کورونا وائرس: انڈیا نے مقامی ویکسین کی آزمائش مکمل ہوئے بغیر کیوں منظور کر لی؟


کورونا، انڈیا
انڈیا کے شہر احمد آباد میں ایک شخص کو کوویکسِن دی جا رہی ہے
کورونا وائرس کی کوئی ایسی ویکسین جو 'کلینیکل آزمائش' کے مرحلے میں ہو، اسے خطرے کی زد میں موجود کروڑوں لوگوں کو دیے جانے کے لیے کیسے منظور کیا جا سکتا ہے؟

انڈیا کے صفِ اول کے ویکسین ماہر ڈاکٹر گنگادیپ کانگ کہتے ہیں کہ ‘کچھ کہا نہیں کہا جا سکتا۔’ وہ کہتے ہیں کہ ‘یا تو آپ کلینیکل آزمائش کرتے ہیں یا آپ نہیں کرتے۔’

کلینیکل ٹرائلز تین مرحلوں پر مشتمل وہ تجربات ہوتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا کسی ویکسین سے مدافعتی نظام میں مثبت ردِعمل پیدا ہوتا ہے یا اس سے کوئی ناخوشگوار منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔

اتوار کو انڈیا میں ادویات کے ریگولیٹر ادارے نے کوویکسِن نامی مقامی طور پر تیار کی گئی ویکسین کی ہنگامی طور پر منظوری دی ہے جبکہ اس کے ٹرائلز ہی ابھی مکمل نہیں ہوئے۔

حکومت سے منظور شدہ یہ ویکسین بھارت بائیوٹیک نے بنائی ہے جس کا ویکسین سازی میں 24 سالہ تجربہ ہے اور یہ اب تک 16 ویکسین بنا چکی ہے جسے 123 ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا ویکسین کے پیچھے ترک نژاد جوڑے کی کہانی

کووڈ ویکسین سے کس کی چاندی ہونے والی ہے؟

کیا کورونا ویکسینز محفوظ ہیں، فیصلہ کون کرے گا؟

مسلم ممالک میں کورونا ویکسین کے حلال یا حرام ہونے پر بحث کیوں؟

ریگولیٹری ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویکسین کو ”عوامی مفاد میں بہتر احتیاطی تدبیر کے طور پر کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں ہی ہنگامی صورتحال میں محدود استعمال کے لیے منظور کیا گیا ہے، خاص طور پر ایسا وائرس کی نئی شکل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔’

اس ادارے نے ایسٹرازینیکا آکسفرڈ ویکسین کی بھی منظوری دے دی ہے جس کی انڈیا میں پیداوار جاری ہے۔

اور یہ منظوری ایسے وقت میں دی گئی ہے جب کوویکسِن کے کلینیکل ٹرائلز کا تیسرا اور اہم مرحلہ ابھی جاری ہے جس میں ہزاروں لوگوں کو ویکسین اس کے محفوظ اور مؤثر ہونے کی آزمائش کے لیے دی جا رہی ہے۔

کورونا، انڈیا

انڈیا میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

ریگولیٹر کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ویکسین ‘محفوظ ہے اور جسم میں زبردست مدافعتی ردِعمل پیدا کرتی ہے’ تاہم زیادہ تر سائنسدان اور طبی ماہرین اس سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

غیر سرکاری تنظیم آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک نے کہا ہے کہ وہ ‘نامکمل تجربات سے گزری ویکسین’ کی منظوری ‘کے پیچھے موجود سائنسی منطق سمجھنے میں ناکام ہیں۔’

بھارت بائیوٹیک کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کوویکسِن کی دو کروڑ خوراکیں موجود ہیں اور یہ سال کے آخر تک دو شہروں میں موجود اپنے چار کارخانوں میں 70 کروڑ خوراکیں مزید تیار کر لے گی۔ کمپنی کے چیئرمین ڈاکٹر کرشنا ایلا کا کہنا ہے کہ ‘ہماری ویکسین 200 فیصد محفوظ ہے۔’

ڈاکٹر ایلا نے اس منظوری کا دفاع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ انڈیا میں کلینیکل ٹرائلز کے قوانین ‘ملک میں سنگین اور جان خطرے میں ڈالنے والی بیماریوں’ کی روک تھام کے لیے ٹرائلز کے دوسرے مرحلے کے بعد ‘تیز تر’ منظوری کی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ ان کی ویکسین کورونا وائرس کی ایک غیر فعال صورت پر مبنی ہے اس جسے ایک آزمودہ راستہ تصور کیا جاتا ہے، اس لیے بھی ان کی ویکسین کو قبولیت ملی ہے۔

ڈاکٹر ایلا نے کہا کہ بندروں اور چوہوں پر کیے گئے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویکسِن انفیکشن کے خلاف بھرپور مدافعت فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 26 ہزار میں سے 24 ہزار رضاکار پہلے ہی تیسرے مرحلے کے ٹرائلز میں شرکت کر چکے ہیں اور کمپنی کو امید ہے کہ فروری تک ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں ڈیٹا موصول ہو جائے گا۔

مگر سائنسدانوں کو اس پر شبہ ہے۔

ایک ماہر وائرولوجسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل نے مجھے بتایا کہ ‘چونکہ اب تک ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ڈیٹا موجود نہیں ہے، اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ویکسین کتنی مؤثر ہے۔ ہم دوسرے مرحلے کے محدود ٹرائلز کو دیکھتے ہوئے یہ جانتے ہیں کہ یہ محفوظ ہے۔ لیکن اگر ہم نامعلوم اثر رکھنے والی ویکسین لوگوں کو دینی شروع کر دیں اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ صرف 50 فیصد مؤثر ہے، تو پھر؟ کیا یہ ان لوگوں کے ساتھ انصاف ہوگا جنھوں نے ویکسین لگوائی ہے؟’

یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ ریگولیٹری ادارے کی جانب سے ویکسین کو ‘کلینیکل ٹرائل کے انداز میں’ لگائے جانے کا کیا مطلب ہوگا۔ روایتی طور پر ٹرائل میں رضاکاروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ انھیں ویکسین دی گئی ہے یا کوئی بے اثر محلول۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کو تو ان کی طبی صورتحال کی وجہ سے ان ٹرائلز میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔

ڈاکٹر ایلا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کوویکسِن حاصل کرنے والے افراد کی نگرانی کرے گی۔ اس سے ممکنہ طور پر اس پورے ویکسینیشن پروگرام کی لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

کورونا، انڈیا

کوویکسِن انڈیا میں مقامی طور پر تیار شدہ پہلی ویکسین ہے

تو کیا حکومت کا مطلب یہ ہے کہ کوویکسِن منظوری اور فروخت کے بعد لوگوں کو ‘کلینیکل ٹرائل کے چوتھے مرحلے کے طور پر’ مزید تحقیق کے لیے لگائی جائے گی؟ ڈاکٹر ایلا اس سوال پر کہتے ہیں کہ ‘ہمیں پورا معاملہ سمجھنے کے لیے کچھ وقت دیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اسے ٹرائل کے طور پر لیا جائے گا یا نہیں۔’

بات یہیں تک محدود نہیں۔

کووڈ 19 کی وفاقی ٹاسک فورس کے ایک سینیئر رکن نے یہ کہہ کر معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے کہ کوویکسِن مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی صورت میں ‘بیک اپ ویکسین` کے طور پر کام کرے گی۔

میں نے جب وباؤں کے ماہرین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ حیران ہیں۔ ایک سینیئر ماہر نے کہا کہ ‘کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کیسز کی تعداد بڑھنے کی صورت میں چند لوگوں کو ایسی ویکسین دی جائے گی جس کا اثر غیر ثابت شدہ ہے؟’

مگر یونیورسٹی آف کوئینزلینڈ میں متعدی امراض کے ایک ماہر پروفیسر پال گریفن کے مطابق ہنگامی صورتحال میں ٹارگٹڈ انداز میں ٹرائل سے گزرنے والی ویکسین کا لگایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا خاص طور پر تب کیا جاتا ہے جب موجودہ ٹرائلز مؤثر ہوں اور اگر گذشتہ ٹرائلز سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ویکسین کے ‘حفاظت اور اثر’ کے اعتبار سے وسیع تر استعمال کے حق میں ہے۔

انڈیا میں کورونا وائرس کے ایک کروڑ سے زیادہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں اور یوں انڈیا میں امریکہ کے بعد کورونا وائرس کے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔ وبا نے انڈیا کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ انڈیا کا ارادہ ہے کہ جنوری اور جولائی کے درمیان 30 کروڑ کے قریب لوگوں کو ویکسین لگائی جائے۔

مگر ویکسین بھی ایسے موقعے پر پیش کی جا رہی ہے جب نئے کیسز کی شرح میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت بائیوٹیک ایک نامور ویکسین ساز کمپنی ہے جس کا 20 ممالک میں کلینیکل ٹرائلز کا ٹریک ریکارڈ ہے جس میں سات لاکھ رضاکار شرکت کر چکے ہیں۔

تو انڈیا حتمی ٹرائلز مکمل ہونے کے لیے چند ہفتے مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتا تھا کہ ایک ہی مرتبہ ثابت شدہ اثر والی ویکسین متعارف کروائی جاتی؟ اتنی جلد بازی کیوں؟

کورونا، انڈیا

انڈیا کا ویکسین پروگرام دنیا کے سب سے بڑے ایسے پروگرامز میں سے ہے

اپوزیشن کے سینیئر رہنما اور رکنِ پارلیمان ششی تھرور نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ناقابلِ فہم ہے۔’

ششی تھرور نے اس ‘نامناسب جلد بازی’ کا الزام نریندر مودی کی حکومت پر ڈال دیا جو ان کے مطابق ‘نعروں کو کام سے اوپر رکھنا پسند کرتی ہے۔’

ششی تھرور اسے ویکسین نیشنلزم قرار دیتے ہیں جس میں وزیرِ اعظم کے ‘خود مختار انڈیا’ کی مہم بھی شامل ہے، جس نے عام فہم اور ثابت شدہ سائنسی پروٹوکولز کو روند دیا ہے۔ دیگر لوگوں نے ریگولیٹری حکام کی جانب سے شفافیت کی عدم موجودگی اور ‘سائنسی مؤقف پیش کرنے میں ناکامی’ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

انڈیا ویکسین سازی میں دنیا بھر میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور دنیا کی 60 فیصد ویکسین یہاں تیار ہوتی ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام چلاتا ہے جس میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد (اکثریتی طور پر نومولود بچوں اور حاملہ خواتین) کو ہر سال ایک درجن بیماریوں سے تحفظ کے لیے ویکسینز کی 39 کروڑ مفت خوراکیں فراہم کی جاتی ہیں۔

مگر کوویکسِن کے معاملے میں انڈیا کے لیے کئی سبق ہیں۔

اب جبکہ وائرس مزید مہلک ہونے کے لیے نئے طریقے اپناتا جا رہا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے اور متاثرہ افراد کو سخت بیمار ہونے سے روکنے کے لیے متعدد ویکسینز چاہیے ہوں گی۔

پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر کے شریناتھ ریڈی نے مجھے بتایا: ‘تمام ویکسینز کی منظوری اثر اور حفاظت کے معیاروں پر کافی ثبوتوں کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں خوراکوں کے شیڈول اور منظور شدہ خوراک کے بارے میں بھی وضاحت ہونی چاہیے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘یہ سائنس اور عوامی اعتبار کے مفاد میں ہے کہ کسی بھی ویکسین سے متعلق ہر تشویش کو مناسب انداز میں دور کیا جائے۔ اگر ہمیں اپنے ہاتھ می موجود ہتھیار پر شک ہوگا تو ہم یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp