اچھے اداکار سے اس کے مداح برے کردار میں بھی محبت کرتے ہیں: سمیع خان


سمیع خان
ایسے وقت میں جہاں زیادہ تر اداکار روایتی ڈراموں میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اداکار سمیع خان سمجھتے ہیں کہ مختلف قسم کے کردار ادا کرنے سے ایک اداکار کو جو تجربہ ملتا ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

اس وقت ان کے دو ڈرامے ’دلہن‘ اور ’سراب‘ ٹی وی پر چل رہے ہیں۔ ایک ڈرامے میں ان کا کردار ایک مثبت اور اچھے شخص کا ہے جبکہ دوسرے ڈرامے میں ان کا کردار بالکل بھی اچھا نہیں۔ بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سمیع خان کا کہنا تھا کہ اچھے موضوعات پر ڈرامے بننے سے نہ صرف ناظرین کی ٹی وی میں دلچسپی بڑھی ہے بلکہ اچھے ڈراموں نے فلموں کی کمی کو بھی پورا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کوئی اور ڈرامہ کِیا بھی تو وہ ‘میرے پاس تم ہو’ نہیں ہو سکتا‘

فیصل قریشی: ’عورت کسی بھی مرد کی پوری شخصیت تبدیل کر سکتی ہے‘

ڈرامہ سیریل سراب کرنے کی کیا خاص وجہ تھی؟

سمیع خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر ڈرامے خاندانی مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ ناظرین کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوئی ڈرامہ ’الگ‘ سا مل جائے تو اسے کر کے ثابت کر سکیں کہ دوسرے قسم کے ڈرامے بھی پسند کیے جاتے ہیں۔

’ہمارے ہاں زیادہ تر ڈرامے ساس بہو کے جھگڑوں، جائز اور ناجائز تعلقات پر بنتے ہیں۔ جہاں 90 فیصد ایک جیسا کام ہو رہا ہو وہیں اگر 10 فیصد کچھ الگ کرنے کو ملے تو یہ ایک اچھے اداکار کے لیے اپنے آپ کو جانچنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سپائڈر مین کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ ’زیادہ پاور کے ساتھ زیادہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے‘ میرا بھی یہی ماننا ہے کہ اگر اللہ تعالی نے ہمیں عزت دی ہے اور لوگ ہمیں دیکھتے، پسند کرتے اور فالو کرتے ہیں تو وہیں ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ کچھ ایسے ڈرامے بھی بنائیں جس سے ان کو کچھ نیا سیکھنے کو ملے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سکٹزوفرینا جیسے موضوع پر بہت کم کام ہوتا ہے۔ ’سراب‘ میں نہ صرف اس موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا بلکہ لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ سکٹزوفرینا جیسی بیماری کیا ہوتی ہے، اور اس کا علاج کیسے ہوتا ہے۔

’سب سے اچھا سبق وہی ہوتا ہے جو کسی کہانی کے ذریعے سُنایا جائے۔ سراب ایسی ہی ایک کہانی ہے، جو سکٹزوفرینا جیسی بیماری کے گرد گھومتی ہے۔ اس ڈرامے سے ایک اچھا میسج لوگوں تک پہنچا، مجھے تو کچھ لوگوں نے یہ تک کہا کہ اس ڈرامے کی وجہ سے ہمیں پتا چلا کہ ہماری فیملی میں بھی ایک ایسا کیس ہے، جس کے بعد انھیں ڈاکٹر کو دکھایا۔ مجھ جیسے اداکار کے لیے یہ فیڈبیک ہی بہت ہے۔‘

’محسن طلعت کا ڈائریکٹ کیا ہوا ’سراب‘ ریٹنگ کی دوڑ میں پیچھے ہو گا لیکن تنقیدی لحاظ سے بہت اچھا جا رہا ہے۔ جتنے بھی لوگ دیکھ رہے ہیں انھیں پسند آ رہا ہے۔ جن کو شکایت ہوتی ہے کہ الگ قسم کے ڈرامے نہیں بناتے، ان کی شکایت اس کے ذریعے دور ہو رہی ہے۔‘

میں کچھ کچھ اسفندیار جیسا ہی ہوں

سمیع خان کا کہنا ہے کہ اصل زندگی میں وہ کچھ کچھ اسفند یار جیسے ہی ہیں، اس لیے اس کردار کو نبھانے میں آسانی ہوئی اور لوگ اس سے جڑ پا رہے ہیں۔

سمیع خان

’جو لوگ میرے ارد گرد رہتے ہیں جیسا کہ میری اہلیہ، میری والدہ، بھائی وغیرہ وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں تھوڑا اسفندیار کی طرح ہوں۔ اس (اسفندیار) کی طرح میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ محبت کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا اس کو نبھانا۔ آج کل سب کچھ جلدی جلدی ہوتا ہے اور لوگوں کا ’اٹینشن سپین‘ کم ہو گیا ہے، ایسے میں اگر کوئی کردار لوگوں کو یاد رہ جاتا ہے تو اس سے بڑی بات کوئی نہیں، اور اسفندیار ایک ایسا ہی کردار ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسفندیار کی طرح میں بھی سمجھتا ہوں کہ محبت کرنا ہی نہیں ہوتا اس کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، اور مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اسی لیے اسفندیار جس طرح حورین کو دیکھتا ہے، اس کی آنکھوں میں محبت کے ساتھ ساتھ ترس بھی ہوتا ہے۔ ایڈیسن ادریس مسیح کا لکھا ہوا سکرپٹ پڑھ کر ہی مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ کردار لوگوں کو اتنا اچھا لگا کہ لوگوں نے میمز بنا دیے کہ ’محبت کرنے والا ہو تو اسفندیار جیسا۔‘ نارمل زندگی میں میرا ایسا ہونا ہی میرے کام آ گیا، کسی کو برا نہیں کہا جاتا، کسی پر کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتا، یہ کام اللہ پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔‘

کہانی دو اسفندیاروں کی: ایک فرمانبردار، دوسرا خیالی

’سراب‘ کی خاص بات سمیع خان کا ڈبل رول ہے۔ ایک ہی کردار میں، ایک اسفندیار آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اصل میں ہوتا ہے اور دوسرا حورین کے تصور میں۔ سمیع خان کا کہنا تھا کہ دوسرے والے خیالی اسفندیار کے پیچھے بھی ایک بڑی مزیدار کہانی ہے۔

’پروڈکشن ٹیم تصوراتی اسفندیار کو بالکل الگ طرح سے دکھانے کا سوچ رہی تھی۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو حورین کو پتہ چل جاتا کہ وہ کوئی اور ہے۔ اسی لیے ہدایتکار محسن طلعت اور میں نے اتفاق کیا کہ اس کا حلیہ نہیں بدلا جائے گا تاکہ سونیا حسین کے کردار کے ساتھ ساتھ ناظرین بھی الجھ جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔‘

’اس کردار کو کامیاب بنانے میں ہدایتکار اور میرے ساتھ ساتھ سونیا حسین کا بھی ہاتھ ہے، ایک اچھی اداکارہ کے ساتھ کام کرنا بھی ایک ٹینس میچ کی طرح ہے، اچھے ریٹرنز پر اچھے شاٹس مارتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سونیا کے ایکشن پر مجھے ری ایکشن دینے میں مزہ بھی آیا اور سکرین پر یہ ’میچ‘ بھی اچھا گیا۔‘

’یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیالی اسفندیار کا کردار بھی اصلی والا جتنا اہم ہے۔ نقلی والا ویسا ہے جیسا حورین اسے دیکھنا چاہتی ہے، اور وہ وہی سب کچھ کہتا ہے جو وہ سننا چاہتی ہے۔ فیصلہ کرنے اور کروانے کی طاقت اسی کے ہاتھ میں ہے اور حورین سے اسے کوئی ہمدردی نہیں۔ اپنے مطلب کے لیے بات کرتا ہے جو دراصل حورین کا مطلب ہے، ہم نے یہی کوشش کی کہ اس باریک لائن کو بڑے احتیاط سے دکھائیں اور ناظرین کی پسندیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں ہماری کاوش سمجھ آئی۔‘

’امیج کا خیال رہا تو مداح بُرا مان جائیں گے‘

سمیع خان کا شماران اداکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے امیج کی پروا کیے بغیر کام کیا اور کامیاب ہوئے۔ جہاں ’سراب‘ میں اسفندیار جیسا فرمانبردار لڑکا ہے، وہیں ’دلہن‘ میں میکال ہے، جو ایک گاڑی کے لیے ایک لڑکی کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ سمیع خان کا کہنا تھا کہ آج کل اگر الگ قسم کا رول کرنے کو ملے تو وہ بھی ایک نعمت ہے۔

’دلہن‘ ڈرامے کے بعد میمز بنے کہ میکال جیسے لڑکوں کی موجودگی میں اسفندیار جیسے بنو۔ ’یہ اس لیا ہو سکا کیونکہ میں نے اپنا امیج ایک جیسا نہیں رکھا۔ ماضی میں فیصل قریشی اور آج کل عمران اشرف اپنی ورسٹائل ایکٹنگ کی وجہ سے ناظرین کو سرپرائز کرتے ہیں، میں ان دونوں اداکاروں کا فین ہوں، ان سے بچ کر اگر مجھے کوئی ایسا رول مل جائے جس میں کھل کر کھیلنے کا مارجن ہو، تو کیا اچھا کیا بُرا۔‘

’دلہن میں میکال کا کردار اس لیے بھی ایک چیلنج تھا کیونکہ دونوں ’سراب‘ اور ’دلہن‘ ایک ساتھ ہی آن ائیر ہو رہے ہیں۔ اسفندیار لوگوں کو بتاتا ہے کہ محبت کرنا اور محبت نبھانا ٹھیک بات ہے جبکہ میکال ایک اور طبقے اور کلاس کی نمائندگی کر رہا ہے۔ یہ وہ کلاس ہے جن کے لیے اسکٹزوفرینیا کوئی مسئلہ نہیں، ان کے اور ایشوز ہیں۔ اسفندیار ماسز (عوام) کی نمائندگی کر رہا ہے اور میکال ایلیٹ کی۔‘

سمیع خان کہتے ہی کہ ’ایکٹر ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ میں دوسروں کی زندگی جی سکتا ہوں۔ اسفندیار کی زندگی جی لی، اب میکال کی زندگی جی رہا ہوں۔ میکال بُرا آدمی نہیں، بس ان لوگوں میں سے ہے جو غلطیاں کر جاتے ہیں۔ لوگ اس سے نفرت ضرور کر رہے ہیں لیکن دراصل یہ اس اداکار سے محبت کا ایک طریقہ ہے۔ میرے ساتھ ایسا ’خود غرض‘ کے وقت ہوا تھا جب میرے دوستوں کی اور خود میری والدہ نے کہا تھا کہ اس قسم کے رول مت کیا کرو ۔ بہت برے لگتے ہو۔‘

کبھی ہیرو، کبھی ولن: مداحوں کا سامنا کیسے کرتے ہیں؟

بقول سمیع خان ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ڈرامہ الگ کریں۔ ’ایسی ہے تنہائی‘ ایک ایسے موضوع پر تھا جس پر ہمارے ہاں ڈرامے نہیں بنتے۔ ’خود غرض‘ ایک خود پسند، بے حس انسان کی کہانی تھی۔ ’عشق زہ نصیب‘ کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ محبت سے بڑی فیملی جبکہ ’انکار‘ آپ کو اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا درس دے گیا، جسے میں تو ویمن ایمپاورمنٹ کہوں گا۔‘

’سراب کو ایک آگاہی پراجیکٹ کے طور پر لیں اور دلہن کو ایک ایسی کہانی کے جس کے ذریعے معاشرے کی برائیوں کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ شروع میں ’دلہن‘ دیکھ کر لوگوں نے کہا کہ اتنا اچھا لڑکا دنیا میں کہاں ہوتا ہے لیکن دوسری قسط میں پتا چل گیا کہ کہانی کچھ اور تھی۔ اب یہ سب لوگوں کو سکھانے کے لیے اچھا بنوں یا بُرا، میسج کا پہنچ جانا ہی ہماری کامیابی ہے۔‘

’پروڈکشن سے زیادہ ہدایتکاری کا شوق ہے‘

سمیع خان نے یہ بھی بتایا کہ سنہ 2020 میں وہ پروڈکشن اور ہدایتکاری کے میدان میں قدم رکھنے والے تھے، لیکن کورونا کی وجہ سے ان کے پلان کو بریک لگ گئی۔

’پروڈکشن کا شوق ہے اور کرنے بھی والا تھا لیکن کرونا کی وجہ سے سب رُک گیا۔ اللہ کے کام میں بہتری ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ وقت زندہ رہنے کا ہے، تجربہ کرنے کا نہیں، جب حالات بہتر ہوں گے تو میں بھی چاہوں گا کہ ہدایتکاری کی طرف جاؤں اور کچھ ایسا کام کروں جو دوسرے نہ کر پا رہے ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp