مرد بیویوں کے بارے میں لطیفے کیوں گھڑتے ہیں؟


دو صدیوں کے بعد بھی ہم غالب کی شاعری کے دیوانے ہیں۔ ہمیں ان سے شکایت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی بیگم کے حوالے سے کہتے ہیں ”گلے میں ڈھول ڈال لیا ہے، بجانا تو پڑے گا“ لیکن مردوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں، ظاہر ہے اتنا بڑا شاعر، ایک سیدھی سادی گھریلو عورت کے ساتھ زندگی گزارے گا تو اور کیا کہے گا۔ خیر غالب کی شاعرانہ عظمت کے پیش نظر شاید عورتیں ان کی اس بات کو درگزر کر دیں لیکن یہ جو سوشل میڈیا اور نجی تقریبات میں لوگ بیویوں کا مذاق اڑاتے یا لطیفے گھڑتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے۔

زلیخا کا کہنا ہے کہ یہ لطیفہ بازی دراصل عداوت کی ملفوف شکل ہے۔ اگر بیوی برا مانے تو اسے بے وقوف ثابت کیا جاتا ہے کہ میاں کا مذاق بھی نہیں سمجھ پاتی۔ چنانچہ بھری محفل میں جب بیویوں کے بارے میں لطیفے سنائے جاتے ہیں تو ان کا پاس مسکرا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مرد حضرات لطیفوں کی آڑ میں کبھی بیوی کے موٹاپے کا اور کبھی اس کے میکے والوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ مذاق کا نام دے کر بیوی کی توہین کرتے ہیں یا اس کی دکھتی رگ کو چھیڑتے ہیں۔ عورت کے لیے یہ باتیں مذاق نہیں رہتیں بلکہ زبانی تشدد کا درجہ اختیار کر جاتی ہیں۔ اس زبانی تشدد کے نتیجے میں عورت اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتی ہے اور خود کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگتی ہے۔ مردوں کا ایک حربہ گیس لائٹنگ بھی ہے جس کے بارے میں طاہرہ کاظمی تفصیل سے لکھ چکی ہیں۔

اکثر میاں بیوی میں کوئی ایک دوسرے کے جذباتی استحصال میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ دراصل یہ دوسرے فریق کو کنٹرول کرنے کا طریقہ ہے کہ اس پر تنقید کی جائے، ہر خرابی کے لیے اسے مورد الزام ٹھہرایا جائے، اسے شرمندہ کیا جائے۔ یہ ذہنی اور جذباتی استحصال دوسرے رشتوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ دفتروں میں لوگ اپنے رفقائے کار کے ہاتھوں اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہر صورت میں اس رویے کا شکار ہونے والے لوگ اپنی عزت نفس اور خود اعتمادی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یا تو بالکل خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر اس رشتے سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میاں بیوی کے رشتے میں کوئی ایک فریق دوسرے کی ہر بات پر شک کرتا ہے اور اس کی زندگی دوبھر کر دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اکثر صورتوں میں جذباتی استحصال اتنے لطیف انداز میں کیا جاتا ہے کہ دوسرا سمجھ ہی نہیں پاتا یا سوچتا ہے کہ یہ اتنا برا تو نہیں اور گزارا ہوتا رہتا ہے۔ تعلق کوئی سا بھی ہو، اس میں کسی بھی قسم کی زیادتی (زبانی، جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی) نا قابل قبول اور غیر صحت مند ہے۔

بد کلامی اور بد زبانی رشتوں میں زہر گھول دیتی ہے۔ اس کے ساتھ صحت مند تعلق کی امید عبث ہے۔ جھگڑے اس وقت بھی ہوتے ہیں جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلسل دوسرے کی نگرانی کے چکر میں رہتا ہے۔ کس کو فون کیا، کس سے ملنے گئے وغیرہ۔ اگر شادی کا مطلب یکجائی ہے تو پھر دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی بات چھپانی نہیں چاہیے لیکن ایک دوسرے کو محدود بھی نہیں کرنا چاہیے۔

دوسرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش وہی کرتا ہے جو اندر سے عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے۔ صحت مند محبت کے لیے بھروسا اور آزادی درکار ہے۔ اس میں انکار کی آزادی بھی شامل ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک فریق ہمیشہ وہی کرے جو دوسرا چاہے اور وہیں جائے جہاں دوسرا لے جانا چاہے۔ خیر یہ تو وہ باتیں ہیں جو دنیا بھر میں ہوتی ہیں انٹرنیٹ پر آپ کو اس بارے میں ہزاروں صفحات مل جائیں گے لیکن پاکستان میں اس تعلق یا رشتے کے حوالے سے بہت کم بات ہوتی ہے۔

مرد تو بیویوں کے بارے میں لطیفے گھڑ کے اور ان کا مذاق اڑا کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن بیوی کیا کرے؟ اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ اس حوالے سے پاکستانی مردوں کا رویہ عجیب و غریب ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کی شکایت کرے تو سننے والا ہر مرد فوراً یہی رائے قائم کرتا ہے کہ یہ عورت اپنے شوہر سے جنسی طور پر آسودہ نہیں ہے اور اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور ”میں ہوں نا“ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے۔

امریتا پریتم نے کیا خوب کہا تھا ”برصغیر کے مردوں نے عورت کے ساتھ صرف سونا سیکھا ہے، اس کے ساتھ جاگنا اور جینا نہیں سیکھا“ ۔ سوائے چند مستثنیات کے مرد حضرات عورت کو انسان نہیں سمجھتے اور اس کے جذبات و احساسات کی لطافت اور نزاکت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ چند روز ہوئے فیس بک پر شاہ لطیف کی شاعری اور عورت کے حوالے سے کسی کا خوبصورت اقتباس نظر سے گزرا ”دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ ’عورت ایک مسئلہ ہے“ ۔

اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ ’عورت مسئلہ نہیں۔ عورت محبت ہے۔ مگر وہ محبت نہیں جو مرد کرتا ہے۔ مرد کے لیے محبت جسم ہے۔ عورت کے لیے محبت جذبہ ہے۔ مرد کی محبت جسم کا جال ہے۔ عورت کی محبت روح کی آزادی ہے۔ مرد کی محبت مقابلہ ہے۔ عورت کی محبت عاجزی ہے۔ مرد کی محبت ایک پل ہے۔ عورت کی محبت پوری زندگی ہے۔ مرد کی محبت ایک افسانہ ہے۔ عورت کی محبت ایک حقیقت ہے۔ شاہ عبداللطیف کو علم تھا کہ عورت کو محبت چاہیے۔ نرم و نازک، گرم و گداز، جسم سے ماورا، جنس سے آزاد۔ مرد جسم کے جنگل میں بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہے۔ عورت روح کے چمن میں اڑتی ہوئی تتلی ہے جو پیار کی پیاسی ہے۔ مرد کے لیے محبت بھوک اور عورت کے لیے پیار ایک پیاس ہے۔ ”

اب شاہ لطیف جیسے مرد تو پیدا ہونے سے رہے۔ ایک مرتبہ ہماری ایک لکھاری دوست نے اپنے زمانۂ طالبعلمی کے دوست کو بتایا کہ ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان کوئی کمیونیکیشن نہیں ہے۔ وہ دوست اس وقت تو چپ ہو گئے، کچھ دنوں بعد فون پر پوچھا۔ ”تو تم دونوں کے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں ہے؟“ ہماری دوست کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ”ارے بھئی میری مراد انٹلکچوئل کمیونیکیشن سے تھی“ ان صاحب پر سکتہ طاری ہو گیا۔

اسی طرح ہماری ایک صحافی اور ادیب دوست جب روایتی شادی کے بندھن میں جکڑی گئیں تو شوہر اور سسرال والوں کے دہرے معیارات سے پریشان رہتی تھیں۔ ایک روز ان کے ایک مرد دوست ان کی ناخوشی کے حوالے سے پوچھ ہی بیٹھے کہ آیا معاملہ جنسی نا آسودگی کا تو نہیں؟ ”بس وہی ایک معاملہ تو ٹھیک ہے“ ہماری دوست کے منہ سے بے ساختہ نکلا ”باقی سب خراب ہے“ اس کے بعد گفتگو کے لئے کچھ باقی نہیں بچا۔

بہت پرانی بات ہے، ہم ایک سات روزہ ورکشاپ میں گئے، چاروں صوبوں سے مرد اور عورتیں آئے ہوئے تھے۔ ایک رات ایک ونگ میں شور شرابا ہوا۔ معلوم ہوا ایک صاحب کسی خاتون کے کمرے میں گھسنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ ظاہر ہے لوگوں نے ان کی خاصی ”عزت افزائی“ کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دن میں کہیں گفتگو کے دوران ان صاحبہ نے اپنی گھریلو زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے خوش نہیں ہیں چنانچہ ان صاحب کا ”میں ہوں نا“ سنڈروم ابھر کر سامنے آ گیا تھا۔

آخر مرد کے لیے عورت صرف جسم کا نام ہی کیوں ہے؟ فہمیدہ ریاض نے اس بارے میں بہت اچھی نظمیں کہی ہیں۔ اپنی نظم مقابلۂ حسن میں عورتوں کے جسم کی پیمائش کرنے والے مردوں سے انہوں نے کہا تھا ”اپنا بھی کوئی عضو ناپو“ ۔ اسی طرح اپنی نظم ’اقلیما ”میں انہوں نے مردوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ عورت صرف رانوں اور پستانوں کا نام نہیں، ان کے اوپر سر بھی ہے اور اس کے پاس دماغ بھی ہے۔

بات شروع ہوئی تھی سوشل میڈیا پر بیویوں کا مذاق اڑانے سے تو ہمارے اندر کی فیمنسٹ ان مذاق اڑانے والوں کو آئینہ دکھائے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آخر ہمیشہ بیویوں کو ہی کیوں تختۂ مشق بنایا جاتا ہے اور شوہروں کو قابل رحم دکھایا جاتا ہے۔ ہمیں ایسے سارے لطیفوں کو رد کرنا چاہیے جو عورت دشمنی یا جنسی تعصب پر مبنی ہوں۔

اسی بارے میں: تپتے توے پہ پھدکتا مینڈک!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).