نئے سال میں پرانی سیاست


قارئین محترم! سال 2020ء رخصت ہو چکا ، اپنی بے شمار تکلیف دہ باقیات چھوڑ گیا۔ ان باقیات میں کورونا یا کووڈ 19 سرفہرست ہے، دوسری باقیات مہنگائی ہے جو بے لگام ہو چکی ہے، حکومت اس جن کو کنٹرول کرنے میں مسلسل ناکام نظر آ رہی ہے۔ جب کہ تیسری چیز بدترین سیاست ہے جسے ہم آپ کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر اپنا بلڈ پریشر ہائی کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں کو نہ معلوم اللہ پاک نے کس مٹی سے بنایا ہے کہ ان کی عقل اور سمجھ اپنے مفاد کے لیے بائیس کروڑ پاکستانی عوام کے مفادات اور بھلائی سے بالکل دور ہے۔

دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر بہت شدید اور خطرناک ہے، یہاں تک کسی نے لکھا کہ کورونا کی یہ نئی شکل 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے لیکن کوئی کچھ بھی کہے، اعداد و شمار کچھ بھی ہوں، ہر روز کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے، پاکستانی سیاست دانوں کے دل و دماغ میں جلسے، جلوس، ریلیاں، مارچ اور دھرنا سمایا ہوا ہے، انہیں اپنے ووٹ کی عزت کا بہت خیال ہے جب کہ ووٹرز کی جانوں کی قطعاً کوئی پروا نہیں، کوئی مرتا ہے تو مرے، ان کے جلسوں میں ضرور شریک ہو اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالے۔

کوئی کتنا ہی سمجھائے، دلائل دے، خوف زدہ کرے ان پر عمران خان کا بھوت سوار ہے۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ جو کچھ حزب اختلاف کر رہی ہے جلسے، جلوس، ریلیاں، مارچ اور دھرنوں سے نہ تو ماضی میں حکومتیں گئیں اور نہ ہی موجودہ حکومت یعنی عمران خان کی حکومت جائے گی۔ اس کے لیے مخالفین کو اڑھائی سال انتظار کرنا ہوگا۔ زمینی حالات گواہی دے رہے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ عمران مخالفین نے اپنا اولین مطالبہ یا ہدف غلط منتخب کیا، وہ رفتہ رفتہ اوپر چڑھنے اور دباؤ بڑھانے، اصل ہدف مہنگائی اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی، یعنی ڈیلیور نہ کرنے، بیڈ گورننس کو بنیادی ایشوز بناتے تو اور بات ہوتی۔ عوام یہ محسوس کر رہے ہیں کہ بڑے میاں کا بیانیہ کسی بھی طور مناسب نہیں بلکہ اس بیانیے  نے ہی حکومت مخالف تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

اس بیانیے کو ملک کا ہر باشعور شہری نہ صرف پسند نہیں کرے گا اور نہیں کیا بلکہ وہ بیانیہ دینے والوں کے بارے میں منفی سوچ کا حامل ہو جائے گا۔ رہی سہی کسر پاکستان پیپلز پارٹی نے پوری کر دی ہے بلکہ پی پی کے عمل سے زرداری صاحب کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ ان کی پالیسی نے بلاول کو میاں صاحب کے بیانیے اور منتخب ایوانوں کو اپنے ہاتھوں سے ہوا میں اڑانے سے بچا لیا ہے ورنہ بلاول کا جذباتی انداز، جوش اور عمران خان کے خلاف ولولہ پارٹی کو نقصان پہنچا دیتا۔سندھ حکومت چلی جاتی، قومی و دیگر صوبائی اسمبلیوں میں جو اراکین ہیں ان سے ہاتھ دھونا پڑتا، آئندہ سینٹ کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی دوسری بڑی جماعت بننے جا رہی ہے۔ استعفوں سے سب کچھ چوپٹ ہوجاتا۔

نون لیگ کی صورت حال کچھ اور ہے، اسی طرح مولانا صاحب بھی منتخب ایوان میں نہیں۔ پی ڈی ایم لیڈرز  نے بلوچستان کی علیحدگی کی بات کی، اردو کے خلاف بات کی، لاہور کے باسیوں کے بارے میں تاریخ کو مسخ کیا، پھر ٹی وی ٹاک شوز میں چند جملے، چند دلائل، ہر کوئی انہیں ہی دھرا رہا ہوتا ہے۔ ڈیڈ لائن میں بار بار اضافے  نے حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔

پی ڈی ایم کے بیانات کا جائزہ لیں تو صاف واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک میں وہ جان نہیں کہ وہ حکومت کو پچھاڑ سکے۔ رانا ثناء اللہ کا بیان یکم جنوری کو آیا کہ ’پی پی کو منانے کا مصمم ارادہ ہے اگر نہ مانے تو ہم مان جائیں گے’ اور ایسا ہی ہوا، پی ڈی ایم کے اجلاس میں پی پی سمجھانے میں کامیاب ہوئی اور مولانا صاحب اور مریم بی بی مان گئیں۔ پیپلز پارٹی کی پالیسی درست سمت میں دکھائی دے رہی ہے۔

بلاول پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کر رہے ہیں، نیز پی پی صرف زبانی جمع خرج کر رہی ہے عملی طور پر وہ مولانا اور نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دیتی۔ پی ڈی ایم  نے اعلان کیا کہ وہ ضمنی الیکشن لڑے گی، اسی طرح سینٹ کے انتخابات میں بھی شرکت کرے گی، اسی طرح کے بیانات اور اعلانات سے پی ڈی ایم کی تحریک کے بارے میں گمان یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ بس کافی ہو گیا۔ اچھے موسم کا انتظار، کارکنوں کا خیال اچھی سوچ ہے، کاش اس بات کا ادراک شروع ہی میں ہو جاتا۔

حکومت کو اپنی کارکردگی، خاص طور پر عوام کو مہنگائی سے بچانے کی حکمت عملی پر مکمل توجہ دینی چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت مخالفین سے تو بچ جائے اپنے ہی عمل کے نتیجے میں گھر جانا پڑجائے۔ حکومت کے سامنے مسائل کتنے ہی مشکل اور گمبھیر کیوں نہ ہوں اسے مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنا ہو گا۔ بیانات سے، مخالفین کو خاموش کرانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ معیشت میں بہتری یقیناً آ رہی ہے، آئی ایم ایف کی رپورٹ ہے کہ ’2021ء میں پاکستان کی معیشت کی مرحلہ وار بحالی متوقع ہے‘ ۔

پاکستان کی معیشت کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن روزمرہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ دیگر مسائل بھی توجہ طلب ہوتے ہیں، کب کس وقت کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے ، اس  کے لیے بھی فوری تیار رہنا چاہیے جیسے سانحہ مچھ اچانک ہو گیا، ایسے مسائل فوری حل طلب ہوتے ہیں، وزیراعظم اگر خود بھی چلے جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ سردی میں بیٹھے پاکستانیوں کی داد رسی ضروری ہے۔ دل خراش واقعہ ہے۔ اس کے لیے وزیر اعظم کو اپنی تمام تر مصروفیات سے وقت نکال کر مظلوم لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔ وہ دہری مشکل کا شکار ہیں، ایک تو اپنے عزیزوں کی شہادت، پھر شدید سردی میں لواحقین کھلے مقام پر کئی روز سے میتوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ امید ہے حکومت اس مسئلہ کے حل میں پس و پیش سے کام نہیں لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).