انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے`


اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان طالب علم اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں کی طرف سے ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں طالب علم اسامہ ندیم ستی کی ہلاکت کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے عدالتی انکوائری کا حکم دیا ہے۔

اس واقع پر پولیس کا مؤقف یہ ہے کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد مشکوک معلوم ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی ہلاکت واقع ہوئی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بدھ کو جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو جج راجہ جواد عباس نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ اس مقدمے میں کون کون ملزمان ہیں، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس مقدمے کے پانچ ملزمان ہیں اور تمام ملزمان پیش ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت، انکوائری کا حکم

’نمرہ بیگ کی ہلاکت پولیس کی گولی سے ہوئی‘

ساہیوال واقعے کی دو متوازی تحقیقات کیوں

دوران سماعت جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا اسلحہ برآمد ہو گیا ہے، جس پر تفتیشی افسر نے کہا ’جی سر اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے۔‘

جج راجہ جواد عباس نے پھر سوال کیا کہ کونسا اسلحہ برآمد ہوا ہے، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ جس سے طالب علم اسامہ پر گولیاں برسائی گئیں وہ اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ گولیوں کے خول بھی برآمد کر لیے گئے ہیں۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا طالب علم کو گولیاں پیچھے سے لگیں تو تفتیشی افسر نے بتایا کہ گولیاں پیچھے سے لگیں۔

گاڑی

اسامہ کی گاڑی کی تصویر جس کی ونڈ سکرین پر گولیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں

عدالت کی جانب سے یہ پوچھے جانے پر کہ مقتول کو کتنی گولیاں لگیں، تفتیشی افسر نے بتایا کہ انھیں پیچھے سے پانچ گولیاں لگیں۔ اس پر جج نے کہا کہ ’وہ ڈاکو نہیں بلکہ طالب علم تھا اور تم لوگوں نے اتنی بے دردی سے گولیاں چلائیں۔‘

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے دوران سماعت تفتیشی افسر کو اس واقعے کی تصویریں دکھانے کا بھی کہا۔ تفتیشی افسر نے جب تصاویر دکھائیں تو جج کا کہنا تھا کہ گاڑی کی جس سیٹ سے نکل کر پانچ گولیاں لگیں وہ تصویر دکھائیں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ’سر وہ تصویر نہیں ہے‘۔

جج راجہ جواد عباس نے کہا کہ ’کیا مطلب تصویر لی ہی نہیں گئی، اس کا مطلب ہے کہ تم سب ملے ہوئے ہو۔‘ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی بنائی گئی ہے۔

جج جواد عباس نے حکم دیا ہے کہ یہ سب چیزیں ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس واقعے کی درست تصویر پیش نہیں کر رہے اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں جس سے تفتیشی افسر کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر اس مقدمے کی سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر بدنیتی ظاہر ہوئی تو تفتیشی افسر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سماعت کے دوران مقتول اسامہ کے والد اور مدعی مقدمہ راجہ فیصل یونس بھی عدالت میں موجود تھے۔

مدعی مقدمہ کے وکیل نے الزام عائد کیا کہ اس مقدے کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار شواہد اور ریکارڈ کو ’ردوبدل‘ کر رہے ہیں۔

تفتیشی افسر نے ملزمان کے 12 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم عدالت نے ملزمان کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ دے کر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔ ملزمان میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفی، سعید احمد اور افتخار احمد شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلقہ قائمہ کمیٹی نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کہا ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بنائیں۔

کمیٹی نے پولیس حکام کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ متاثرہ خاندان کے پاس اس حوالے سے جو شواہد ہیں ان کو بھی حاصل کیا جائے۔

اسامہ ستی کے لواحقین نے قائمہ کمیٹی میں قتل کی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں جبکہ گاڑی کے اندر خون کے نشانات نہیں ہیں۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہا کہ گاڑی کو تھانے میں کھڑا کر کے گولیاں ماری گئیں جو اس مقدمے کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لواحقین نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اُنھیں نہ جے آئی ٹی میں بلایا گیا اور نہ ہی ابھی تک جوڈیشل انکوائری کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔

جس پر ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد نے کہا کہ گاڑی پر فائرنگ ایک طرف سے نہیں ہوئی، فرانزک کروائی گئی ہے لیکن ابھی رپورٹ نہیں آئی۔

اُنھوں نے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کو اسامہ ستی قتل کیس پر بریفنگ دی اور کہا کہ پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے پانچ ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے قائمہ کمیٹی کے ارکان کو یقین دلایا کہ پولیس متاثرہ خاندان کے ساتھ مل کر اس معاملے پر غیر جانبدار رہے گی۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش بھی کی کہ اسامہ ستی کے مقدمے میں پولیس کا بطور محکمہ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ پانچ افراد کا انفردی عمل ہے۔

کمیٹی نے ڈی آئی جی آپریشنز کو سنگین جرائم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp