ایک ہی چاند تھا سرآسماں


اس تحریر کی ابتدا میں ہی یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے اپنے مخدومین کے انتقال کے فوراً بعد ان پر کبھی نہیں لکھا۔ بہت سا وقت گزرنے کے بعد بھی اگر لکھنے بیٹھا تو پھر یہ سوچ کر نہیں لکھا کہ جن لوگوں سے ذاتی مراسم ہوں، ان پر لکھنے میں کئی بڑی پیچیدگیوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تحریر جس پر لکھا جا رہا ہے، اس سے زیادہ وہ خود لکھنے والے کا اپنا خاکہ بن جاتا ہے، جو کسی بھی طرح مستحسن نہیں ۔ رشید حسن خاں صاحب اور مخمور سعیدی صاحب پر کبھی کچھ نہ لکھنے کی وجہ یہی تھی۔

شمس الرحمن فاروقی صاحب کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہو گی جو مجھ سے بھی زیادہ ان کے قریب رہے ہوں مگر میرا خیال ہے کہ میں اس تحریر میں بعض ایسی باتوں پر روشنی ڈال سکوں گا جو ان پر لکھی جانے والی شاید کسی اور تحریر میں نہ ہوں۔ میں یہ کوشش بھی کروں گا کہ جن باتوں کا ذکر دوسرے لوگوں نے کیا ہے یا اغلب ہے کہ وہ کریں گے، یا پھر وہ باتیں جو سب کو معلوم ہیں، ان کو اس تحریر میں شامل نہ کیا جائے۔

شمس الرحمن فاروقی صاحب سے تفصیلی ملاقاتوں کا دوسرا دور میرے انجمن ترقی اردو (ہند) میں آنے کے بعد شروع ہوا، اور یہ عرصہ تقریباً آٹھ برس کو محیط ہے۔ اس ادارے سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد یہ بات میرے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ اداروں کو ان تعصبات سے پاک ہونا چاہیے جو اشخاص کا وصف ہیں۔ علمی اداروں کے باب میں یہ ایک مشکل کام ہے مگر ہندستان میں تو ادارے ان تعصبات کے کینسر سے تباہ ہی ہو جاتے ہیں جو ان اداروں سے وابستہ افراد کے نظریات ہوتے ہیں۔

ادارے کے طور پر انجمن کے ’اشخاص‘ سے کیا رشتے ہوں، فاروقی صاحب کو لے کر خصوصاً یہ بات میرے ذہن میں مختلف وجوہ سے تھی۔ انجمن میں پہلے ہی دن میں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ انجمن ترقی اردو (ہند) کا شمس الرحمن فاروقی سے رشتہ اردو کے ایک اہم ادارے کا اپنے وقت کے سب سے محترم لکھنے والے سے جن آداب کا متقاضی ہے، ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس باب میں سب سے اہم فاروقی صاحب اور انجمن میں پالیسی کی حد تک ہی سہی مگر اردو املا کا اختلاف تھا۔

انجمن نے بہت پہلے الٰہ آباد یونی ورسٹی میں عربی کے پروفیسر عبدالستار صدیقی کی صدارت میں اردو املا کی معیار بندی کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، اس کی سفارشات اور فاروقی صاحب کے اصول املا میں بہت اختلاف تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ اضافت کا تھا جس کی انجمن میں سختی کے ساتھ پابندی کی جاتی ہے۔ انگریزی میں البتہ فاروقی صاحب Punctuation کی مکمل پابندی کے قائل تھے۔ عبدالستار صدیقی صاحب کے اصول املا کے سب سے بڑے مقلد رشید حسن خاں صاحب انجمن کی بہت سی کمیٹیوں کے رکن آخری وقت تک رہے اور انجمن میں چوں کہ ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا، اس لیے انجمن کی اشاعتوں خصوصاً ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ اور سہ ماہی ’اردو ادب‘ میں ممکن حد تک رشید صاحب کے اصول املا کی پابندی کی جاتی ہے۔

میرا قیاس ہے کہ بہ شمول دیگر وجوہ کے علمی اختلافات کے سبب بھی فاروقی صاحب اور انجمن کے درمیان ہمیشہ ایک محفوظ فاصلہ رہا تھا جسے میں نے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ طے کیا گیا کہ فاروقی صاحب کی جو تحریر بھی انجمن میں اشاعت کے لیے آئے گی، اسے پروف پڑھے بغیر اس لیے شائع کر دیا جائے کہ پروف ریڈر نادانستہ ہی سہی، کہیں گستاخی کا مرتکب نہ ہو جائے۔ میری معلومات کی حد تک انجمن نے ایک ہی ارمغان (Festscrift) شائع کیا ہے اور اپنی تمام حد بندیوں کے باوجود ’ارمغان فاروقی‘ اس معیار کا ہے کہ ہندستان میں تو کوئی ادارہ اب شاید ہی کسی اہل قلم کی خدمت میں اس نوعیت کا علمی نذرانہ پیش کر سکے۔

یہ اردو اور انگریزی دونوں میں ہے اور اس پر ہم نے بہت محنت کی تھی۔ ان کی ایک اور کتاب بھی انجمن سے شائع ہونی تھی جس کا مسودہ اردو ان پیج سافٹ ویئر کی پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا تھا۔ ’اردو ادب‘ میں کبھی کوئی افسانہ یا شاعری شائع نہیں ہوئی مگر میں نے اس بات کی بھی ہامی بھر لی تھی کہ سہ ماہی ’اردو ادب‘ میں فاروقی صاحب کے افسانے اور شاعری بھی ہم شائع کر دیا کریں گے۔ یہ فیصلہ ان کے اس برس لکھے گئے افسانوں کے ذیل میں ان کی اس تشویش کے پیش نظر کیا گیا تھا کہ یہ کہاں شائع ہوں۔ یہ شاید اس برس جولائی کی بات ہے۔ امید ہے کہ ان کی تحریروں کی باقیات میں بہ ظاہر غیر مطبوعہ اور نامکمل تحریروں کا جو خزانہ ہے، جس کی کچھ تفصیل مجھے معلوم ہے اور جس کا ذکر آگے درج کیا جائے گا، ان کے افراد خانہ کی توجہ سے انجمن شائع کر سکے گی۔

پڑھنے کے لے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6