باپ، بیٹی اور ’بھائی جن‘


ہم جب بھی اپنے آپ سے جڑا ہوا کوئی خوب صورت یادگار واقعہ یاد کرتے ہیں تو ہمارے جسم کے اندر ایک لہر گردش کرنے لگتی ہے اور وہ انجانی سی خوشی دینے لگ جاتی ہے۔اب انسان کے بچے وقت گزرنے کے ساتھ جتنے بھی عمر اور قد کے لحاظ سے بڑے ہوجائیں ، وہ اپنے والدین کے لیے ویسے ہی ننھے بچے رہتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے بچپن کی دل لبھانے والی حرکتوں کو والدین کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔

ایک باپ ہی وہ واحد ہستی ہے جو اس دنیا کی دھوپ چھاؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑا اور مضبوط سہارا بنتا ہے۔ حسن سلوک کے استحقاق میں لڑکے اور لڑکیوں کو برابر قرار دیا گیا ہے، محض لڑکی ہونے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ طرزعمل میں کوئی فرق نہ کرنا افضل ہے۔

ہمارے دین اسلام کی خوب صورتی میں مسلم شریف کی وہ روایت بھی ہے کہ جو شخص لڑکیوں کی پیدائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کی پوری پرورش و پرداخت کی تو وہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔

بیٹیاں بابل کے گھر کی وہ چڑیاں ہوتی جن کے چہکنے سے آنگن میں رونق کے ساتھ گھر کے چاروں طرف روشنی اور رنگ پھیلے رہتے ہیں، ان کی کفالت سے رحمت کے دروازے کھل کر بخشش کے راستے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔

’’ابا کا بے بی ابا سے غصہ ہے کہ دوستی؟‘‘ آفس سے آتے ہی تین سالہ بیٹی کو گود میں اٹھاتے ہوئے اس کے والد نے پوچھا جو کہ اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ گود میں چڑھتے ہی بیٹی نے ابا جی کو ان کا کیا ہوا وعدہ یاد دلاتے ہوئے اپنے چپس کا پیکٹ مانگا کیوں کہ پچھلے روز شام کے وقت اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سخت جنگ ہوئی تھی۔اس کے پسندیدہ چپس کے پیکٹ سے آخری کے چند بچے کٌھچے چپس کے ٹکڑے اس کے بھائی نے بہن کو تنگ کرنے کے لیے وہ پیکٹ چھین کر کھا لیے تھے اور پھر تو ایسا کہرام برپا ہوا کہ والد نے دونوں بہن بھائی کے درمیان صلح کا معاملہ ایک اور نیا چپس کا پیکٹ اگلے دن لا کر دینے کے وعدے پر نمٹایا تھا۔

بیٹی نے فوراً ابا جی کی گود میں چڑھتے ہی اپنے ننھے ننھے ہاتھ آگے بڑھائے کہ ابا چپس کا پیکٹ دیں، والد نے کہا کہ ”ارے وہ تو میں بھول گیا“ صاحبزادی فوراً اپنے ابا سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے گود سے نیچے اتر کر ہم سے لپٹ گئیں، تب ابا جی نے مزید کھیلتے ہوئے ناراض ننھی شہزادی کے قریب آ کر دوبارہ سے نہایت دھیمے لہجے میں پوچھا کہ ”ابا اچھا ہے یا گندا؟ ناراض بیٹی نے اپنے ابا کو دیکھے بغیر اور ہم سے لپٹتے ہوئے غصہ میں جواب دیا کہ“ گندا ہے ”۔

ابا جی کو اور مزہ آنے لگا، پھر مزید قریب آ کر ناراض بیٹی سے اس کے کان میں پوچھتے کہ ”ابا سے دوستی ہو یا کٹی ہو؟ بیٹی نے ایک آنکھ سے ابا جی کو دیکھ کر، اپنے ننھے ننھے ہاتھ کی چھوٹی والی انگلی ابا جی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھیمے سے کہا کہ ”کٹی ہو“ یہ دیکھ کر ہم دونوں میاں بیوی کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی جس پر ہماری شہزادی ہم سے بھی خفا ہو گئی کہ آپ کیوں ہنس رہی ہیں، آپ کو میرا ساتھ دینا چاہیے تھا۔

پاس موجود بڑے بیٹے نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ابا کے قریب ہو کر بہن کو بولے ”ابا جو کٹی ہے اسے چپس کا پیکٹ نہیں دیں، جو دوستی ہے اسے دے دیں“ بھائی جان اپنے مشن میں ادھورے کامیاب ہو گئے کیوں کہ بیٹی نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔

ابا جی نے اپنی ٹائیگر فورس کے کنٹرولر بڑے بیٹے کی کمر پر ہلکی سی چپت دھری کہ زیادہ چنگاری کا کام نہ کرو ، پھر ابا جی نے اپنی ناراض شہزادی کو دوبارہ اپنی گود میں اٹھایا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے آفس بیگ کے اندر سے چپس کے دو عدد نئے پیکٹ نکال کر اپنی گڑیا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولے ”یہ کیسے ہو سکتا کہ ابا اپنی شہزادی سے وعدہ کرے اور وہ پورا نہ کرے“ یہ لو ایک پیکٹ اور دوسرا اپنے بھائی جان کو خود دے دو۔

بیٹی نے فوراً دونوں پیکٹ پر جھپٹا مار کر بھائی کو دینے سے انکار کر دیا کہ بھائی کو یہ چپس نہیں دوں گی ”بھائی جن گندا ہے، بہت تنگ کرتا ہے“ ، ابا نے بیٹی کو گود سے نیچے اتارتے ہوئے دونوں پیکٹ واپس لیتے ہوئے بڑے بیٹے کی طرف اپنا رخ کر کے با آواز بلند کہا ”بھائی جن اب تنگ نہیں کرے گا اور اب غور سے سب ایک بات سن لیں کہ کوئی بھی میری گڑیا کو تنگ کر کے دکھائے اور اپنی شہزادی کو تنگ کرنے کے لیے صرف اس کا ابا کافی ہے۔ پھر بیٹی کی طرف مڑ کر اس کی اجازت لی کہ ”ٹھیک ہے؟‘‘

ابا نے پھر سے چھوٹی بیٹی کو تنگ کرنا شروع کیا ہی تھا تو چپس کے پیکٹس ابا کے ہاتھوں سے کھینچ تان کر دونوں بچے یہ جا وہ جا۔ چپس کے تھیلوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی تنگ ہونے کے امتحاں اور بھی ہیں، تھوڑی ہی دیر بعد چھوٹی بیٹی روتی چلاتی ہمارے پاس آ گئی کہ ”بھائی جن چپس کھا گیا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).