ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی معصومہ حسن جن کی زندگی ایک سکالر شپ نے بدل دی


'میں ایک بچی کی طلاق یافتہ ماں ہوں، اور میرے لیے سکالرشپ لے کر ملک سے باہر جانا صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ایک موقع نہیں تھا، بلکہ وہ میری لیے نئی زندگی کی واحد امید تھا۔'

44 سالہ معصومہ حسن کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ برادری سے ہے اور وہ پانچ بہنوں میں پہلی ہیں جنھوں نے نہ صرف مخلوط نظام تعلیم میں پڑھائی کی بلکہ سکالرشپ جیت کر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھی گئیں۔

وہ بتاتی ہیں ‘ہم پانچ بہنیں ہیں اور میری بڑی دونوں بہنوں نے ساری زندگی لڑکیوں کے کالج سے تعلیم حاصل کی کیونکہ ہمارے خاندان میں لڑکوں کے ساتھ پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور میں ’کو ایجوکیشن’ میں پڑھنے والی پہلی تھی۔’

معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کی جانب سے ‘ملالہ یوسفزئی سکالرشپ’ قانون کی منظوری دیے جانے پر وہ بے حد خوش ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس کی مدد سے اعلیٰ تعلیم کی خواہش مند بہت سی پاکستانی خواتین اپنے خوابوں کو پورا کر پائیں گی۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں‘

’بیٹی پڑھاؤ، ملک آگے بڑھاؤ‘

امریکہ میں ملالہ کے نام پر سکول

آکسفورڈ سے تعلیم مکمل، ’مبارک ہو ملالہ‘

یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی کانگریس کی جانب سے ملالہ یوسفزئی سکالر شپ ایکٹ پاس کیا گیا ہے جس کے تحت امریکہ کی جانب سے بین الاقوامی امداد کے ادارے یو ایس ایڈ کی جانب سے دی جانے والی سکالرشپ کا 50 فیصد حصہ پاکستانی خواتین کو دیا جائے گا۔

معصومہ حسن نے بھی امریکی حکومت کی جانب سے دیے جانے والی’فل برائٹ’ سکالرشپ کی مدد سے یونیورسٹی آف مشیگن سے ماحولیات کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

‘ازدواجی زندگی کے مسائل اور نوکری کھو دینے کا ڈر’

معصومہ نے اپنے کرئیر کا آغاز 2004 میں کیا جب انھوں نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی بلوچستان میں بطور لیکچرر نباتیات پڑھانا شروع کیا۔

لیکن اس کے کچھ عرصے بعد ہی حکومت کے جانب سے مستقل نوکری کے لیے تمام یونیورسٹی اساتذہ کے لیے ایم فل کی ڈگری کو لازمی قرار دے دیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘یہ وہ وقت تھا جب مجھے اپنی ازدواجی زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا تھا لیکن نوکری کھو دینے کے ڈر سے میں نے ایک ادارے میں (یونیورسٹی آف بلوچستان سے الحاق شدہ) ایم فل کے ایک ایسے پروگرام میں داخلہ لے لیا جو میری پچھلی تعلیم سے زیادہ مماثلت نہیں رکھتا تھا۔ تاہم علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہونے کے باعث یونیورسٹی کی جانب سے اس پروگرام کو بھی مکمل کیے بغیر ختم کر دیا گیا۔’

اس کے کچھ عرصے بعد ہی معصومہ کو طلاق ہو گئی اور اپنی بیٹی کی کفالت کے لیے انھیں اپنی نوکری کو برقرار رکھنا اور بھی ضروری ہوگیا تھا۔

بعض وجوہات کی وجہ سے ’میرے لیے اس شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی وائس چانسلر (بہادر خان ویمن یونیورسٹی بلوچستان) سے درخواست کی کہ مجھے کسی دوسرے شہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے جو انھوں نے دے دی۔’

معصومہ نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن وہاں دو سال کی تعلیم کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ اس ادارے کہ ڈگری ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ ہی نہیں ہے۔

‘میں اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اس ڈگری پر لگا چکی تھی اور میرے پاس اب اتنے وسائل نہیں تھے کہ میں کہیں اور داخلہ لے سکوں، اور دوسری جانب مجھے اپنی نوکری کھو دینے کا بھی ڈر تھا۔’

اس سکالرشپ نے ایک نہیں بلکہ دو خواتین کی زندگی سنواری

معصومہ کہتی ہیں کہ جب وہ بہت ناامید ہو چکی تھیں تو اس وقت انھیں فل برائٹ سکالر شپ کے بارے میں پتہ چلا۔

‘یہ سکالرشپ میری اور میری بیٹی کے لیے آخری امید تھی اور جب مجھے پتہ چلا کہ میں اس کی مدد سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہوں تو یہ میرے لیے ایک نئی زندگی کی نوید تھی۔’

معصومہ نے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی کے ساتھ امریکہ کا سفر کیا اور مشیگن یونیورسٹی سے ماحولیات سے متعلق پالسی کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

آج وہ اقوام متحدہ اور پاکستان کے ماحولیات سے متعلق تحقیقاتی اداروں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی ہیں۔

معصومہ کا کہنا ہے کہ اس سکالرشپ نے ایک نہیں بلکہ دو خواتین کی زندگی سنواری: ایک ان کی اور ایک ان کی بیٹی کی۔

‘یہ میری تعلیم کی ہی بدولت ہے کہ میں آج اپنی بیٹی کی کفالت کے ساتھ ساتھ اس کی اچھی تربیت کر سکتی ہوں۔’

معصومہ چاہتی ہیں کہ ہزارہ برادی کے ہر لڑکی سکول جا سکے اور ان کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔

اس سلسلے میں وہ ہزارہ برادری کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او کے لیے بطور ڈائریکٹر پروگرام خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

‘سوچیں اس ملالہ سکالرشپ کے ذریعے کتنی پاکستانی لڑکیاں کل کو ملالہ کی طرح ملک کا نام روشن کر سکیں گی یا معصومہ حسن کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلیں سنوار سکیں گی کیونکہ ایک عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہوتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp