ایک ہی چاند تھا سرآسماں


کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مدیر کے طور پر کئی ایسی چیزیں شائع کرنا بھی میری مجبوری ہو جاتی تھی جن کی عدم اشاعت مجھے لگتا تھا کہ مناسب نہیں۔ اپریل سے جون کے ’اردو ادب‘ کے شمارے میں شائع جن تحریروں نے فاروقی صاحب کی طبیعت کو مکدر کیا، ان میں دو تحریریں دو ایسے لکھنے والوں کی تھیں جن سے ماضی میں فاروقی صاحب ناراض رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں ان تنازعات سے واقف نہ تھا۔ ایک اور مصنف پر ان کے سخت اعتراض کی وجہ اپنی کم علمی کی وجہ سے میری سمجھ میں نہ آئی تھی۔

ایسی ہی ایک تحریر کچھ وقت پہلے ڈاکٹر جاوید رحمانی جو آسام کی ایک یونی ورسٹی میں اردو کے استاد ہیں، کی تھی جو انھوں نے ’اردو ادب‘ [اکتوبر تا دسمبر 2018۔ جنوری تا مارچ 2019 ] کے لیے ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے متعلق میری تحریر کے حوالے سے لکھی تھی۔ جاوید رحمانی صاحب کو ایسی علمی شرارتیں کرنے کا شوق ہے جو بد تہذیبی کے دائرے میں تو داخل نہیں ہوتیں مگر لوگ اکثر ان سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ فاروقی صاحب کی جاوید رحمانی سے ناراضگی بھی دیر تک کبھی نہیں رہی، اس لیے جب میں نے وہ تحریر فاروقی صاحب کو اس درخواست کے ساتھ بھیجی کہ وہ اس پر اپنا ردعمل بھیج دیں تو جاوید رحمانی اور پروفیسر مرزا خلیل بیگ کی تحریر کے ساتھ اسے شائع کر دیا جائے۔

پروفیسر بیگ کا ردعمل بھی میرے مضمون [مطبوعہ سہ ماہی ’اردو ادب‘ ، جولائی تا ستمبر 2018 ] پر تھا مگر اصل میں وہ بھی ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے متعلق تھا۔ میری درخواست پر فاروقی صاحب نے اپنا ردعمل لکھ دیا تھا جسے ان دونوں تحریروں کے ساتھ ’اردو ادب‘ [اکتوبر تا دسمبر 2018۔ جنوری تا مارچ 2019 ] کے شمارے میں شائع کر دیا گیا۔

اپریل۔ جون 2020 کے ’اردو ادب‘ کے شمارے کی اشاعت کے بعد مجھے یہی مناسب لگا کہ کچھ روز خاموش رہا جائے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد میں الٰہ آباد گیا تو سوچا کہ میں فاروقی صاحب کو فون کر کے یہ بتا ضرور دوں کہ میں الٰہ آباد میں ہوں مگر اس موذی وبائی بیماری کی وجہ سے میں ان سے ملنے سے پرہیز ہی کروں گا۔ ان دنوں وہ خود بھی احتیاط کر رہے تھے۔ پھر میں نے انھیں ایک ای میل لکھ کر پہلی دفعہ کسی کتاب پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی۔

یہ ونود کمار ترپاٹھی بشر کا دوسرا شعری مجموعہ تھا۔ پہلا مجموعہ جو انجمن سے شائع ہوا، فاروقی صاحب نے اسے دیکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ترپاٹھی صاحب کے یہاں بیان کی ندرت تو بہت ہے لیکن وہ اگر اردو عروض کا بھی کچھ مطالعہ کر لیں تو اچھا ہے۔ دوسرے مجموعے میں میری معلومات کی حد تک کوئی عروضی خامی نہ تھی۔ شامت تو مگر میری پھر بھی آنی ہی تھی۔ اب فاروقی صاحب اس طرح کے ای میل لکھنے کا برا مان گئے اور فون کر کے پھر ڈانٹا اور کہا کہ جب وہ دہلی آئیں تو مسودہ لے کر میں خود حاضر ہوجاؤں اور اسی سفر میں وہ کتاب پر مضمون لکھ دیں گے۔

میں دہلی آیا اور آتے ہی بخار کی زد میں آ گیا۔ بخار تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ مجھے خوف ہوا کہ کوئی مصیبت تو نہیں آنے والی ہے۔ فاروقی صاحب دہلی میں تھے اور میں ایک کے بعد دوسرا ٹیسٹ کرا رہا تھا اور لوگوں سے ملنے میں ہرممکن پرہیز بغیر کسی کو یہ بتائے کہ میں طویل عرصے سے بخار میں مبتلا ہوں، اس لیے بھی کر رہا تھا کہ جب ڈاکٹروں کو وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تو پھر مزاج پرسی کرنے والوں کے کیا آئے گی۔ فاروقی صاحب کو یہ سب مگر علم تھا۔ انھوں نے اس بخار کو جگر کی حدت سے تعبیر کیا، اور حکیم پروفیسر سید ظل الرحمٰن صاحب مدظلہ سے مشورے پر زور دیا، اور میں نے حکیم صاحب کی تجویز کردہ ادویات کچھ روز کھائیں۔ پھر جگر کے ہی ایک فزیشین کو دکھایا۔

فاروقی صاحب کا فون آیا کہ میں کل واپس الٰہ آباد جا رہا ہوں، اور مجھے ہلکا بخار ہے، اور اگلی دفعہ جب وہ دہلی آئیں گے تب ترپاٹھی صاحب کی کتاب پر لکھ دیں گے۔ دو تین روز بعد پتا چلا کہ وہ کووڈ میں مبتلا ہیں اور آئی سی یو میں ہیں۔ اچانک آئی سی یو سے ان کا فون آیا کہ تم چپ چاپ آ کر مجھے یہاں سے نکال کر لے جاؤ۔ یہاں بہت برا حال ہے۔ تب تک میرا بخار تو اتر گیا تھا جس کی وجہ کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آئی مگر نقاہت بہت تھی۔

کووڈ کے ٹیسٹ میں نے ایک دفعہ سے زیادہ بار کرائے جن میں کچھ نہ نکلا۔ میں اس قسم کی جرأت فاروقی صاحب کے معاملے میں نہ کر سکتا تھا کہ انھیں ’اسپتال سے‘ اور وہ بھی آئی سی یو سے ڈسچارج کرا لاؤں۔ ان کا بہت خیال کرنے والے جاں نثار افراد خانہ ان کا دہلی میں ہر طرح خیال کریں گے اور اس صورت میں کوئی تدبیر ضرور نکال لیں گے، یہ مجھے یقین تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شاید ڈاکٹر کے مشورے کے خلاف اسپتال کے بدترین حالات کی وجہ سے انھوں نے گھر پر ہی علاج کرانے کو ترجیح دی۔

میں نے اس وقت فوراً اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کیا مگر بعد میں ان کی بیٹی باراں فاروقی صاحبہ کو یہ بات بتا دی تھی۔ بعد میں باراں صاحبہ نے فاروقی صاحب سے ایک دن میری فون پر بات کرائی۔ وہ ہوش میں آ گئے تھے اور مجھ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر آہستہ آواز میں بتایا کہ ان کا ایک افسانہ کہیں شائع ہو گیا ہے۔ انھیں بہ خوبی یاد تھا کہ میں نے آئی سی یو سے انھیں ڈسچارج نہیں کرایا۔ نقاہت کے ساتھ مگر ہنستے ہوئے بس اتنا کہا کہ تم نے ریا کاری کی ہے۔

پڑھنے کے لے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6