اسلامو فوبیا کے خلاف سربکف وزیر اعظم اور کوئٹہ کے مظلوم ہزارہ


جو بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے، وہ شاید ہزارہ برادری کے لوگوں کے علم میں بھی ہوگی کہ وزیر اعظم یا کسی دوسرے اعلیٰ عہدیدار کے آنے سے دہائیوں پرانا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی معاشرے سے فرقہ واریت کا زہر وعدوں اور اعلانات سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کے آنے تک تدفین سے انکار کیا جارہا ہے۔ شدید سردی کے باوجود لوگوں کی کثیر تعداد 11 میتوں کے ساتھ کوئٹہ کی ایک سڑک کے کنارے بیٹھی انصاف کا انتظار کررہی ہے۔

 اس رویہ کو دو حوالوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک : اس طرح مرحومین کے لواحقین اپنی شدید مایوسی و ناراضی کا اظہار رکرہے ہیں۔ دوئم: حکومت کو فیس سیونگ کا ایک نادر موقع ملا تھا۔ وزیر اعظم کوئٹہ جاکر اپنی ناکامی کے زخموں کومندمل کرنے کی کوشش کرسکتے تھے۔ ہزارہ بر ادری اور ان کی ہمدردی میں اہل تشیع کا احتجاج جاری ہے لیکن حکومت اس مسئلہ کو چند دائروں سے باہر نکل کر دیکھنے پر تیار نہیں ہے۔ حکومت اور اس سے بھی بڑھ کر ریاست کی یہی سنگدلی دراصل اس وقت سنگین سوال کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم کے دوست اور مشیر ذوالفقار بخاری کی مظاہرین سے ہونے والی گفتگو کی ایک ویڈیو بھی عام ہے جس میں وہ یہ پوچھتے سنائی دیتے ہیں کہ وزیر اعظم اگر کوئٹہ آتے ہیں تو انہیں اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ حالانکہ انہیں مظاہرین کو بتانا چاہئے تھا کہ وہ یا ان کی حکومت نعروں، مشوروں اور وعدوں کے علاوہ متاثرین کے لئے کیا کرپائی ہے۔

زلفی بخاری میں اگر عوامی سیاست کی ذرہ برابر فہم بھی ہوتی تو وہ یہ اندازہ کرسکتے تھے کہ ہزارہ برادری تو شاید شدید مایوسی میں یہ مطالبہ کررہی ہے تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بتا سکے کہ انہوں نے احتجاج رجسٹر کروانے کی ہرممکن کوشش کی تھی لیکن اس طرح انہوں نے درحقیقت حکومت اور وزیر اعظم کو اپنی انتظامی نااہلی پر پردہ ڈالنے اور سیاسی طور سے فیس سیونگ کا نادر روزگار موقع فراہم کیا تھا۔ نہ جانے کون سے بزرجمہر وزیر اعظم کے مشیر ہیں کہ وہ اس نادر روزگار موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور وعدہ فردا پر ہزارہ برادری سے اپنے پیاروں کو دفن کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا لیکن عمران خان کا انسان دوست چہرہ نمایاں ہوتا۔ انہیں موجودہ سیاسی سنگین حالات میں یہ دکھانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ وہ انسانوں کا دکھ سمجھتے ہیں اور ان کی سطح پر اتر کر اسے بانٹنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عمران خان کی شہرت سرد مہر رویہ رکھنے والی خود پسند اور انا پرست شخصیت کے طور پر ہے۔ انہیں اس تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ کے مظاہرین نے درحقیقت انہیں یہی موقع فراہم کیا تھا۔ کوئی بھی عوامی لیڈر کبھی اس موقع کو ضائع نہ کرتا۔

وزیر اعظم کی مصروفیات اور مطالبے کے جائز یا ناجائز ہونے کی بحث سے قطع نظر یہ سوال بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ پاکستان کی سیاسی فضا میں گونجتا رہے گا کہ کسی سانحہ پر وزیر اعظم کو جانے میں کیا مشکل حائل ہے؟ کیا ملک کے انتظامی سربراہ کے طور پر ان پر یہ اخلاقی، انتظامی اور سیاسی فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی ایسے واقعہ کے بعد موقع پر پہنچیں۔ سرکاری اہلکاروں کو کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کریں اور متاثرین کو یقین دلائیں کہ ریاست اگر ان کے پیاروں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو بھی ملک کا وزیر اعظم یہ دکھ بانٹنے کے لئے ان کے درمیان موجود رہنا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔ یہ کون سا انہونا مطالبہ ہے جسے پورا کرنے سے وزیر اعظم کا رتبہ کم ہوجاتا یا عمران خان کی شان میں کمی واقع ہوتی؟

دنیا بھر میں قدرتی سانحہ یا کسی دوسری وجہ سے انسانوں کی ہلاکت پر اعلیٰ سیاسی لیڈر موقع پر پہنچتے ہیں اور صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ملک خداداد پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ عمران خان سے لے کر ان کے وزیر مشیر مل کر اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ میتوں کو دفنا دیا جائے اور وزیر اعظم کا انتظار نہ کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ ’متاثرین کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ مرنے والوں کو فوری طور سے دفن کردیں اور کسی عہدیدار کی آمد کا انتظار نہ کریں‘۔ عمران خان کے دوست، مشیر اور شاید دست راست زلفی بخاری یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کو اس دورہ سے کیا فائدہ ہوگا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر بحری امور علی زیدی مظاہرین کو یہ بتا کر احسان جتا رہے ہیں کہ ’ہم آتو گئے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ وفاقی وزیر آپ سے ملنے آئے ہیں۔ اسی سے اندازہ کرلیں کہ ہم اس معاملہ میں کتنے سنجیدہ ہیں‘۔ پھر حکومت نے مرنے والوں کا معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ محلوں میں رہنے والے حکمرانوں کو شاید واقعی عام آدمی کی سوچ ، ضرورت، احساسات اور تکلیفوں کا احساس نہیں ہوسکتا۔ لیکن بدنصیبی سے موجودہ حکومت کے ترجمان کٹھور پن کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ اس کا ڈھونگ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔

بلوچستان پاکستان کا اہم ترین صوبہ ہے۔ ان معنوں میں اہم ترین کہ وہاں سے نکلنے والی معدنیات، وہاں پائی جانے والی گوادر بندرگاہ اور سی پیک منصوبہ کے حوالے سے اس صوبہ کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود ملک کا وزیر اعظم سال بھر میں اگر کسی رسمی تقریب کے لئے کوئٹہ چلا جائے تو اسے بھی بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ صوبہ کی معاشی ضرورت اور سیاسی اہمیت کے پیش نظر اگر وہاں ملک کے وزیر اعظم کا کیمپ آفس نہ بھی قائم ہو تو بھی انہیں ہر ماہ میں چند روز وہاں گزارنے چاہئیں تاکہ مختلف منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے علاوہ وہاں کے عوام میں احساس تحفظ پیدا کیا جاسکے۔ اس طرح ملک کا انتظامی سربراہ خود یہ مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے چھوٹے صوبے مسلسل محرومی، سہولتوں کی کمیابی اور انتظامی زیادتیوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان کو ایف سی کے حوالے کرکے ملک کی منتخب سیاسی حکومت اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو چکی ہے۔ کیا اسی طرح وفاق کو مضبوط اور عوام کو مطمئن کیا جائے گا؟

بلوچستا ن کے وزیر اعلیٰ نے آج ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کو بلانے کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ یہ تو صوبائی معاملہ ہے۔ وہ خود فوری طور سے دوبئی سے لوٹ آئے ہیں۔ اس معاملہ سے وزیر اعظم کا کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ گستاخی نہ سمجھا جائے تودریافت کیا جاسکتا ہے کہ حضور آپ کے آنے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ تو خود اس عہدے پر پہنچنے کے لئے عوامی تائد کی بجائے کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں پیدا کئے گئے ’باپ‘ کے محتاج ہیں۔ بلوچستان میں کون سے عوامی نمائیندے حکمران ہیں۔ اور اگر واقعی کسی سول اتھارٹی کی کوئی حیثیت باقی ہے تو بتایا جائے کہ اس کا اختیار صوبے کے کن معاملات پر ہے۔ کتنے لاپتہ لوگوں کو دریافت کیا گیا یا دہشت گردی، تشدد اور فرقہ واریت کے خلاف کون سا بند باندھنے میں صوبائی حکومت کے منصوبے کامیاب ہورہے ہیں۔ اور اگر واقعی آپ عوام کے نمائیندے اور خیر خواہ ہیں تو لوگ مایوس اور ناراض کیوں ہیں۔

کوئٹہ میں جاری احتجاج پر ہمدردی کی بجائے دلیل اور حجت کا رویہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ یہ پہلے سے لگے گھاؤ کو گہرا کرتا ہے۔ اس سے فاصلے بڑھتے ہیں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں۔ وزیر اعظم کو بلانے کے سوال پر دلائل کے انبار لگا کر حکومتی ترجمانوں نے ملک میں گروہی تقسیم اور صوبائی عصبیت کو ہوا دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ رہی سہی کسر یہ کہہ کر پوری کی جارہی ہے کہ یہ سب بھارتی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ اب احتجاج کرکے دشمن کے عزائم کا آلہ کار بننے سے گریز کیا جائے۔ وزیر اعظم نے اپنے نمائیندوں کے علاوہ خود براہ راست ٹوئٹ پیغام میں واضح کردیا ہے کہ ’میں تو نہیں آؤں گا ، آپ اپنے پیاروں کو دفن کردیں تاکہ ان کی روح کو سکون ملے‘۔ اس طرح عمران خان نے خود اپنے لئے موجودہ دھرنے کے دوران کوئٹہ جانے کا دروازہ بند کردیا ہے۔ آج جاری کئے گئے ٹوئٹ کا سلیس زبان میں یہی مفہوم ہے کہ مچھ کے شہیدوں کی لاشیں اگر ہفتہ بھر بھی عام شاہراہ پر پڑی رہیں تو حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔

کوئٹہ جانے اور متاثرین کو دلاسہ دینے کی بجائے عمران خان دراصل مسلم امہ کی ڈھارس بندھوانے میں مصروف رہے ہیں۔ ایک ترک میڈیا آؤٹ لیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا پر تفصیل سے اپنے فرسودہ دلائل کو نئے جوش و ولولہ سے پیش کیا ہے۔ اور اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مغربی ممالک اور لوگ مسلمانوں کے جذبات اور اپنے مذہب اور رسول پاک ﷺ سے ان کی عقیدت کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس کی بجائے وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار پر یقین نہیں رکھتے۔

یورپ میں مسلمان اقلیت کو غیر محفوظ بتاتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے ملک میں اقلیتوں کے مساوی حقوق کا دعویٰ کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ حکومت تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ اسی ملک کے سینکڑوں لوگ گیارہ میتوں کو سڑک پر رکھے وزیر اعظم سے ہمدردی کے دو بول سننے کا انتظار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali