مولوی محمد علی احمدی، لارڈ ہیڈلے اور اقبال


 

\"\" چکوال کے قصبےدوالمیال میں احمدیوں کی جس عمارت پر اس ہفتے حملہ کرکے غازیوں نے (یا فی الوقت سرکار نے) قبضہ کر لیا ہے وہ سو سال پرانی کہی جاتی ہے۔ اب اس عمارت کو دو ناموں سے یاد کیا جاتاہے۔ جو اسے استعمال کرتے آئے ہیں انھوں نے اسکے دروازے پر اسکا نام ’دارالذکر ‘ لکھ رکھا ہے،جبکہ غازی اور اخبار نویس اس کو ’عبادت گاہ ‘ کہتے ہیں۔ جس نام سے اس عمارت کی تعمیر ہوئی تھی وہ اس سے چھینا جا چکا ہے، اوراب اسےلینا ایک جرم قرار دےدیا گیا ہے۔

میں اس ہفتے پرانے رسالے ’تہذیبِ نسواں ‘ کی فائلیں دیکھ رہا تھا۔ مفتوحہ عبادت گاھ کی جتنی پرانی دو خبریں اس رسالے میں نظر سے گذریں انھیں آپ کی اطلاع کے لئے درج کر رہا ہوں۔ یاد رہے کہ یہ رسالہ مولوی ممتاز علی صاحب کی نگرانی میں شائع ہوتا تھا، خاص لاہور سے، اورکسی خاتون کی ادارت میں شائع ہونے والا یہ پہلا اردو جریدہ 1898میں نکلنا شروع ہوا تھا۔\"\"

 1۔ یہ خبر 28 دسمبر 1918 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ تحریر عبدالمجید خاں سالک کی ہے۔ 12 ربیع الاول مطابق 17 دسمبر کو راولپنڈی میں ایک جلسہٴ میلادالنّبی بہت اہتمام سے منعقد کیا گیا تھا، جس میں شرکت اور تقریر کےلئے مولوی ممتاز علی اور سالک صاحب بطورِ خاص لاہور سے گئے تھے۔ یہ تقریب دو جلسوں پر مشتمل تھی ۔ دن کےجلسے میں ممتاز علی صاحب کی تقریر ہوئی۔ اسی میں پہلے سالک صاحب نے وہ نظم پڑھ کر سنائی جو انھوں نےخاص اس موقعہ کے لئےلکھی تھی۔ یہ نظم انھوں نے سشن کے خاتمے پر بھی لوگوں کی فرمائش پر دوبارہ سنائی۔ وہ آگےلکھتےہیں: ’شام کے وقت اسلامیہ سکول کے بورڈنگ ہوس پر بہت روشنی کی گئی۔ بچوں کو شیرینی بھی تقسیم کی گئی۔ رات کے وقت بھی جب مولوی محمد علی صاحب، ایم اے، امیر جماعت احمدیہ لاہور کا لکچر تھا، بہت سے لوگوں نےمیری نظم سہ بارہ سننے کی فرمائش کی، لیکن میں اس وقت جلسے میں موجود نہ تھا اس لئےکارکنان جلسہ نے حاضرین سے معذرت کر دی۔ ‘

 2۔ دوسری خبر دس برس بعد 21 جنوری 1928 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی؛ تحریرکنندہ خاتون نےاپنا نام محض ’ع۔ا۔ ‘ لکھا ہے۔ خبر کا عنوان ہے ’لارڈ ہیڈلے لاھور میں ‘۔ لارڈ ہیڈلے Lord Headley ایک مشہور آئرش لارڈ تھے جو 1913 میں احمدیہ جماعت کے خواجہ کمال الدین کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے تھے۔ آپ نے حج بھی کیا تھا اور برسوں تبلیغ میں بھی مصروف رہے۔ چنانچہ جب تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا جلسہ جنوری 1928 میں لاہور میں ہوا تو اس میں آپ نے بھی شرکت کی۔ اس موقعہ پر ایک خاص جلسہ آپ کے خیر مقدم کے لئے اسلامیہ کالج میں کیا گیا تھا، اسی کی مفصل روداد ’ تہذیب نسواں ‘ میں شائع ہوئی تھی۔ جستہ جستہ\"\" بیانات آپ بھی پڑھیں:

 ’ جلسے کی کارروائی ماسٹر فقیرالله نےقرآن شریف کا ایک رکن پڑھ کر شروع کی۔ اس کے بعد مولانا محمد علی صاحب صدر جلسہ نے کرسیٴ صدارت حضور لارڈ صاحب کو پیش کرتے ہوئے حاضرین سے آپ کا تعارف کرایا۔ ان کی اعلیٰ تعلیم اور خاندانی وجاہت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ جنگ عظیم کے زمانہ میں آپ کو البانیہ کا تخت پیش کیا گیا تھا، مگر کتنے فخر کی بات ہےکہ ہمارے نومسلم بھائی نے دنیا کی اس عارضی سلطنت پر اسلام کی خدمت گذاری کی روحانی اور دوامی بادشاہت کو ترجیح دےکر انکار کر دیا۔ ‘

مولانا کے بعد میاں محمد شفیع کھڑے ہوئے، جنھوں نےکہا: ’حضور لارڈ صاحب کی اسلامی محبت اور اشاعت اسلام کی سرگرمی اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ آپ 73 سال کی عمر میں چھ ہزار میل کا سفر کر کے تبلیغ کانفرنس کی شرکت کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں۔ ‘

میاں صاحب کے بعد مولانا ظفر علی خاں کھڑے ہوئے، اور دوران تقریر یہ بھی کہا: ’ہمارے لئے وہ دن بہت قریب ہیں جب کہ ہمارے مقدس پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ فرمانِ والا شان پورا ہو جائے گا کہ “ایک مرتبہ اسلام کا آفتاب مغرب سے طلوع ہو گا۔” مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ1913   میں جس وقت خواجہ کمال الدین صاحب اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور جناب لارڈ صاحب نے اپنےمشرف باسلام ہونے کا اعلان کیا ہے تو میں وہیں موجود تھا، اور میں نے ہی آپ کا الفاروق نام تجویز کیا تھا۔ ‘\"\"

ظفر علی خاں کے بعد ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جلسہ کو خطاب کیا اور فرمایا کہ ’مغرب انسانی اخلاق اور تہذیب کی رہنمائی جہالت کی طرف کر رہا ہےاور مغربی تہذیب رفتہ رفتہ تباہی اور بربادی طرف پھسل رہی ہے۔ یہ بات بھی پایہ ٴثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ سائنس کی ترقی بھی ان لوگوں کی روحانیت کی تکمیل کے لئے ناکافی ہے۔ اگرچہ مغربی تہذیب ابھی اسلام کی طرف بخوبی مائل نہیں ہوئی تاہم ان لوگوں کی نجات صرف اسلام اور اسلام ہی کی تعلیمات سے ہو گی۔ ‘ان کی تقریر کے بعد مولانا محمد علی نے لارڈ صاحب کے گلے میں ہار ڈالا اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی جانب سے ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔

ان دو خبروں میں جن بزرگوں کے نام درج ہیں وہ اگر آج ہوتے تو پتہ نہیں ان پر کیا گذرتی۔ شاید انھیں بھی دوبارہ کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا۔ واقعی میری دادی سچ کہا کرتی تھیں، رہے نام الله کا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments