کوئی تصنیف کلاسیک درجہ کیسے حاصل کر سکتی ہے؟



کلاسیکی تنقید ادب کا سب سے قدیم دبستان ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ لفظ یونانی اور رومی فن پاروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب ہر ادبی پارے کے لیے یہ ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں یونان کو سپر پاور حاصل تھی۔ وہ ہر لحاظ سے آگے تھا۔ بطور خاص فنون ان کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ سکندر اعظم کی وفات کے بعد یونان پر زوال آیا آئی۔ اس کے بعد روم اٹھ کھڑا ہوا۔ رومیوں نے اس کی تقلید شروع کر دی، وہ ہر کام میں یونانیوں کی نقل کرتے تھے یہاں تک کے اگر انھوں نے ٹیڑھی اینٹ لگا دیتو اسے بھی پتھر پر لکیر سمجھا جاتا۔

ادبی مشاہیر نے ادبی فن پارے کے لیے کچھ اصول و ضوابط تشکیل دیے تو ہر قلم کار کے لیے لازمی ہوا کہ وہ ان اصولوں پر پورا اترے۔ جو فن پارہ ان اصولوں پر پورا اترتا ہے۔ اس کو کلاسیکیت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا ایسا مصنف یا ایسی تصنیف جو اپنی فنی خصوصیات کے باعث زمانے کی کسوٹی پورا اترے کلاسک کہلاتا ہے۔ لفظ کلاسک کا اطلاق مصنف اور تصنیف دونوں پر ہوتا ہے۔ ساں بو اس بارے میں کہتے ہیں فنی لحاظ سے کلاسیک سے مراد ایک ایسا پرانا مصنف ہے جسے پسندیدگی کی خلعت سے نوازا جائے۔ اور اسے اس کے مخصوص اسلوب میں سند مانا جائے

ٹی ایس ایلیٹ نے کلاسک کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے دو لفظوں کا استمال کیا پختگی اور کاملیت، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک تہذیب، اس کی معاشرت، اس کا ادب اور اس کی زبان توازن اور ہم آہنگی جیسی صفات پیدا کر لیتا ہے تو عروج حاصل کر لیتا ہے۔ وہ اپنی کسی تصنیف کے ذریعے سارے تہذیبی پھیلاو کو سمیٹ لیتا ہے اور پھر اپنی زبان قوم یا تہذیب کی عظمتوں کا نشان بن کر ابھرتا ہے۔ ہومر، ایلیٹ، ورجل، دانتے،  ورڈورتھ، شیلے کو ہم کلاسک شعراء کا درجہ دیتے ہیں۔

ورجل کے بارے میں ایلیٹ کا کہنا ہے کلاسک کی کوئی بھی تعریف ایسی نہیں ہو گی جس سے ورجل کو خارج کیا جا سکے۔ مشرقی ادبیات میں فردوسی کا شاھنامہ، مولانا روم کی مثنوی کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اردو ادب میں غالب، حالی، پریم چند اور میر امن کو کلاسک مانا جاتا ہے ۔ کلاسیکیت کے نمایاں خدوخال میں ہیئت پرستی، قدامت پرستی، عقلیت، اصول پسندی اور اعتدال شامل ہیں۔ کلاسیکیت نام ہے ادبی اصولوں کی پابندی کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مصنف کوئی خیال اپنے ذہن میں باندھ رہا ہے تو یہ خیال فنی اصولوں کے تحت باندھا جائے۔

کلاسیکی نقاد شیکسپیئر کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ اس نے ڈرامے کے فنی اصولوں کی پاسداری نہیں کی جو انھوں نے متعین کیے تھے۔ کلاسکی تنقید کا بانی ارسطو کو کہا جاتا ہے۔ کلاسیکی تنقید کا تصور مغرب سے آیا ہے۔ اردو ادب میں میر،  اثر لکھنوی، کلیم الدین احمد، نیاز فتح پوری کو کلاسیکی نقاد مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر  نے اس تنقید کو مختلف ناموں سے پکارا ہے۔ ہیتئی تنقید یا تشریحی تنقید کو جوزف۔ ٹی شیلے  نے  اخلاقی تنقید کے مترادف قرار دیا۔

کلاسیکی تنقید کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محدود پیمانے پر کی جاتی ہے۔ گنجائش نہیں ہوتی، بے لچک ہوتی ہے اور کٹر قسم کی بنیاد پرستی پر مشتمل ہوتی ہے۔ ادب اگر موجود دور کا ترجمان ہے تو اسے ماضی کے اصولوں سے ہٹننا پڑتا ہے۔ اس لیے بہت سے ادیبوں نے ان اصولوں سے بغاوت اختیار کر لی اور جدت کے رستے پہ چل نکلے۔

بہرحال ان سب باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ کلاسیکی تنقید کو جس بھی نام سے پکارا جائے، ان سب کے فنی لوازمات پر پورا اترنا ضروری ہے۔ تب ہی کسی مصنف کی تصنیف زمانے کی کسوٹی پر پوری اتر سکتی ہے اور یہ تصنیف کلاسک کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).