کیا سلطان نذیر ہنزائی کے ورثا کو انصاف ملے گا؟


کراچی میں گزشتہ دنوں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہنزہ سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے ایک شہری کی شہادت انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بغرض تعلیم و روزگار رہائش پذیر گلگت بلتستان کے باسیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا یہ کوئی پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ دکھ مگر اس بات کا ہے کہ کراچی پولیس ایک معصوم شہری کی شہادت پر اظہار ندامت کی بجائے الزام بغاوت کا رویہ اختیار کر رہی ہے۔

خدشہ تو یہ بھی تھا کہ نوجوان کی شہادت کے ردعمل کے طور پر پولیس اسٹیشن کے باہر گلگت بلتستان کے باسیوں کا احتجاج شروع نہ ہوتا تو پولیس والے اس واردات کی آڑ میں اپنے بڑوں سے انعام و اکرام بھی وصول کر چکے ہوتے۔ آفرین گلگت بلتستان کے غیرت مند جوانوں کو جنہوں نے واقعہ کے خلاف یک زبان ہو کر پولیس کو اپنے کیے پر مٹی ڈالنے کا موقع تک نہیں دیا۔

اس سے قبل بھی کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے شہریوں کے ساتھ ایسے کئی واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف احتجاج، دھرنے وغیرہ بھی ہوتے رہے، دکھاوے کے مقدمات بھی درج ہوتے رہے مگر یہ ساری کارروائیاں مصلحت کے نام پر اختتام پذیر ہوتی رہیں۔

مجھے خواب کی طرح یاد آتا ہے جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دن گھر میں یہ بات سننے کو ملی کہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے گلگت میں زیر تعلیم شاہ مراد نامی نوجوان کو کالج کی جانب سے سالانہ اسٹڈی ٹور کے دوران مینار پاکستان لاہور میں تیز دھار آلے سے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔

اس زمانے میں دیہی علاقوں سے کم ہی لوگ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ کالجیٹ جوان پورے گاؤں کے لیے امید کی کرن بن جاتے۔ شاہ مراد بھی اس لحاظ سے گاؤں والوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ جس کی موت کی خبر بھی گاؤں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی تھی اور ہر کوئی اس واقعے پر افسردہ تھا۔

کئی سالوں بعد ڈگری کالج گلگت میں پھر اس اسٹڈی ٹور کی بات چھڑ گئی تو مجھے شاہ مراد کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آیا۔ ادھر ادھر سے اس واقعے سے متعلق معلومات لینے کی کوشش پر بتایا گیا کہ مقدمہ کئی سالوں تک عدالتوں میں زیر بحث رہنے بغیر کسی نتیجے کے رفع دفع ہو گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے شہریوں کے ساتھ ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے مظالم بڑھتے گئے۔ کبھی موبائل فون کی اسنیچنگ، کبھی جیب کتروں کے ساتھ مزاحمت، کبھی اغوا برائے تاوان، کبھی مسلکی تعصبات اور کبھی نقض امن کو جواز بنا کر کی گئی وارداتوں میں کئی ایک معصوم شہریوں کی جانیں لے لی گئیں جن کے ناحق خون کی گواہی اس ملک کے شہری نہ سہی تو وطن کی مٹی ضرور دے سکتی ہے۔

اسی کراچی میں موبائل اسنیچرز کے ساتھ مزاحمت کی پاداش میں گلگت میں میرا ہمسایہ معین اور اس کے دوست عبدالسلام کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا واقعہ تو سب کو کل کی طرح یاد ہے۔ اس کیس میں ہونے والی پیش رفت کا مجھے کچھ علم نہیں مگر معین کی والدہ آج بھی آنسوؤں کے سمندر میں اپنے جگر گوشے کا لہو تلاش کر رہی ہیں مگر تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔

ان تمام واقعات میں ملوث کسی ملزم کو ریاست کی جانب سے سزا دلانے کی بجائے مصالحت کے نام پر معاملات دفن کر دیے گئے اور مقتولین کے گھروں میں آج تک صف ماتم ہے۔

کراچی میں سلطان نذیر نامی نوجوان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے میں تو ریاست پر براہ راست ملوث ملوث ہونے کا الزام ہے۔ چنانچہ اس میں قاتلوں کو سزا اور مقتول کے ساتھ انصاف کی توقع جوئے شیر لانے کے مترادف ہے چاہے عوامی دباؤ پر پولیس اپنے پیٹی بند بھائیوں کے خلاف ایک نہیں دس ایف آئی آر درج کیوں نہ کروا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).