مچھ واقعہ: دھرنا عمائدین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان مذاکرات ناکام
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مچھ میں دس کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی میتوں کے ہمراہ مغربی بائی پاس پر دھرنا چوتھے روز بھی جاری ہے۔ دھرنا عمائدین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان بدھ کو ہونے والے مذاکرات بھی ناکام ہو گئے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور زلفی بخاری کوئٹہ پہنچے اور انہوں نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ دھرنا عمائدین سے ملاقات کی۔
بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران علی حیدر زیدی نے کہا کہ “ہماری ہاتھ جوڑ کے گزارش ہے کہ معاملے کو کسی چیز سے مشروط نہ کریں اور یہ مطالبہ نہ رکھیں کہ وزیرِ اعظم آئیں گے تو میتوں کی تدفین کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم سے بات ہوئی ہے اور وہ کوئٹہ ضرور آئیں گے لیکن جو لوگ شہید ہوئے ہیں انہیں دفنانا چاہیے۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ چند روز قبل بلوچستان میں فوج کے جوانوں کو بھی شہید کیا گیا۔ پاکستان کے خارجی دشمن اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ اعلیٰ جام کمال نے دھرنا عمائدین کو یقین دلایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی بھی کوئٹہ آئیں گے، وفاقی وزرا بھی یہاں بیٹھے ہیں۔
لواحقین نے وزرا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش رد کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم خود کوئٹہ آکر متاثرہ خاندانوں کی داد رسی نہیں کرتے، اُس وقت تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جلد ان کے پاس تعزیت کے لیے آئیں گے۔
I want to reassure the Hazara families who lost their loved ones in a brutal terrorist attack in Machh that I am cogniscant of their suffering & their demands. We are taking steps to prevent such attacks in the future & know our neighbour is instigating this sectarian terrorism.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) January 6, 2021
مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت کے سامنے سات مطالبات رکھے ہیں جن میں مچھ واقعے میں ملوث افراد کی فی الفور گرفتاری اور نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خاتمے کا مطالبہ سرِ فہرست ہے۔
دھرنے کے شرکا نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت مچھ، زیارت، تفتان اور کراچی کی قومی شاہراہوں پر سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کرے۔
ہزارہ برادری کے عمائدین نے مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو فی الفور معاوضے کی ادائیگی، تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیٹی کے قیام، تعلیمی اداروں اور تجارتی مراکز میں ہزارہ برادری کے افراد کی سیکیورٹی یقینی بنانے اور لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دھرنے میں شامل عمائدین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ صوبائی حکومت، ان کے خیال میں، چوںکہ عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے اس لیے بلوچستان کے تمام وزرا اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں۔
دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم عمران خان خود کوئٹہ آ کر لواحقین کی داد رسی نہیں کرتے، اس وقت تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔
قبلِ ازیں حکومت نے واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو صوبائی حکومت کی جانب سے 15 لاکھ جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 10، 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان کو مچھ واقعے اور اس کے بعد کی صورتِ حال پر بریفنگ دی تھی۔
بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد لواحقین نے کوئٹہ میں مغربی بائی پاس پر احتجاجی دھرنا دیا ہوا ہے اور ہلاک شدگان کے قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کان کنوں کے قتل کے واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش قبول کرچکی ہے۔
مچھ واقعے کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج
مچھ میں گیارہ کان کنوں کے قتل کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کراچی کے نو مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں جب کہ مرکزی دھرنا نمائش چورنگی پر دیا گیا ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہیں۔
دھرنوں کے باعث کراچی میں ٹریفک کا نظام متاثر ہے اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔