ہماری چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ کائناتیں


دنیا میں ہر بچہ ایک نئی کائنات لے کر پیدا ہوتا ہے۔ نئی کائنات، نئے امکانات لاتی ہے۔ امکانات زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ زندگی حوصلے والے گزارتے ہیں اور اپنا جہان آپ پیدا کرتے ہیں۔ قابل تعریف ہے وہ ذات جو سب جہانوں کی پالن ہار ہے اور قابل ستائش ہے وہ ہستی جو سب جہانوں کے لیے رحمت ہے۔

ہر آدمی کائنات کے کسی رخ کا مکمل اظہار ہوتا ہے۔ کائناتی شعور کا اک جیتا جاگتا احساس۔ شاید اسی لیے دیکھنے والوں کو ایک ہی شخص میں کل کائنات نظر آ جاتی ہے۔ سچ ہے دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ قابل تحسین ہیں ایسے لوگ جو اپنی کائناتیں تک سانجھی کر لیتے ہیں اور مل جل کر ان دیکھی کائناتوں کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں۔

ہر دم پھیلتی ہماری یہ کائنات امکانات سے بھرپور ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اپنی کائنات کو اس وسیع کائنات سے ہم آہنگ کرنا نصیب ہوتا ہے۔ ”یہ بڑے نصیب کی بات ہے، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے“ ۔ اور جسے کائناتی ہم آہنگی مل جائے بھلا اسے اور کیا چاہیے۔

آج تک جتنی بھی انسانی تہذیبیں اس کرہ ارض پر معرض وجود میں آئی ہیں، ہر ایک نے اپنے تصور کائنات کے مطابق لوگوں کے ذہنوں کو تازگی بخشی ہے۔ تہذیبوں کے افضل ہونے کا معیار اگر جانچنا ہو تو شاید یہی دیکھنا کافی ہے کہ اس نے کس قسم کے انسانوں کو ”تخلیق“ کیا ہے۔ انسان اپنے تصور کائنات کے سوا ہے ہی کیا؟

انسان کی طرح انسان کے بنائے ہوئے ادارے بھی اپنا الگ تصور کائنات رکھتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ ممالک جنہوں نے ایسا اجتماعی انتظام بنایا جس میں ہر انسان کو اپنی کائنات بنانے اور سنوارنے کے بھرپور اور مساوی مواقع فراہم کیے۔ آج ہر ملک اپنے اپنے نظاموں اور اداروں کی بدولت مختلف قسم کی شخصی کائناتوں کو وجود بخش رہے ہیں۔ یہی اصول ہم مختلف گروہوں اور جماعتوں پر بھی لگا کر ان کی کائنات بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم نشینی سے کسی بھی تصور کائنات سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ آپ کو جس انسان کی کائنات پسند ہو آپ اس کے ساتھ زندگی کے لمحات گزاریں تو آہستہ آہستہ آپ اس کی کائنات میں شریک ہو جائیں گے۔ بس اپنے خول میں بند کائناتوں سے پرہیز واجب، نہیں تو تازہ فکر سے محروم کائنات آپ کا بھی مقدر ٹھہرے گی۔ یہ سچ ہے انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دوست ہیں ہی کیا؟ مختلف کائناتوں کے چلتے پھرتے جیتے جاگتے وجود۔ ویسے ہر دور میں دشمنوں کا انتخاب، دوستوں سے زیادہ اہم رہا ہے۔

اکثر لوگوں کی کائناتوں کا محور صرف اپنی ذات ہوتی ہے۔ کچھ کا مرکز اپنا خاندان، چند ایک کا اپنا علاقہ، بہت تھوڑوں کا اپنا ملک اور گنے چنے چند خوش نصیبوں کے حصے میں پوری کائنات آتی ہے۔ الہامی مذاہب تو اس کائنات سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ بہرحال، جتنا بڑا ظرف ہو گا، اتنی بڑی کائنات اس کو عطا ہو جاتی ہے۔

ہر دم ٹوٹتی بنتی کائناتوں کے اس جھرمٹ میں ہر آدمی اپنے حصے کی کائنات پر نازاں ہے۔ لیکن یاد رہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کائنات کو وسعت نہ دی جائے تو ٹھہرے ہوئی پانیوں کی مانند کائناتیں بھی گل سڑ جاتی ہیں۔ آدمی اپنی چھوٹی سے کائنات کو ہی کل کائنات سمجھ بیٹھتا ہے۔

انسان اپنے تصور کائنات کے سوا کچھ بھی نہیں اور حقیقت یہی ہے کہ جب بھی ہم کسی آدمی سے مخاطب ہوتے ہیں تو ہم اپنے تصور کائنات کی بنیاد پر اس سے گفت و شنید کرتے ہیں اور وہ اپنے تصور کائنات کے مطابق۔ کبھی کبھار ہمارا تصور کائنات آپس میں ٹکرا بھی جاتا ہے۔ کوئی بات نہیں، گفتگو رکنی نہیں چاہیے۔ انسان کی حرمت اس کے تصور سے کہیں بڑھ کر ہے۔

دنیا میں چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر پوری کائنات اپنی ساری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ہر لحظہ کائنات اک نئی آن، نئی شان سے ظاہر ہوتی ہے۔ سچ یہی ہے کہ ہر زمانے میں ایسے انسانوں سے ہی انسانیت سر اٹھانے کے قابل رہی ہے۔ ایسے انسانوں کا ساتھ پوری کائنات کا ساتھ بن جاتا ہے۔

اپنی کائنات جانیے۔ اپنے اردگرد کی کائنات کی خوبصورتی دریافت کیجیے۔ کائنات کی رنگا رنگی اپنے اندر بسائیے۔ ڈھونڈنے والوں کو نئے جہاں مل ہی جایا کرتے ہیں۔ آئیے سب مل کر ایک دوسرے کی کائناتوں کو خوبصورت بناتے ہیں۔

ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات

ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدہ کیجیے

(مجروح سلطان پوری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).