نورا کوارین: ملائیشیا کے جنگل میں برطانوی لڑکی کی گمشدگی کا راز جو اب تک حل نہ ہو سکا


 

نورا

نورا اگست 2019 میں اپنے خاندان کے ساتھ ملائیشیا پہنچی تھیں اور اس کے اگلے دن وہ لاپتا ہو گئیں

لندن سکول کی گمشدہ طالبہ نورا کوارین کی تلاش جب اپنے عروج پر تھی تو اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی اور سویلین رضاکاروں سمیت 350 سے زائد افراد ملائیشیا کے گھنے جنگلوں میں انھیں ڈھونڈ رہے تھے۔

ان کی والدہ کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا اُن کا نام ’نورا‘ پکارا جا رہا تھا جو کہ اس گھنے برساتی جنگل میں گونج رہا تھا۔ اس امید پر انھیں پکارا جا رہا تھا کہ وہ اسے سن کر ان کی طرف دوڑی آئیں گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور وہ کمسن لڑکی کبھی نہیں لوٹیں۔

آئرلینڈ کے شہر بیلفاسٹ میں پیدا ہونے والی میبھ کوارین نے تین اگست سنہ 2019 کی شام سیریمبان کے جنگل میں اپنی رہائش میں ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہاں ٹھہری ہوئی تھیں۔ وہ دو ہفتے کے لیے ملائشیا میں چھٹیاں گزارنے آئی تھیں اور یہ ان کی پہلی رات تھی۔ یہ جگہ دارالحکومت کوالالمپور سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

میبھ طویل پرواز سے تھک چکی تھیں اور وہ فوراً نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔

چند گھنٹوں کے بعد یعنی مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے میبھ کے فرانسیسی شوہر سبسٹین اپنے تین بچوں 15 سالہ نورا، 12 سالہ آئنیس اور آٹھ سالہ مورس کو دیکھنے گئے۔

انھیں نورا کہیں نظر نہیں آئی۔ بنگلے کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔

بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ والدین کو نہ دیکھ کر نورا ادھر ادھر بھٹک گئی تھی اور اس کھڑکی سے باہر نکل چکی تھی۔ ان کی بیٹی کو ’ہولوپروزینسیفلی‘ نامی عارضہ تھا جو کہ دماغ کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے اور انھیں یہ گمان نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں چلی جائے۔

بار بار میبھ اور سبسٹین نے بنگلے اور ریزورٹ کی تلاش کی لیکن ساری تلاش بیکار ثابت ہوئی۔

گھر والوں نے شور مچا دیا۔ انھیں یہ خوف تھا کہ ان کی بیٹی کو کہیں اغوا تو نہیں کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے قریبی جنگل کو چھان مارا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

ان کی گمشدگی کے نو دن بعد رضاکاروں کے ایک گروپ کو ریزورٹ سے دو میل کے فاصلے پر نورا کی برہنہ لاش جنگل میں ملی۔

پوسٹ مارٹم کی ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ طویل عرصے تک بھوک کی وجہ سے معدے سے خون بہنے اور تناؤ کی وجہ سے نورا کی موت واقع ہوئی تھی۔

دوسون

دوسون ریزورٹ کی مالک ہیلین ٹوڈ نے بتایا کہ 30 سال میں اس کے ریزورٹ ‘کبھی کسی نے زبردستی گھسنے کی کوشش نہیں کی‘

لیکن نورا کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ آخر ان کی بیٹی وہاں کس طرح پہنچی جہاں سے اس کی لاش ملی تھی۔

جب ملائیشین اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ فوجداری مقدمہ قائم کیے جانے کا جواز نہیں تو نورا کے اہل خانہ نے تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا۔

موت کی وجہ کی تلاش کے لیے پرعزم کنبے کو معلوم تھا کہ نورا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مکمل تصویر کے سامنے آنے میں تفتیش انتہائی اہم ثابت ہو گی۔

ملائیشین پولیس نورا کے معاملے میں گمشدگی پر ہمیشہ قائم رہی اور سیریمبان کی عدالت میں اس نے کہا کہ وہاں اغوا کیے جانے یا پھر کسی جرم کے نشانات نہیں ملتے ہیں۔

تلاش

ابتدائی مرحلے میں پولیس کا خیال تھا کہ نورا ریزورٹ کے علاقے میں ہی موجود ہیں

تحقیقاتی افسر انسپکٹر وان فریدہ مستانی نے بتایا کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ لاپتہ لڑکی نیند سے بیدار ہوئی ہو اور وہ ٹوائلٹ جانا چاہتی ہو، اور سورا ہاؤس میں نئی ہونے کے سبب وہ الجھن کی شکار ہوئی ہو اور اپنے طور پر وہ وہاں سے باہر نکل گئی ہو۔‘

اس خیال سے نورا کے اہل خانہ متفق نہیں۔

45 سالہ میبھ کو ملائیشین پولیس کی جانب سے ابتدائی تحقیقات سے بھی شکایت ہے۔

سیبسٹین نے بتایا کہ نورا کی گمشدگی کی رپورٹ کے بعد پولیس افسران دوسار ریزورٹ پہنچے لیکن وہ ’مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ سراغ رساں کتا بھی ’اس کام کے قابل نہیں تھا‘ اور ’دو منٹ کے بعد ہی وہ تھک گيا۔‘

میبھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے واقعی پریشانی تھی کہ اگر وہ خود سے گئی ہوتی تو اس نے خود کو بہت جلد اور سنگین نوعیت کا نقصان پہنچا لیا ہوتا۔‘

جنگل

سرچ آپریشن کو ریزورٹ کے ڈھائی مربع میل کے علاقے تک پھیلایا گیا تھا
نورا

پولیس نے نورا کوارین کی تلاش کے لیے ہاٹ لائن بھی قائم کی تھی

آخر کار برطانوی سفارتخانے نے مقامی پولیس پر معاملے کی مزید چھان بین کے لیے دباؤ ڈالا۔

کنبے نے کھلی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا اور ان کا اصرار تھا کہ نورا کو سلانے کے بعد انھوں نے کھڑکیاں بند کر دی تھیں۔

ایک پولیس افسر نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ کھڑکی اتنی کھلی تھی کہ اس سے ایک بالغ شخص باآسانی سے گزر سکتا تھا۔

ریزورٹ کی مالک ہیلن ٹوڈ نے تفتیش کرنے والوں کو بتایا کہ وہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے دوسان ریزورٹ چلا رہی ہیں اور ان کے ہاں ’کبھی چوری نہیں ہوئی‘ اور نہ ہی کسی کے گھسنے کا واقعہ پیش آیا۔

تلاش

فلاحی تنظیم لوسی بلیک مین ٹرسٹ کا خیال ہے کہ نورا کو اغوا کر لیا گیا تھا

مسز ٹوڈ نے اعتراف کیا کہ ریزورٹ کی بیرونی دیوار کا کچھ حصہ گر گیا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود باہر جانے کے لیے نورا کو اس پر چڑھنا پڑتا اور دوسری جانب بے پناہ جھاڑیاں تھیں۔

میبھ نے زور دے کر کہا کہ اگر نورا باہر گھومتی تو وہ کسی جگہ بالکل جامد ہو جاتی اور انتظار کرتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نورا بنیادی طاقت کی کمی کی وجہ سے بغیر سہارے کے ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی ہے اور جلدی تھک جاتی ہے۔

ان بیانات کی تائید جنوبی لندن کے شہر بیلہم میں نورا کے سکول کے ہیڈ ٹیچر مائیکل ریوس نے کی اور کہا کہ اس 15 سالہ بچی کو خود سے چلنے کا اعتماد نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’جسمانی طور پر وہ سکول میں سب سے زیادہ کمزور طالب علم میں سے ایک تھی کیونکہ اسے توازن برقرار رکھنے میں مسئلہ تھا۔‘

تلاش

تقریباً 250 پولیس اہلکاروں نے نورا کی تلاش میں حصہ لیا

نورا کی چال بہت نازک تھی۔ اسے واقعتاً خود سے چلنے کا اعتماد نہیں تھا۔

’نورا کا احاطے کو چڑھ کر پار کرنا ناقابل تصور ہے۔ وہ شاید ایک فٹ یا اس سے کچھ زیادہ اونچی کسی چیز پر چڑھ سکتی تھی لیکن اس سے زیادہ کی اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔‘

جب نورا کی تصاویر کو آئرلینڈ، فرانس اور برطانیہ میں انٹرپول ڈیٹابیس پر ای میل کیا گیا تھا تو انگلیوں کے نشانات اور میڈیکل ریکارڈ حاصل کرنے کی درخواستیں بھی کی گئیں۔

اہل خانہ کے کوالالمپور ایئرپورٹ پہنچنے کے دن سے سی سی ٹی وی کی فوٹیج بھی حاصل کی گئی جس میں پولیس کے مطابق یہ نظر آ رہا تھا کہ نورا بغیر کسی کے سہارے کے چل رہی تھیں اور یہاں تک کہ وہ اپنا سوٹ کیس بھی گھسیٹتی نظر آئی تھیں۔

اس بنا پر سپرٹینڈنٹ محمد نور مرزوکی بیسار کے مطابق پولیس نے یہ فرض کر لیا تھا کہ ان کے لیے ’پہاڑ کی طرف جانا‘ ممکن تھا۔

پولیس

پولیس نے نورا کے کیس کو لاپتہ فرد کے کیس کے طور پر لیا
دوسون ریزورٹ

ریسکیو اہلکاروں کو نورا کی لاش 13 اگست کو دوپہر دو بجے کے قریب دوسون ریزورٹ کے پاس سے ہی ملی

جوں جوں نورا کی گمشدگی کے دنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ان کی تلاش اور تیز ہوتی جا رہی تھی۔

نورا کو پکارنے والی ان کی ماں کی ریکارڈ شدہ آواز جنگل میں گونجتی رہی۔

لیکن سب بیکار تھا۔

سویلین رضاکار چونگ یو فاٹ نے ایک چشمے کے پاس پتھر پر منھ کے بل پڑی نورا کی لاش دیکھی جس کے ہاتھ پاؤں پانی میں ڈوبے تھے اور ان کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔

مسٹر چونگ نے کہا کہ انھیں حکام کے آنے کا کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔

انھوں نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا: ’ہم نے گروپ کے تمام ارکان سے کہا کہ وہ لاش کے قریب نہ آئیں، کیونکہ [ہمیں] ڈر تھا کہ ہم کسی بھی شواہد میں چھیڑ چھاڑ نہ کر جائیں۔ ہم بس امداد کے آنے تک انتظار کرتے رہے۔‘

نورا کی لاش کو ہیلی کاپٹر سے اٹھایا گیا اور اسے ٹونکو جعفر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کے والدین نے باضابطہ طور پر ان کی شناخت کی۔

تحقیقات اب پوسٹ مارٹم کے نتائج پر منحصر تھی، جس سے پتہ چلا کہ نورا کی لاش ملنے سے تین دن قبل ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔

کوالالمپور اور لندن دونوں جگہ کیے جانے والی مزید پوسٹ مارٹمز میں یہ نتیجہ اخذ سامنے آیا کہ نورا کی موت انتہائی تناؤ اور خوراک کی کمی کی وجہ سے بالائی آنت سے خون نکلنے کے سبب ہوئی۔

پوچھ گچھ

پولیس نے راہ گیروں اور مسافروں میں نورا کی تصویر والے پمفلٹ تقسیم کیے
نورا

رائل ملائیشین پولیس کے ہیلی کاپٹر نے بھی اس تلاش میں حصہ لیا

دونوں پیتھالوجسٹ ٹیموں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگرچہ نورا کو جسمانی طور نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا یا ان کا ریپ نہیں ہوا تھا لیکن ان کے ساتھ کم سنگین زیادتی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

سینیئر برطانوی پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نیتھانیل کیری لاپتہ افراد کے معاملے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ نورا کے جسم اور پیروں پر پائے جانے والی خراشیں مستقل طور پر جنگل میں چلتے رہنے کی وجہ سے ہیں۔

اس علاقے میں سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم نے لاش ملنے سے پانچ دن قبل بھی جانچ پڑتال کی تھی، پولیس کا خیال ہے کہ تلاش کے پہلے مراحل کے دوران نورا ’زندہ تھیں اور چل پھر رہی تھیں۔‘

نورا کے اہل خانہ نے جہاں بچی کا زیرجامہ ملا تھا وہاں دوبارہ تلاش کے لیے زور دیا تھا۔ گرمی کی وجہ سے وہ سونے کے وقت صرف وہی کپڑا پہنے ہوئے تھیں۔

والدین تلاش

نورا کے خاندان نے انھیں لاش ملنے کے روز شام کے وقت شناخت کر لیا تھا

لیکن مزید تلاشی کے باوجود نورا کے مزید کپڑے کبھی جنگل سے نہیں ملے۔

اس مکان سے ڈی این اے کے نمونے جمع کیے گئے جہاں کوارین خاندان ٹھہرا تھا۔ اسی طرح نورا کی لاش جہاں سے ملی تھی، وہاں قریب موجود نو گاڑیوں اور لکڑی کی ایک جھونپڑی سے بھی یہ نمونے جمع کیے گئے۔

نا تو نو کاروں میں نہ ہی لکڑی کی جھونپڑی میں ہی نورا کے ڈی این اے کے آثار ملے۔

لیکن اس جھونپڑی سے ملنے والے سگریٹ کے ٹکڑوں سے دو نامعلوم مردوں کے ڈی این اے نمونے ضرور ملے۔

یہ وہ بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے۔

پوسٹ مارٹم کرنے والی میمونہ آئد کے اس بیان نے کوارین خاندان کے صدمے کو مزید گہرا کر دیا ہے کہ نورا جان بوجھ کر جنگل میں نکل گئیں تھیں۔

نورا

جس علاقے سے نورا کی لاش ملی تھی وہاں ان کے کپڑوں کے بارے میں تشویش کی وجہ سے دوبارہ تلاشی لی گئی

وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی گمشدگی کے اسرار سے پردہ اٹھائیں اور اگر کوئی اس میں ملوث ہے تو اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

کوارین خاندان کی وکیل لوئز اعظمی نے کہا کہ انھوں نے نورا کے ساتھ پیش آنے والے معاملے میں مثبت شواہد کی کمی کی عکاسی کرنے کے لیے کھلے فیصلے پر زور دیا۔ اس فیصلے میں یہ امکان رہتا ہے کہ نورا کی موت میں کوئی مجرم عنصر ملوث تھا۔

لوئز نے کہا کہ نورا کا خاندان ان کے بارے میں جو کچھ بھی جانتا ہے، اس کی وجہ سے ’ان کو یقین ہے کہ ان کا از خود جنگل میں جانا ناممکن ہے۔‘

تلاش

نورا کوارین کی گمشدگی کی ٹائم لائن

تین اگست: کوارین خاندان دوسون فاریسٹ ایکو ریزورٹ پہنچے

چار اگست: نورا اپنے کمرے سے غائب ہو گئیں

پانچ اگست: لوسی بلیک مین ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ ملائیشین پولیس نورا کی گمشدگی کو ممکنہ اغوا کی نظر سے دیکھ رہی ہے لیکن افسران کسی مجرمانہ کارروائی کے امکان سے انکار کر رہے ہیں۔

چھ اگست: نورا کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ انھیں اغوا کیا گیا ہے

11 اگست: ملائیشین پولیس نے نورا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کی

12 اگست: بیلفاسٹ کے ایک گمنام کاروباری شخص نے نورا کی معلومات اور صحیح سلامت واپسی کے لیے 10 ہزار پاؤنڈ کا اعلان کیا

13 اگست: نورا کی تلاش کے دوران ایک لاش ملی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp