خواب پرست امت، صدیوں سے جاری ہزیمت اور جدید نفسیات


\"\"1983ء میں پاکستان میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا المناک واقعہ پیش آیا۔ جہلم سے تعلق رکھنے والے شاہ ولایت حسین نے اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی سیدہ کنیز فاطمہ کی بات مانتے ہوئے خاندان کے 42 افراد کے ہمراہ خود کو ھاکس بے کے ساحل پر پہنچ کر بحیرہ عرب کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیا۔ کنیز فاطمہ کا دعوٰی تھا کہ اس کے خواب میں امام مہدی علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور مستقبل کے متعلق بشارتیں دیتے ہیں۔ اس دفعہ اسے ہدایت ہوئی تھی کہ اگر اس کے اہل خانہ سمندر میں اتر جائیں تو انہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ سمندر دو حصوں میں بٹ کر خشکی کا راستہ فراہم کرے گا اور وہ بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے بلا معاوضہ بصرہ کی بندرگاہ پر پہنچ جائیں گے جہاں سے کربلا اور نجف کی مقدس ترین زیارات بلا معاوضہ ان کا نصیب بن جائیں گی۔

بشارت میں موصولہ ہدایات پر حرف بہ حرف عمل کرتے ہوئے بچوں اور خواتین کو آہنی صندوقوں میں مقفل کیا گیا۔ جنہیں اٹھائے مرد سمندری ریلے میں آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ اس سانحہ میں سیدہ کنیز فاطمہ سمیت 38 افراد لقمہ اجل بن گئے صرف چار حضرات بچ سکے جو سمندر کی لہروں سے بہہ کر ساحل آپہنچے تھے۔

پروفیسر طاہر القادری صاحب سے کون واقف نہیں وہ مبینہ طور پر سینکڑوں کتب کے مصنف ہیں اور لاکھوں دلوں میں بستے ہیں کچھ عرصہ قبل ان کی ایک کی ایک تقریر منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے دعوٰی کیا کہ انہیں نو سال تک عالم خواب میں براہ راست امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ سے اکتساب علم کا شرف حاصل ہے۔

 پچھلے ہفتہ جب جنید جمشید کی طیارے حادثے میں ہلاکت ہوگئی تو تبلیغی جماعت کے اہم رہنما اور مقبول خطیب اور لاکھوں ذہنوں پر حکومت کرنے والے مولانا طارق جمیل نے ایک چینل پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ایک دوست کے خواب میں تشریف لا کر بتا دیا ہے کہ جنید ان کی خدمت میں پہنچ چکے ہیں۔ اس سے قبل طارق جمیل نے ایک اجتماع میں اپنے ہی خواب میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا واقعہ سنا چکے ہیں۔

برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی میں خوابوں کا عمل دخل نیا نہیں۔ بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ از خواجہ حسن نظامی کے مطالعے سے یہ بات \"\" سامنے آتی ہے کہ آخری مغل فرمانروا کے روحانی پیر سید حسن عسکری تھے۔ جنہوں نے عین ایام غدر میں بادشاہ کو اپنا ایک خواب سنایا کہ مغرب سے ایک بگولہ اٹھتا ہے جس کے عقب سے ایک سیلاب عظیم آتا ہے جو بگولے کو روندتا ہوا نکل جاتا ہے۔ لیکن یہ سیلاب بادشاہ کے لئے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنتا جو بڑے آرام سے تخت شاہی پر بیٹھے رہتے ہیں۔ مغل بادشاہ کی آسانی کے لئے ان پیر صاحب نے اپنے اس خواب کی تعبیر بھی دربار شاہی کے روبرو یہ بتادی کہ برطانوی فوج کے تعاقب میں ایرانی افواج آئیں گی جو انگریزوں کا قتل عام کرکے مغل بادشاہت کو پچھلی شان وشوکت سے بحال کردیں گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بادشاہ کو جن کی عمر اسی برس ہے یہ خوش خبری بھی سناتے ہیں کہ انہوں نے (حسن عسکری نے) اپنی عمر عزیز کے بیس سال بھی اسی سالہ بادشاہ کو عطیہ کردئے ہیں لہٰذا وہ اپنی زندگی کے بارے میں زیادہ تردد نہ کریں۔ خواجہ حسن نظامی اس کتاب کے آغاز سے قبل حسن عسکری کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں:

\”وہ بزرگ بالکل بے عیب اور پاک نفس تھے۔ ان کی صورت ایسی نورانی تھی کہ جو دیکھتا مسخر ہوجاتا۔ نواب خضر فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے والد نے مجھ سے ارشاد کیا کہ تم حضرت حسن عسکری کو دیکھتے تو تم کو خیال ہوتا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی صحابیؓ جا رہے ہیں\”

مقدمہ کی کارروائی کے دوران انتہائی اہم گواہ شاہی طبیب حکیم احسن اللہ خان سے حسن عسکری کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا :

\”بادشاہ کی ایک دختر ان کی مرید ہوگئی تھی جس نے بادشاہ کے سامنے ان کی تعریف کی۔ اور بادشاہ نے بیماری کی حالت میں اپنے لئے دعا کرنے اور تعویذ وغیرہ دینے کے لئے انہیں بلایا۔ یہ دختر دہلی دروازہ کے قریب حسن عسکری کے مکان سے ملے ہوئے مکان میں رہتی تھی۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیوی بن گئی تھی\”۔

حسن عسکری کے اس خواب کی خبریں زمانہ غدر میں عام ہوگئیں۔ دہلی میں ایسے اشتہار لگائے گئے جن سے تاثر ملتا تھا کہ ایران سے \"\"کمک آیا ہی چاہتی ہے۔ جذبہ فتح مندی سے سرشار افراد نے شاہی محل کی حدود میں انگریزوں کا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اور جن سے شاہ ظفر نے حفاظت کا عہد کیا ہوا تھا قتل عام کیا۔ بغاوت ناکام ہوئی اور انگریزوں کی انتقامی کارروائی سے لاکھوں ہندوستانی جان سے گئے۔ حسن عسکری نے مقدمہ کے دوران اس بات سے صاف انکار کر دیا کہ انہوں نے کوئی خواب دیکھا بھی تھا کجا یہ کہ اس کی تعبیر بادشاہ کو سناتے! لیکن انگریز عدالت نے گواہوں کے بیانات سن کر جھوٹی پیش گوئیاں کر کے بغاوت پر اکسانے کے الزام میں انہیں ٹکٹکی پر لٹکا دیا۔ خود بہادر شاہ ظفر کو کالا پانی کی سزا ملی جہاں وہ 5 سال بعد انتہائی بے بسی اور کسمپرسی کے عالم میں انتقال کر گئے اور حسن عسکری کے دیے ہوئے بیس سال ان کی عمر میں کسی اضافہ کا باعث نہ بنے۔

جدید علم نفسیات کی روشنی میں خوابوں کی حقیقت اور غیر معمولی خوابوں کے دعوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے ہم نے ڈاکٹر رئیس عرفان سے رجوع کیا جو انگلستان میں کنسلٹنٹ سائیکیاٹرسٹ ہیں۔ ذیل میں ان سے گفتگو کا خلاصہ پیش ہے۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں خوابوں کو غیبی اشارے اور مستقبل کی پیش گوئیوں کا ذریعہ قرار دیے جانے کا سلسلہ زمانہ قبل از تاریخ سے چلا آرہا ہے۔ نیند کے دوران پیش آنے والے مشاہدات کی تعبیر و تشریح کا کوئی سائنسی نظام نہیں پایا جاتا۔ بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے خواب کو لاشعور تک پہنچنے کی شاہراہ کہہ کر ایک انتہائ عمدہ راستہ کھولا لیکن ان کے جنسی جبلت پر غیر ضروری اصرار نے ان کے نظریات کی ساکھ کو کافی متاثر کیا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ خوابوں کے معاملے میں تحقیق کما حقہ آگے نہیں بڑھ سکی۔ آج تک خوابوں میں ملنے والی علامات سے جو معانی اخذ کئےجاتے ہیں وہ زمانہ قدیم سے مستعار لئے گئے ہیں اور ان پر فرسودہ عقائد، توہمات اور ضعیف العتقادی کا اثر نمایاں ہے۔

عہد جدید میں خوابوں کی غرض و غایت سے متعلق پانچ نمایاں نظریات پائے جاتے ہیں۔

1۔ ارتقائی نظریہ کے مطابق عالم خواب میں ہم اسی لڑنے یا بھاگ جانے (فائٹ اور فلائٹ) کی جبلت کا وظیفہ کر رہے ہوتے ہیں جو ارتقائے انسانی سے بھی پہلے ہمارے اجداد کا اثاثہ ہے۔

2۔ ہم عالم بیداری میں ہر تصویر اپنے ذہن میں کیمرے کی طرح محفوظ کرتے جاتے ہیں اور سوتے ہوئے ذہن کے نہاں خانوں سے ابھرنے \"\"والے اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک تنظیمی عمل سوتے ہوئے بھی جاری ہے اور ہماری اہم یادیں اور خیالات منظم انداز میں محفوظ ہو رہے ہیں، اس دوران چند ٹکڑے ہمیں خواب کی شکل میں نظر بھی آجاتے ہیں۔

3۔ خواب کا مقصد غیر اہم یادداشتوں کو طاق نسیاں پر سجانا ہوتا ہے۔ اس کو فرانسس کرک نے پیش کیا تھا جو ڈی این اے کا سٹرکچر دریافت کرنے والے سائنسدان تھے۔

4۔ ایسے جذبات و احساسات جن کا سامنا کرنے سے ہم جاگتے ہوئے کتراتے ہیں۔ خواب ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ عالم غنودگی میں ان کا سامنا کر سکیں۔

5۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ابھی تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ خواب سے کوئی مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ معلوم ہے کہ عالم خواب میں دماغ جزوی طور پر کام کر رہا ہوتا ہے اس لیے یہ تصاویر اٹھا اٹھا کر فلم کی طرح چلا سکتا ہے اور بس۔ شعور سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر رئیس عرفان نے مزید بتایا کہ خواب ہماری سماجی زندگی کا پر تو ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان معاشروں میں جہاں روحانی اور مذہبی روایات حاوی ہوتی ہیں خوابوں کے بارے میں متعلقہ تشبیہات اور تمثیلات کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔

خوابوں کی دنیا دیومالائی داستانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ خواب سنانے والا ایک مافوق الفطرت ہیرو کو دیکھتا ہے جس کا رابطہ ماضی کی غیر معمولی شخصیات سے براہ راست ہوتا ہے۔ بالکل دیومالائی داستانوں کی طرح خواب بھی طبعیاتی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے۔ ان میں بھی عقل و فہم سے ماورا واقعات پیش آتے ہیں۔ ایک کشمکش کے بعد کہانی کا کلائمکس ہوتا ہے اور کوئی نتیجہ سامنے آتا ہے جو خواب دیکھنے والے کے خوف یا خواہشات کا مظہر ہو سکتا ہے۔

خوابوں کی تشریح کرتے ہوئے چند باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ خوابوں میں صرف تصاویر دکھائی دیتی ہیں اس کو زبان خواب بیان کرنے والا دیتا ہے۔ اس کا تجزیہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خواب دیکھنے والے کی نفسیاتی ساخت اور حالات کا تعین نہ کرلیں۔ اور ان طاقتور جذبات کو نہ سمجھ لیں جو اس خواب کا سبب بنے مثلاً خوف، صدمہ، نقصان، خطرہ، امید و بیم، لالچ وغیرہ۔ خواب دیکھنے والے کی شخصیت و معروضی حالات اس شخص کے سماجی مسائل اور اندرونی کشمکش کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور ان کو سمجھے بغیر خوابوں کو سمجھنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر اس سارے معاملے کو سادہ الفاظ میں سمجھنا ہو تو سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خواب کے مندرجات کو سمجھنے کے لئے صاحب خواب کی شخصیت اور حالات کو جاننا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments