کالی موت، ہجرت، بیٹیوں کی بے حرمتی اور پھر نکلنا تیل کا


جادو نگری جیسے اس دیس ناروے نے کئی اتار چڑھاو دیکھے۔ کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ سختیاں جھیلیں پر ہمت نہیں ہاری۔ گرتے پڑتے پھسلتے سنبھلتے سفر جاری رکھا۔

ان دنوں کورونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ناروے بھی اس وبا کے متاثرین میں سے ہے۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں کہ ناروے میں وبا نے حملہ کیا۔ پرانے زمانے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

طاعون کی وبا ۔ سیاہ موت (1346 – 1353)

ان برسوں کے دوران طاعون جیسی خوفناک بیماری نے وبا کی صورت میں یورپ کو گھیر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وبا ایشیا سے پھوٹی اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ برطانیہ متاثر ہوا اور دو سال بعد ناروے تک بھی پہنچ گئی۔ یہ دور ناروے کی سیاہ ترین تاریخ ہے اور اسے سیاہ موت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وبا چوہوں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بحری جہاز جو برطانیہ سے آیا تھا، ناروے کے ساحلی شہر برگن پر لنگرانداز ہوا۔ جہاز میں موجود چوہوں کے ذریعہ یہ وبا انسانوں میں پھیل گئی۔ شہر کے لوگ بیمار ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیماری ملک کے دوسروں شہروں تک پہنچ گئی اور پورے ملک پر سیاہ موت چھا گئی۔ اس کے نتیجے میں یورپ کی ساٹھ فیصد آبادی جان سے گئی اور ناروے کی ایک تہائی آبادی کا صفایا ہو گیا۔ یعنی کل ملا کر پچاس سے اسی ملین لوگ مارے گئے۔ ہر گھر سے لاشیں نکلیں اور محلے کے محلے ویران ہو گئے۔ ناروے کے لوگ اس وبا کو بھولے نہیں۔ اس کی دہشت اور وحشت کا آج بھی ذکر ہوتا ہے۔ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں اور اسکول کے بچوں کو بتایا جاتا ہے۔ ناروے پر دہرا صدمہ تھا کیونکہ اسی دوران ملک اپنی سیاسی خودمختاری سے محروم ہو کر ڈنمارک کا محتاج ہو گیا۔

وبا کا نہ کوئی علاج تھا اور نہ ہی اس سے بچاو کی کوئی واضح ترکیب۔ شہر ویران ہو گئے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے نہ رہے۔ افرادی قوت پر ضرب لگی۔ پورا سسٹم ناکارہ ہو گیا۔ اس مشکل ترین وقت نے چرچ اور اس کی انتظامیہ نے پوری کوشش کی کہ عوام کو مدد پہنچائی جائے۔ ملک سیاسی طور پر کمزور اور مالی بدحالی کا شکار ہوا۔

ہجرت (1825)

ناروے کی تاریخ کا دوسرا بڑا دور وہ تھا جب ناروے کے باسیوں نے ہجرت کی۔ ناروے جو آج کے زمانے میں مہاجرہین کو اپناتا ہے۔ لوگ پناہ اور بہتر مستقبل کی خواہش میں یہاں آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ کوئی دو سو سال پہلے ناروے کے باشندے پناہ اور بہتر مستقبل کی آرزو میں امریکہ ہجرت کر رہے تھے۔ چار جولائی اٹھارہ سو پچیس کو ناروے کے شہر استوانگر سے ایک پانی کے جہاز میں کچھ افراد سوار ہوئے اور ہجرت کا آغاز ہوا۔ یہ کل باون لوگ تھے۔ ان کی منزل نیو یارک تھی۔ سفر میں تین ماہ لگے اور نو اکتوبر کو جہاز نیو یارک پہنچ گیا۔ مزید حیرانی ہوتی ہے یہ جان کر کہ اس پہلی ہجرت کی وجہ مذہبی منافرت تھی۔ یہ لوگ ایک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے جسے کوایکرز (Quakers) کہا جاتا ہے۔ کوایکرز کو فرینڈز بھی کہتے ہیں۔ یہ مسیحیت کی ہی ایک شاخ ہے۔

یہ سوسایٹی سترہویں صدی میں انگلینڈ میں قائم ہوئی۔ اس کے بانی کا نام جارج فوکس تھا۔ اس فرقے کے اپنانے والوں کا یہ ماننا ہے کہ ہر انسان میں خدا کا کچھ نہ کچھ وجود ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کوایکرز انسان کی عظمت اور توقیر مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر پیدا ہونے والا انسان منفرد اور باعث احترام ہے۔ انگلینڈ سے یہ لوگ امریکہ پہنچے۔ ایک برٹش جہاز میں کچھ نارویجین قیدی واپس وطن پہنچے تو وہ ایک نئی مذہبی سوچ اپنے ساتھ لائے۔ اور استوانگر شہر میں نہایت خاموشی سے اپنی میٹینگز اور عبادات کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ نظریاتی سوچ رکھنے والا فرقہ تھا۔ یہ غلامی کے سخت مخالف تھے۔ اسلحے کی نمائش بھی ان کے نزدیک ناقابل قبول تھی۔ سزائے موت کے بھی خلاف تھے۔ عورتوں کے حقوق کے حامی، جنگ کے مخالف اور امن پسند تھے۔

ناروے میں اس مذہبی گروپ کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اور چونکہ انگلیڈ سے پہلے ہی ان کے گروپ نے امریکہ نقل مکانی کی لہذا ناروے کے کوایکرز نے بھی سوچا کہ امریکہ ان کے لیے ایک بہتر زمین ثابت ہو گی جہاں مذہب کی بنیاد پر انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن انہیں وہاں بھی اسی امتیازی سلوک کا سامان کرنا پڑا۔ امریکہ میں اکثریت کے مسیحی فرقوں اور غلاموں کی تجارت کرنے والوں کو یہ نظریہ کچھ بھایا نہیں۔ لیکن اس کے با وجود کویکرز نے وہاں قدم جما لیے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے غلامی کے خاتمے کے لیئے بھرپور کوششیشیں کیں۔ آج بھی اس مذہبی گروہ کا وجود ہے۔ امریکہ میں بھی اور ناروے میں بھی۔

ناروے سے امریکہ ہجرت کرنے کی ایک اور بڑی وجہ غربت بھی تھی۔ پے درپے کئی سال زراعت بہت بری طرح متاثر ہوئی۔ قحط کی سی صورت حال ہو گئی۔ آلو کی کھیتی باڑی کرنے والے شدید مفلسی کا شکار ہونے لگے۔ امریکن ڈریم کا بہت چرچا تھا۔ انگلینڈ اور آیئر لینڈ سے جہاز بھر بھر کر لوگ اس سر زمین کا رخ کر رہے تھے جو ان کے خواب پورے کرنے کی نوید دے رہی تھی۔ ناروے سے بھی لوگ اس خواب کے تعاقب میں ہجرت کرنے لگے۔ زیادہ تر نارویجین میڈویسٹرن ایریا میں سٹیل ہوئے۔ اس زمانے میں ناروے کے تقریبا آٹھ لاکھ باشندوں نے امریکہ ہجرت کی۔ اکثریت نے پورے خاندان کے ساتھ یہ سفر کیا۔ جن کو زراعت سے دلچسپی تھی وہ ویسکونسین، مینی سوٹا اور نارتھ ڈیکوٹا گئے۔ شہروں میں رہنے کے شوقین بروکلین اور مین ہٹن میں بس گئے۔

ہجرت کرنے والے زیادہ تر نارویجین امریکہ میں کامیاب رہے۔ کھیتی باڑی میں بھی، تجارت میں بھی اور سیاست میں بھی۔ ان میں ہوبرٹ ہمفرے اور والٹر موندالے امریکہ کی نائب صدارات تک پہنچے۔ اور ارل وارین امریکہ کی سب سے بڑی عدالت کے جج بنے۔

اس وقت امریکہ میں تقریبا پانچ ملین ناروے نژاد لوگ آباد ہیں یعنی اتنے ہی لوگ جتنی ناروے کی اپنی آبادی ہے۔ امریکہ ہجرت کرنے والے اپنے ساتھ تھوڑا سا ناروے ضرور لے گئے۔ اور آہستہ آہستہ اپنی کمیونٹی بنا ڈالی۔ اپنی دوکانیں کھولیں، اپنے کیفے بنائے، اپنے گرجے بھی تعمیر کیئے۔ ناروے کا قومی دن وہاں بھی اسی جوش سے مناتے ہیں۔ اپنا قومی لباس پہن کر ہاتھوں میں ناروے کا جھنڈا لہراتے پریڈ کرتے ہیں۔

عالمی جنگ (1940- 1945)

پہلی جنگ عالمی جنگ میں ناروے نے خود کو غیر جانبدار رکھا اور محفوظ رہے۔ خیال یہ کیا گیا کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن ہٹلر کی نازی فوج سویڈن کی سر زمین سے ناروے میں داخل ہو گئی۔ یہ ناروے کا ایک اور کڑا امتحان تھا۔ ملک پوری طرح جرمنوں کے قبضے میں چلا گیا۔ نئے قوانین بن گئے۔ کھانے پینے کی اشیا پر راشن لگ گیا۔ دوکانیں خالی ہو گیں۔ آٹا، چینی اور کافی بھی راشن کارڈ پر ملتی۔ لوگ پیٹ بھر کر کھانے سے محروم ہو گئے۔ اس دوران بچے بھی نامناسب اور ناکافی غذا ملنے کی وجہ سے بیمار اور کمزور ہوئے۔

لیکن اسی دوران جرمن سپاہیوں اور نارویجین لڑکیوں کے درمیان کچھ محبت کی داستانیں بھی رقم ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ تقریبا پچاس ہزار نارویجین عورتیں جرمن سپاہیوں کے ساتھ تعلقات میں بندھ گیں اور ان لڑکیوں کو جرمن گرلز کہا جانے لگا۔ اور سال بھر بعد یعنی انیس سو اکتالیس میں اس رشتے سے پہلا بچہ بھی پیدا ہوا۔ کل ملا کر دس ہزار بچے پیدا ہوئے جنہیں جنگی بچے کہا جاتا رہا۔ جرمن حاکموں نے ان بچوں کو فخر سے اپنایا اور نارویجین لڑکیوں کے بطن سے پیدا ہونے والے یہ بچے اعلی نسل کے کہلائے جانے لگے۔ لیکن جنگ ختم ہوتے ہی سپاہی واپس چلے گئے اور ان بچوں اور ان کی ماؤں کو چھوڑ دیا بلکہ بھلا بھی دیا۔

خود ناروے میں بھی ان بچوں اور ان کی ماؤں کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا۔ ان ماؤں کے لیے الگ نرسنگ ہومز بنائے گئے جہاں وہ بچے کی پیدائش تک رہتیں۔ جرمن فوجی جا چکے تھے۔ ان بچوں کے باپ کون تھے، کہاں تھے، اس کی تلاش کی گئی لیکن اکثر کا پتہ نہ مل سکا۔ ناروے کی موجودہ وزیراعظم آرنا سولبرگ نے حکومتی سطح پر افسوس اور معذرت کا اظہار کیا۔ اور اعتراف کیا کہ ان بچوں اور ان کی ماوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔

تیل کی دریافت (1969)

دس سال کی کوششوں اور تلاش کے بعد ناروے کے سمندر میں تیل مل گیا۔ اس کے بعد کئی اور کنویں کھودے گئے اور تیل اور گیس کے وافر ذخائر دریافت کر لیے گئے۔ اس دریافت نے ناروے کی قسمت بدل دی۔ اور کچھ ہی برسوں میں غریب ناروے امیر، امیر سے امیر تر اور اب امیرترین ملکوں میں اس کا شمار ہے۔ لیکن کیا تیل کی دریافت ہی کسی ملک کو امیر بنا دیتا ہے؟ تیل تو کونگو میں بھی بہت نکلا۔ وینیزویلا میں تیل کی نہریں ہیں۔ عراق اور دوسرے عرب ممالک بھی تیل سے مالامال ہیں لیکن کیا ان ممالک کو ترقی یافتہ بھی کہا جا سکتا ہے؟ سویڈن اور فن لینڈ میں تیل نہیں ہے لیکن یہ ممالک ترقی کی بہترین مثال ہیں۔ ناروے کا شمار اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہے اور کئی سال سے دنیا میں رہنے کے لحاظ سے بہترین سر زمین ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیئے سیاسی عزم ضروری ہے۔ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل کہیں غیر جمہوری رویے ہیں، کہیں بدعنوانی اور کہیں ملٹری یا سویلین ڈکٹیٹرشپ۔

ریاست اور تمام سیاسی پارٹیوں نے اس دولت کو ملک و عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آنے والی دولت سے مختلف منافع بخش منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اور اس ساتھ ہی اس دولت کو ایک فنڈ میں محفوظ رکھا گیا۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیئے یا اضطراری حالات میں۔ کسی شدید ضرورت کے تحت ہی اس فنڈ سے رقم لے کر استعمال کی گئی۔ مثال کے طور پر ان دنوں کورونا کی وبا سے ملک کی معشیت کو ضرب لگی، اسے سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیئے اس فنڈ سے مدد لی گئی۔

لیکن اب ناروے میں تیل کے مزید کنویں نہیں کھودے جائیں گے۔ ایک عرصے سے عوام اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ سمندر میں تیل پلیٹ فارم کی تعمیر سے آبی جانداروں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں اور گیس کی وجہ سے قدرتی ماحول بھی آلودہ ہو ریا ہے۔ گلوبل وارمنگ کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ لیذا یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اب اور نہیں۔ توانائی کے لیے بجلی پر انحصار کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).