دوسروں پر رعب جھاڑنے والے کتب بین


بچپن کا کچھ حصہ کراچی گزارا ہے۔ ایک بار لاہور سے بڑی خالہ ملنے آئیں تو امی سے کہا کہ نوشی کو میں ساتھ لے جاتی ہوں۔ انکل اسے قرآن بھی پڑھا دیں گے اور ساتھ سکول کی پڑھائی بھی کروا دیں گے۔ امی کچھ پس و پیش کے بعد مان گئیں کیونکہ کراچی میں میری حرکتیں صرف یہ تھیں کہ سکول سے آنے کے بعد سارا دن کھیلنا۔ دوپہر میں سب کے سونے کے بعد گھر سے باہر نکل جانا اور دھوپ گرمی کی پروا کیے بنا بس گھومتے جانا اور گھر سے دور دور رہنا تاکہ کوئی ڈھونے آئے تو ڈھونڈ نہ سکے۔

خالہ مجھے گڑیا کے لالچ دے کر ٹرین تک تو لے آئیں مگر جونہی ٹرین چلی، میں نے رونا شروع کر دیا۔ وہ سفر میری زندگی کا بہت برا سفر تھا۔ میں سفر میں ہمیشہ بیمار ہو جاتی تھی اور اس سفر میں تو میں اپنے گھر سے دور بھیجی جا رہی تھی۔ مجھے شاید آج تک اسی لیے سفر کرنا پسند نہیں کہ سفر میں گھر سے دوری والا احساس حاوی ہو جاتا ہے۔

خیر لاہور اسٹیشن پر انکل میرے لیے ایک گڑیا لیے کھڑے تھے۔ انکل ہماری فیملی میں اس وقت واحد ڈبل ایم اے فرد تھے۔ وہ بہت ذہین انسان تھے۔ انہوں نے بڑے طریقے سے مجھے ہینڈل کیا اور گھر کی جانب چلے۔ کچھ دن مجھے پڑھائی سے چھٹی دی گئی اور انکل نے پہلے مجھے اپنے ساتھ مانوس کیا۔ اس کے بعد مجھ سے پوچھا گیا، کون سے پارے پہ ہو۔ میں نے کہا نورانی قاعدہ۔ نورانی قاعدہ لینے بھیجا۔ جب لے کر آئی تو مجھے سنانے کو کہا۔

مجھ سے ٹھیک سے پڑھا نہ گیا۔ قاعدہ واپس اور پھر یسرنا القرآن قاعدے سے شروع کروایا گیا۔ اس کے بعد نورانی قاعدہ اور پھر قرآن پاک کے پہلے سپارے پر پہنچ گئی۔ ربع تک انکل نے مجھے پڑھایا۔ اس کے بعد میں خود پڑھنے لگی اور وہ بس سنتے جاتے۔ اس سارے عرصے میں انکل نے صبح قرآن پڑھانا اور شام کو مجھے انگلش اردو اور میتھ پڑھانا۔ انکل کی اردو بہت شاندار تھی۔ املاء پہ ان کا پورا فوکس ہوتا۔

جب میں نے قرآن اور لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تب میں نے واپس کراچی جانا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور کہا۔ میں نے آپ کو بالکل ایسے ہی سمجھا جیسے میں اپنی بیٹی کو سمجھتا۔ میں نے آپ کو جو بھی پڑھایا، پورے دل سے پڑھایا۔ آپ نے پڑھنا اور سیکھنا کبھی نہیں چھوڑنا چاہے آپ کو زمین پہ گرا کوئی کاغذ کا ٹکڑا لکھا نظر آئے، اسے پڑھیں ضرور۔ کبھی اس بات پہ غرور مت کریں کہ آپ کو کسی دوسرے انسان سے زیادہ پتہ ہے۔ میرے سکھائے اور بتائے ہوئے پہ کبھی مجھے شرمندہ مت کرنا۔ کبھی کوئی یہ مت کہے کہ توصیف نے ہی یہ پڑھایا یا سکھایا ہو گا۔

یہ سب کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور جسے یہ سب کہا جا رہا تھا وہ چھ سال کی ایک بچی تھی۔ میرے لیے یہ الفاظ میری عمر سے بہت زیادہ بڑے تھے۔ مگر مجھے یہ پتہ تھا کہ جو بندہ یہ الفاظ کہہ رہا ہے، وہ بہت اچھا ہے اور اس وقت تک وہ میرے فیورٹ انکل بھی بن چکے تھے۔

کراچی واپس آ کر میرے دو شوق بن گئے۔ ایک تو ویڈیو سینٹر کی دکانوں کے باہر کھڑے ہو کر فلموں کے نام پڑھنا اور دوسرا کہانیوں کی کتابیں خریدنا۔ میں روزانہ کی بنیاد پہ کہانیاں خریدتی اور کئی بار ایسا ہوتا کہ سٹال پہ سب کہانیاں وہ ہوتیں جو میں نے پڑھ لی ہوتیں۔ امی و گھر والے میری اس عادت سے تنگ آ گئے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ تو میں نے یہ کرنا شروع کیا کہ کہانی پڑھتی اور پھر پارک میں کھیلتے بچوں میں سے کسی کو دے کر گھر چلی جاتی۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک میری شادی نہیں ہو گئی۔

شادی سے پہلے تک میری زندگی میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ رہے۔ زندگی کبھی کہیں لے جاتی کبھی کہیں۔ اس دور میں جو کچھ ہاتھ لگتا، پڑھ لیتی۔ چاہے وہ موت کا منظر پڑھ کے دس دن بخار میں پھنکنا ہوتا یا پھر جاسوسی ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے ماموں کے یہ جملے سننا کہ پڑھ پڑھ کے اس کا دماغ خراب ہو جائے گا۔ گھر نہیں وسنا ایدا۔ کئی بار رسالے پھاڑ دینے۔ کئی بار جلا دیتے۔ شاعری پڑھتی تو سننے کو ملتا کہ شاید کسی لڑکے کا چکر ہے۔

لمبی کہانیاں ہیں۔ لمبی کہانیاں سناتی ہوں۔ تو سننے پڑھنے والے طعنے بنا کے دینے لگتے ہیں۔ شادی کے بعد کتابوں سے رسالوں سے تعلق ختم ہو گیا۔ کچھ عرصہ رسالے لئے، پھر چھوڑ دیے۔ کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ بحال ہوا کہ میری سسرالی رشتے دار قریب آ کے رہنے لگیں۔ میں ان کے کئی کام کر دیتی اور ان سے کتاب مانگ لاتی۔ دو تین دن میں پڑھ کے واپس کر دیتی۔ جو چیز اپنے مزاج کی ملتی، اسے پڑھتی۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں ہارڈ کاپی پڑھنے کی عادی ہوں۔ مطالعے کا ماحول ہوتا ہے، جو مجھے چاہیے ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں اصل پوائنٹ کی طرف کہ جب آپ مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے شعور اپنے ذہن کے لیے خوراک لے رہے ہیں۔ آپ نے جو بھی پڑھنا ہے، اس لیے پڑھنا ہے کہ آپ شعوری ارتقاء حاصل کریں۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ آپ کتابوں کے ڈھیر اس لیے جمع کرتے رہیں کہ آپ دوسروں کو یہ بتا سکیں کہ آپ بک لور ہیں۔ آپ مطالعے کا رعب ڈال کر اپنی نرگسیت کو تسکین دیں۔ میرے نزدیک اگر آپ مطالعہ کر کے شعوری اور ذہنی بالیدگی نہ حاصل کر سکے تو آپ میں اور اس گدھے میں کوئی فرق نہیں جس پر آپ کتابوں کا ڈھیر بھی لاد دیں تو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے لیے وہ صرف بوجھ ہے۔

کتاب لکھنے والا یا تو کتاب مشاہدے پہ لکھتا ہے یا پھر اپنے تجربات بتاتا ہے۔ یہاں لوگ اپنی زندگی کے تجربات لکھنے والوں پہ یہ کہہ کے تنقید کرتے نظر آ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے وہ نہیں پڑھا جو ہم پڑھتے ہیں۔ او بھائی! لکھنے والے نے بھی ان کا مشاہدہ لکھا، جنہوں نے زندگی سے براہ راست تجربوں کے ذریعے سیکھا۔ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا۔ آپ بچہ پیدا کیے بنا درد زہ کی تکلیف کو لکھ رہے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ جس نے خود درد زہ سہ کے بچہ پیدا کیا۔ وہ آپ کی لکھی تکلیف پڑھ کے محسوس کرے۔ جو اس نے برداشت کی وہ جھوٹی ہے۔ یہ تو حد ہے اور بے حد ہے جناب۔

آپ مطالعے کا شوق رکھتے ہیں، بہت اچھی بات ہے مگر پہلے یہ طے کیجیے کہ آپ مطالعہ کس لیے کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ آپ سب کو اپنے سے کم تر سمجھیں۔ ہر لکھنے والے کے ٹھٹھے اڑائیں۔ نئے لکھنے والوں کا مذاق بنائیں لیکن ان کے سامنے دوستی دکھائیں۔ معاف کیجیے میرے نزدیک یہ ویسے ہی علمی بددیانتی ہے۔ جس مطالعے نے آپ کو عاجز کی بجائے تکبر میں مبتلا کیا، ایسے مطالعے سے انسان بنا مطالعہ زیادہ اچھا رہے گا۔

اس کی مثالیں آپ کو ارد گرد بہت جگہ مل جائیں گی۔ لہٰذا کتابیں پڑھیے ضرور مگر یہ فیصلہ کر لیجیے کہ کیا کتاب آپ نے اپنی ذہنی خوراک کے لیے پڑھنی ہے یا دوسروں کو نیچا دکھانے اور رعب کے لیے۔ زندگی آسان رکھیے اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔ مجھے یہ تسلی ضرور ہے کہ میں نے انکل کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ ان کے کہے لفظ میرے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).