ہزارہ: بنکاک کی بتول سے مچھ کے مزدور تک سانحہ در سانحہ


بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری قیام پاکستان سے بھی پہلے سے آباد ہے۔ افغانستان سے ہجرت کرتے ہوئے یہ امن پسند لوگ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔ دری فارسی بولنے والے ہزارہ برادری کے افراد 2002 سے پہلے آزادانہ زندگی بسر کرتے ہوئے نظر آتے تھے چونکہ ہزارہ فارسی کے علاوہ پشتو اور بلوچی بھی اچھی بول لیتے ہیں لہٰذا بلوچستان افغانستان کے بعد انہیں اپنے گھر جیسا محسوس ہوا۔

مذہب کے اعتبار سے ہزارہ بڑی تعداد میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ ان کا جرم ٹھہرا، 1980 کے ”افغان جہاد“ نے جہاں دنیا بھر کو متاثر کیا وہاں کوئٹہ شہر میں آباد ہزارہ برادری نے بھی اس تبدیلی کو شدت سے محسوس کیا۔

کہتے ہیں جو ہم نے آج بویا اس کا پھل آنے والے وقتوں میں نظر آتا ہے کچھ یونہی بلوچستان میں بھی ہوا، وقت کے ساتھ ساتھ کئی کالعدم تنظیموں نے نہ صرف یہاں جنم لیا بلکہ کئی انتہا پسند تنظیموں نے یہاں اپنی جڑیں بھی مضبوط کر لیں اور ریاست عوام کو بنیادی سہولتیں تو کجا تحفظ فراہم کرنے میں بھی بری طرح سے ناکام رہی۔

پچھلے سال بنکاک جانے کا اتفاق ہوا، ہوٹل کی لابی میں ناشتے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہوٹل اسٹاف میں موجود ایک لڑکی (جو بظاہر تھائی) لگ رہی تھی ہماری طرف متوجہ ہے تھوڑی ہی دیر بعد وہ ایک غیر محسوس طریقے سے ہمارے قریب آئی اور اپنا تعارف کچھ اس طرح سے کروایا کہ میرا نام بتول بی بی ہے کیا آپ لوگ کوئٹہ والی کڑک چائے پینا پسند کریں گے؟

ہمارے پوچھنے پر بتول نے مزید بتایا کہ چار سال قبل ماہ محرم میں علمدار روڈ کے قریب دھماکے میں اس کے چچا، والد اور بڑا بھائی شہید ہو گئے اس نے بتایا کہ میری طرح ہماری برادری کی کئی بہنیں، مائیں اور بیٹیاں ہیں کہ جن کے خاندان کی کفالت کرنے والے افراد مارے گئے، خوف کا یہ عالم ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرتی ہیں اور ہماری زندگی علمدار روڈ تک محدود ہو کر رہ گئی مگر کیا کریں گھر کے اخراجات کے لئے روزگار کی تلاش اور تعلیم دونوں ہی ضروری ہیں۔

اپنے شہر کا ذکر کرتے ہوئے بتول کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس کے الفاظ میں اپنی مٹی کی محبت نمایاں نظر آ رہی تھی بتول نے بتایا کہ میں، میری والدہ اور میرا چھوٹا بھائی کسی طرح بچتے بچاتے بنکاک تو پہنچ گئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ آگے ہماری منزل ہمیں کہاں لے جاتی ہے مگر ہمارا دل ابھی بھی ہمارے شہر کو یاد کرتا ہے۔

ایمبولینس کی آوازیں، علمدار روڈ اور خون آلود لاشیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب کی بار نشانہ کوئلے کی کان میں کام کرنے والے وہ بے گناہ مزدور ہوں گے جو محنت مزدوری کے لئے مچھ کے علاقے میں کوئلے کی کانوں میں اپنا رزق تلاش کر رہے تھے۔

قاتلوں کا طریقہ واردات انتہائی سفاکانہ تھا نا معلوم مسلح افراد (جن کی تنظیم نے کھلے عام ذمہ داری) قبول کرلی ہے نے مزدوروں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد بے دردی سے ان کا قتل کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے پانچ افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔

لواحقین مغربی بائی پاس پر اپنی میتیں لے کر اب تک اپنا احتجاجی دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ اپنے ٹویٹ کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ سانحہ بلوچستان کے کس علاقے میں ہوا۔

واقعے کے کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد صوبائی وزرا اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب مذاکرات کی کوشش کرتے ہیں جو کہ بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں، اب بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اپنے پیاروں کی میتیں لئے بلوچستان کی اس یخ بستہ سردی میں جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، مطالبہ فقط جانوں کی سلامتی ہے، مطالبہ صرف جینے کا حق ہے جو فراہم کرنے میں ریاست بری طرح ناکام رہی ہے، موجودہ مدینے کی ریاست کے حکمران شاید یہ بھول گئے ہیں کہ مدینے کی ریاست میں غیر مسلم کی جان کے تحفظ کی بات کی گئی تھی یہ تو پھر اپنے مسلمان بھائی ہیں اگر قصور ہے تو صرف اتنا کہ ان کا مسلک آپ کے مسلک سے جدا ہے۔

10 جنوری 2013 کوئٹہ شہر میں ایک بڑی خون ریزی 130 افراد شہید اور 270 کے قریب زخمی، 11 جنوری 2013 لواحقین ایک بار پھر اپنے پیاروں کی میتیں لے کر پھر دھرنا دیے بیٹھے موجود، وزیراعظم صاحب کا ایک ٹویٹ آتا ہے اور وہ ہزاری برادری سے تعزیت کرتے ہوئے اسے ریاست کی ناکامی قرار دیتے ہیں اور آج دھرنے کے شرکا تعزیتی ٹویٹ نہیں انصاف مانگ رہے ہیں دیکھتے ہیں آج کی ریاست کہاں موجود ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).