رؤف طاہر: چند باتیں چند یادیں


رؤف طاہر صاحب سے پہلا تعارف 2013 میں ہوا تھا۔ میں نیا نیا لاہور وارد ہوا تھا اور اجمل شاہ دین صاحب کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ سر پر صحافی بننے کا جنون سوار تھا اور اجمل شاہ دین صاحب میری اردو سنوارنے کا بار گراں اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ رؤف طاہر صاحب ہر جمعرات کو اجمل شاہ دین صاحب کے دفتر آتے اور اکثر و بیشتر ان کے دست راست عامر چوہان صاحب سے اپنا کالم کمپوز کرواتے۔ میری اردو کسی طرح سے ٹھیک ہونے میں نہ آئی تو اجمل شاہ دین صاحب نے میری ڈیوٹی رؤف طاہر صاحب کے ساتھ لگا دی اور ہر جمعرات کو ان کا کالم کمپوز کرنا میری ذمہ داری ٹھہر گیا۔

ان کا کالم لکھنے کا انداز نرالا تھا۔ کالم لکھنے کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا۔ چلتے پھرتے کوئی بات یاد آتی، جیب سے کاغذ قلم نکال کر لکھ لیتے۔ دوستوں سے گپ شپ کے دوران کچھ یاد آتا تو نوٹ کرتے۔ یوں وہ کالم کمپوز کروانے آتے تو ہاتھ میں کاغذوں کا پلندا ہوتا۔ کسی کاغذ پر ایک پیراگراف لکھا ہوتا تو کہیں صرف ایک دو جملے ملتے۔ کالم لکھوانے بیٹھ جاتے تو کاغذ کے ان ٹکڑوں سے بہ آواز بلند پڑھتے جاتے اور میں لکھتا رہتا۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ ان کو متعلقہ پیراگراف والا کاغذ نہ ملتا تو بہت پریشان ہوتے۔ آئندہ ایک نوٹ بک ساتھ رکھنے کا اعلان کرتے لیکن اگلی جمعرات کو پھر ایسے ہی پلندے اٹھا کر تشریف لاتے۔ آخری پیراگراف کسی کاغذ سے پڑھنے کے بجائے پہلے پورا کالم دوبارہ پڑھتے اور پھر خوب سوچ سمجھ کر اختتامی جملے لکھواتے اور متعلقہ اخبار کے ایڈیٹر کو ای میل کروا کر اٹھ جاتے۔

سوسائٹی کی مسجد ہمارے دفتر کے بالکل پاس ہی تھی۔ جب بھی ہمارے پاس آتے باجماعت نماز میں ضرور شرکت کرتے۔ کبھی جماعت قضا ہوجاتی تو فراغت کے بعد دفتر میں نماز کی ادائیگی کے بجائے مسجد جانے کو ترجیح دیتے۔ ان کے لیے مسجد جانا خدا سے تعلق جوڑنا تھا ، وہ مسلک اور فرقوں کے چکروں سے آزاد تھے۔ ایک عرصے تک ان کے ہمراہ باجماعت نمازوں میں شریک ہونے کے باوجود کبھی مذہب و مسلک سے متعلق بات نہیں کی اور نہ مجھے یہ پتہ چلا سکا کہ وہ کس مسلک کے پیروکار تھے، بس ایک باعلم مسلمان تھے۔

عصر کے بعد دفتر کے باہر خالی پلاٹ میں بیڈمنٹن کے مقابلے ہوتے جس میں پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر صاحب باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے اور شام تک زور و شور سے کھیل جاری رہتا۔ رؤف طاہر صاحب ان مقابلوں کے اکلوتے تماشائی ہوتے۔ ہم کھیل رہے ہوتے تو وہ ہمیں داد دینے کے ساتھ ساتھ سیاست و صحافت پر تبصرے بھی کر رہے ہوتے۔

رؤف طاہر صاحب نظریاتی طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کے قریب تھے اور یہ قربت ان کے اکثر کالموں سے بھی جھلکتی تھی ۔ 2013 کی انتخابی مہم شروع ہوئی تو وہ تواتر کے ساتھ سیاست پر لکھنے لگے۔ میں ان دنوں عمران خان سے شدید متاثر تھا۔ عمران خان کی دھواں دھار تقریریں سننے کے بعد نون لیگ کے حق میں ان کا کالم کمپوز کرنا خود سوزی کے برابر تکلیف دیتا لیکن رؤف طاہر صاحب حوصلہ افزائی کے انداز میں کہتے ”ایوبی بچہ، جب آپ صحافی بنیں گے یہ تجربہ آپ کے کام آئے گا، ایک اچھے ایڈیٹر کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نظریے کو اپنے کام پر اثر انداز ہونے نہیں دیتا“ ۔

انتخابات سر پر آ گئے تو ایک دن پوچھنے لگے ”ایوبی بچہ، ووٹ کس کو دینا ہے؟ میں نے کہا“ مشرف کو ”عینک کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے کہنے لگے“ یہ کیا بات ہوئی؟ باتیں عمران خان کی کرتے ہو اور ووٹ مشرف کو دو گے، ایسا کیوں؟ میں نے جواز تراشا ”مشرف نے لواری ٹنل بنا کر چترالی قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہے فی الحال احسان کا بدلہ چکانا ہے، اگلی بار عمران خان کو ووٹ دیں گے“ ۔ اس وقت چپ ہو گئے لیکن شام کو پروفیسر سلیم مظہر صاحب آئے تو کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب، ایوبی سے دور رہیں یہ بہت گمراہ کن خیالات کا حامل ہے، کہیں آپ کو بھی گمراہ نہ کر دے۔ سپورٹر عمران خان کا ہے اور ووٹ مشرف کو دینا چاہتا ہے۔ اس بات پر سلیم مظہر صاحب نے زوردار قہقہہ لگایا۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت آئی تو رؤف صاحب پاکستان ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز تعینات ہوئے۔ ذمہ داریاں بڑھ گئیں تو اجمل شاہ دین صاحب کے پاس بھی آنا جانا کم ہو گیا۔ مہینے میں ایک آدھ بار چکر لگاتے تو دفتر میں ہم سے ضرور مل کر جاتے۔ ایک دن از راہ مذاق پوچھ لیا کہ رؤف صاحب اب آپ کے کالم کون کمپوز کرتا ہے؟ کہنے لگے ”ایوبی بچہ، وقت اجازت نہیں دیتا ورنہ آج بھی ادھر ہی آنے کو ترجیح دوں گا، دفتر کے اسٹاف میں ایک اچھا بچہ مل گیا ہے، وہ بخوشی یہ ذمہ داری نبھا رہا ہے۔“

چند سال پہلے ان کی اہلیہ وفات پا گئیں۔ اہلیہ بیمار تھیں تو ان کے گھر پر یکے بعد دیگرے دو ڈکیتیاں ہوئیں۔ اس وقت شہباز شریف کی حکومت تھی اور ان کو شہباز شریف تک باآسانی رسائی حاصل تھی۔ اس کے باوجود میڈیا پر ان کے ساتھ ہونے والی وادات کا زیادہ شور نہیں مچا۔ کوئی اور ہوتا تو وزیر اعلیٰ سے اپنی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا ڈھنڈورا پیٹتا کہ ایک عالم تک خبر پہنچ جاتی لیکن انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ دنیا سے جانے کا وقت آیا تو ایسی ہی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ صحافت میرا شوق تھا لیکن اجمل شاہ دین صاحب اور رؤف طاہر صاحب کے ساتھ واسطہ نہ پڑتا تو شاید میرا یہ شوق کبھی پورا نہ ہوتا۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).