26 اپریل 1945 کو قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے گئے خط میں ایک سترہ سالہ طالب علم نے پاکستان سے اپنی محبت کا بھر پور اظہار کیا اور وطن کی خاطر جان کی قربانی دینے کا عہد کیا۔

یہ طالب علم کوئی اور نہیں سر شاہ نواز بھٹو کے لاڈلے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو تھے ، جن کی پیدائش 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ کے المرتضیٰ ہاؤس میں ہوئی ۔ نومولود کا نام مسجد میں لے جا کر رکھا گیا۔ چار سال کی عمر میں رسمی مذہبی تعلیم اور قرآن ناظرہ پڑھنے کی خاطر مسجد میں بٹھایا گیا۔ ایک روایت کے مطابق بھٹو کی تعلیم کا آغاز نو سال کی عمر سے پہلے نہ ہو سکا۔ 1937 سے 1947 کی دہائی میں کنڈر گارٹن سکول کراچی اور کیتھڈرل سکول بمبی میں پڑھتے رہے۔ صرف 14 برس کی عمر میں ذوالفقار علی بھٹو کی شادی 25 سالہ کزن امیر بیگم سے ہو گئی۔

دسمبر 1945 میں ہونے والے سینیئر کیمبرج کے امتحان میں فیل ہونے پر ہمت نہ ہاری اور سخت محنت کے بعد دسمبر 1946 میں یہ امتحان پاس کر لیا۔ جنوری 1949 میں ذوالفقار علی بھٹو نے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے برکلے یونیورسٹی آ گئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی انتظامی کونسل جس کا نام کونسل ایسوسی ایشن آف اسٹوڈنٹس تھا کہ الیکشن میں حصہ لیا اور پہلے ایشیائی طالبعلم کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں بھی زیر تعلیم رہے۔ 1951 میں ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری شادی نصرت بیگم سے ہوئی جو کہ ایران سے تعلق رکھتی تھیں۔ برکلے 1952 میں ایم اے آنرزفلسفہ قانون میں کیا۔ 1953 میں لنکن اِن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ساوتھ میٹن یونیورسٹی میں عالمی قانون کے استاد مقرر ہوئے۔ بھٹو نے کچھ مدت ملکہ برطانیہ کے مشیر اور مشہور وکیل ایش لنکن کے ساتھ بھی کام کیا۔

21 جون 1953 کو بھٹو کو خدا نے بیٹی سے نوازا جس کا نام بے نظیر بھٹو رکھا گیا۔ 1954 میں میر مرتضٰی اور 1957 میں صنم بھٹو اور 1958 میں سب سے چھوٹے فرزند شاہ نواز بھٹو پیدا ہوئے۔ 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگایا اور بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت بنے۔ 1958 تا 1965 تک متعدد بار بھٹو نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 10 جنوری 1966 کوتاشقند میں پاکستان اور  بھارت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو کہ بھٹو کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا ایک نمونہ تھا مگر ایوب خان کو یہ پسند نہ آیا اور بھٹو کو وزارت خارجہ سے الگ کر دیا گیا۔

16 ستمبر 1966 کو بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ 30 نومبر 1967 اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر سیاسی کارکنوں کے کنونشن بلائے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ پارٹی کے پہلے چیر مین ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل سیکرٹری جے۔ اے رحیم منتخب ہوئے۔ 7 دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 138 میں سے 82 اور سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد کی 300 صوبائی نشستوں میں سے 144 نشستیں جیت کر میدان مار لیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے خود لاڑکانہ، لاہور، بدین، ملتان اور ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں۔ 21 نومبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے اور آخری نائب وزیراعظم نامزد کیے گئے۔ مشرقی پاکستان کے کھونے کے بعد بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔ 20 دسمبر 1971 کو اپنی 11 رکنی کابینہ تشکیل دی اور عبوری آئیں نافذ کر کے ملک سے مارشل لاء اٹھا لیا۔ 17 اپریل 1972 کو مستقل آئین تیار کرنے کے لیے بھٹو نے میاں محمد علی قصوری کی سربراہی میں 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

28 جون 1972 تا 3 جولائی 1972 کی مدت میں صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان شملہ معاہدہ طے پایا۔ 31 دسمبر 1972 کو وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ نے 280 دفعات پر مشتمل ایک مستقل آئین کا مسودہ بل کی شکل میں پیش کیا۔ 6 اپریل 1973 کو 128 ارکان قومی اسمبلی میں سے 125 ارکان نے بحث کے بعد اس آئین کے مسودہ پر دستخط کر دیے جبکہ 13 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔ 21 اپریل 1973 کو پاکستان میں سول مارشل لاء کا خاتمہ ہوا۔

10 اگست 1973 کو نئے آئین کی تدوین کے بعد صدر کا چناؤ ہوا جس میں چودھری فضل الٰہی کی جیت ہوئی اور 12 اگست کو ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان چنے گئے اور اس طرح پاکستان میں کم و بیش 15 سال بعد جمہوری نظام حکومت بحال ہوا اور 14 اگست 1973 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 12 رکنی کابینہ تشکیل دی۔ اسی سال روس کے تعاون سے کراچی اسٹیل مل کا قیام عمل میں لایا گیا اور بھٹو صاحب کی کوششوں سے 22 تا 24 فروری 1974 کو پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔

7 ستمبر 1974 کو احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔ 8 اپریل 1976 کو ذوالفقار علی بھٹو نے سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا۔ 7 جنوری 1977 کو بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کیا۔ حزب اختلاف کی 9 جماعتوں نے پاکستان کے قومی اتحاد کے نام سے ایک الائنس بنایا۔ 7 مارچ 1977 کو عام انتخابات ہوئے اور اس الیکشن میں پیپلز پارٹی نے دوبارہ اکثریت حاصل کی مگر 9 مارچ کو حزب اختلاف نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر ایک تحریک شروع کر دی جس کو تحریک نظام مصطفی کانام دیا گیا۔

28 مارچ 1977 کو بھٹو نے آئندہ پانچ سال کے لیے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا مگر اس دوران ملک میں خوں ریز ہنگامے شروع ہو گئے۔ 30 اپریل کو پاکستان قومی اتحاد نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کیا جو ناکام ہو گیا۔ اسی دوران ملکی صورتحال بگڑتی چلی گئی اور حزب اختلاف سے تمام مذاکرات ناکام ہو گئے۔ 5 جولائی 1977 کوذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ 3 ستمبر 1977 کو نواب زادہ محمد احمد خان کے قتل کے کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔

مقدمہ چلتا رہا اور 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو میاں عباس، ارشد اقبال، صوفی غلام مصطفے اور رانا افتخار سمیت سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 22 مارچ کو دیگر چار ملزمان اور 25 مارچ کو بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ یکم اپریل 1978 کو عدالت کے پانچ ججوں پر مشتمل فل بینچ نے بھٹو کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے احکامات جاری کر دیے۔ 20 مئی 1978 کو سپریم کورٹ نے تین کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے رحم کی اپیل مسترد کر دی۔ بھٹو کے وکیل یحیی بختیار نے سات روز کے اندر فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی اور اس درخواست پر 24 مارچ 1979 کو فیصلہ دیا گیا کہ گزشتہ فیصلہ ٹھیک ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو رحم کی اپیل کی گئی مگر بے سود اور 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی کی سزا دے دی گئی اور ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں دفن کیا گیا۔

بھٹو پاکستان کے واحد سربراہ ہیں جن کو پھانسی دی گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ بھٹو کی شخصیت کے متعلق اس سے خوبصورت اور جامع تبصرہ ممکن ہی نہیں کہ ”اس شخص کی تمام عمر روایت شکنی و روایت سازی ہی میں تو گزری ہے۔ وہ بعد از زندگی بھی چین سے نہیں سویا ۔ قبر میں لیٹ کر بھی اپنا دلچسپ کھیل جاری رکھے ہوئے  ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).