چاول کی مڈھی کا دھواں اور سموگ: گوجرانوالہ کی خاتون کسان سموگ کے خلاف کیسے سرگرم ہیں؟


گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین
پنجاب میں چاول کی فصلوں کی باقیات جلائے جانے کی وجہ سے اٹھنے والا دھواں پورے صوبے میں سموگ کی صورت میں پھیل جاتا ہے
یہ کہانی پرانی ہے مگر آج بھی دہرائی جا رہی ہے۔ محمد بخش (فرضی نام) شام ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ہاتھ میں ماچس دبائے، مٹی کے تیل کی بوتل اٹھائے وہ اپنے کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ نومبر کے آخری دن ہیں، وہ چاول کی فصل کی کٹائی کر چکے ہیں اور اب گندم کی بوائی سر پر ہے۔

محمد بخش کو گندم کے لیے زمین تیار کرنی ہے مگر اس میں چاول کی مڈھی ابھی کھڑی ہے۔ صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے اس چھوٹے کسان نے اس کو تلف کرنے کا انتہائی سستا لیکن مہلک حل اختیار کیا ہے۔ وہ اس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دیں گے۔

رات گئے تک جلتے رہنے والی مڈھی سے صبح دیر تک دھواں اٹھتا رہے گا۔ اور اس کام میں محمد بخش اکیلے نہیں ہیں۔ پنجاب میں چاول کی کاشت کے لیے موزوں ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر کسان یہی راستہ اپناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے لیے سونا، پاکستانی کسان کے لیے خاک کیوں؟

دہلی میں جیٹ انجن کی مدد سے سموگ سے نمٹنے کی تیاری

سموگ: پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی طرف زیادہ آگ

اس آگ سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں پہلے سے معلق آلودگی میں شامل ہوتا جاتا ہے۔ انہی دنوں میں لاہور اور اس کے گرد و نواح میں فضا مستحکم ہوتی ہے اور ہوا کی عمودی حرکت نہیں ہو رہی ہوتی یعنی ہوا اوپر یا نیچے کی طرف حرکت نہیں کر رہی ہوتی۔

صرف افقی یا سطح کے برابر حرکت کرتی ہوا انتہائی آرام سے اس فضائی آلودگی کو دور دراز کے علاقوں تک پھیلا دیتی ہے۔ جوں جوں درجہ حرارت کم ہوتا ہے، ہوا میں موجود کیمیائی گندگی کے یہ زہریلے ذرات ایسی دھند کی شکل اختیار کرتے ہیں جسے سموگ کا نام دیا جاتا ہے۔

سموگ لاہور اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ان شہروں میں بسنے والے انسان سانس کے ذریعے اس کیمیائی گندگی کو اپنے جسم کے اندر لے جاتے ہیں۔ یہ اس قدر زہریلی ہے کہ جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

محمد بخش کے کھیت سے اٹھنے والا جو دھواں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا وہ کہاں تک پہنچا اور اس نے کتنی تباہی مچائی، کیا وہ اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں؟ اگر وہ آگ نہ لگاتے تو اور کیا طریقہ اپنا سکتے تھے جو ان کی پہنچ میں بھی ہوتا اور ماحول دوست بھی؟

گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین

ثمینہ بنیامین کہتی ہیں کہ چاول کا خصوصی ہارویسٹر نہ صرف کم سے کم مڈھی زمین میں چھوڑتا ہے بلکہ اس سے فی من چاول کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے

وہ کہتے ہیں دھواں اوپر جانا ہے، ہمیں کیا

ان کے ساتھ ہی کے ایک گاؤں میں ایک خاتون کسان ثمینہ بنیامین دہائیوں پرانے روایتی طریقے کو چھوڑ کر چاول کی کٹائی کا ایسا جدید طریقہ اپنا چکی ہیں جس سے نہ صرف ماچس اور مٹی کے تیل کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ ان کی چاول کی پیداوار بھی بڑھ گئی ہے۔

تعلیم یافتہ ثمینہ بنیامین کے عملی طور پر زمینداری میں حصہ لینے سے پہلے تک ان کا خاندان بھی فصل کی باقیات کو آگ لگانے والوں میں شامل تھا، اس لیے وہ ان کسانوں کی منطق بھی جانتی ہیں۔

’وہ کہتے ہیں دھواں اوپر جانا ہے کون سا نیچے آنا ہے ہمیں کیا۔ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتے نہیں کہ دوسرے کا نقصان ہو رہا ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا تو فائدہ ہو رہا ہے۔‘

تعلیم یافتہ ہونے کا خاتون کسان کو کیا فائدہ ہوا؟

ثمینہ نے ایم اے تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور شادی ہونے کے بعد اسلام آباد سے گوجرانوالہ میں اپنے سسرال آئیں تھیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہ صرف کھیتی باڑی اور کاروبار کو مکمل طور پر سنبھالتی ہیں بلکہ زراعت کے جدید طریقوں سے بھی آگاہ ہیں۔

جب غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے چند برس قبل مڈھی کو جلانے اور سموگ کے نقصانات کے حوالے سے کسانوں میں آگاہی پیدا کرنے لیے مہم چلائی گئی تو ثمینہ سیکھنے کے اس عمل میں مردوں کے ساتھ ساتھ آگے آگے تھیں۔

اس وقت انھیں معلوم ہوا کہ اس موسم میں ان کے بچے مسلسل جس کھانسی اور بخار میں مبتلا رہتے تھے، اس کی وجہ وہی دھواں تھا جو وہ اپنے ہاتھوں سے خود پیدا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے گھر کے مردوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا۔ اس وقت وہ قائل نہیں ہوئے۔

گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین

گندم کی فصل کاٹنے کے لیے بنائے گئے ہارویسٹر سے جب چاول کی فصل کاٹی جاتی ہے تو یہ باقیات رہ جاتی ہیں جنھیں کسان جلا کر اپنی زمین خالی کرتے ہیں

کیا آگ کے علاوہ کوئی دوسرا حل تھا؟

مسئلہ یہ تھا کہ آگ نہ لگائیں تو پھر مڈھی سے کیسے جان چھڑائیں؟ اس کا حل تو موجود تھا مگر ثمینہ سمیت زیادہ تر کسان اس کو اپناتے نہیں تھے۔ وہ نسبتاً مہنگا تھا۔

جب پانچ روپے کی ماچس سے کام چل جائے تو وہ چھ ہزار روپے ایکڑ کے حساب سے ادا کر کے چاول کی کٹائی کے لیے بنا خصوصی ہارویسٹر کیوں استعمال کرتے؟ مقامی کسان اس ہارویسٹر کو اس کے بنانے والی کمپنی ’کیوبوٹا‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

تاہم ثمینہ اس ہارویسٹر کے استعمال پر قائل ہو چکی تھیں۔ وہ اپنی زمینوں کی آمدن اور خرچ وغیرہ کا حساب کتاب خود رکھتی تھیں اس لیے اپنے خاندان کے مردوں کو قائل کرنے میں بھی انھیں آسانی ہوئی۔ اس کے لیے انھوں نے مالی فائدے کے پہلو کا بھی استعمال کیا۔

’اس ہارویسٹر کے استعمال سے ہماری فی ایکڑ چاول کی آمدن بڑھ گئی ہے کیونکہ چاول ٹوٹتا نہیں اور اس کا معیار اچھا ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت اچھی ملتی ہے۔‘

تو باقی کسان چاول کا خصوصی ہارویسٹر کیوں استعمال نہیں کر رہے؟

زیادہ تر کسان چاول کی کٹائی کے لیے بھی گندم کے لیے بنا ہارویسٹر ہی استعمال کرتے تھے جس میں تھوڑی بہت تبدیلی مقامی سطح پر کر لی جاتی تھی۔ یہ ہارویسٹر دو سے ڈھائی ہزار روپے فی ایکڑ کے عوض کرائے پر مل جاتا ہے۔

یوں یہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کی بھی پہنچ میں تھا۔ اس کے مقابلے میں چاول کے مخصوص ہارویسٹر کے لیے چھ سے سات ہزار روپے فی ایکڑ ادا کرنے پڑتے تھے۔ چھوٹے کسان کے لیے یہ رقم زیادہ تھی۔

گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین

چاول کے خصوصی ہارویسٹر کا کرایہ تو زیادہ پڑتا ہے تاہم یہ کسانوں کے لیے چاول کے بہتر معیار کی صورت میں فائدہ مند بھی ہے

گندم کا ہارویسٹر چاول کی کٹائی کرتے وقت فصل کو اوپر سے کاٹتا ہے جس کی وجہ سے انتہائی اونچی مڈھی کھیت میں بچ جاتی ہے۔ اس کی کٹائی سے پرالی بھی ثابت نہیں بچتی اور کھیت میں پھیل جاتی ہے۔

اس کو صاف کرنے کے مشینی طریقے بھی موجود ہیں لیکن ایک تو وہ کم دستیاب ہیں اور دوسرا ان پر پھر سے کسان کا خرچ آتا ہے۔ اس لیے خصوصاً چھوٹا کسان مڈھی کو جلانے کو ترجیح دیتا ہے۔

ثمینہ کہتی ہیں کہ بظاہر فائدے کا سودا نظر آنے والا یہ طریقہ درحقیقت گھاٹے کا سودا ہے۔

جدید ہارویسٹر مہنگا ہے تو فائدہ مند کیسے؟

ثمینہ بتاتی ہیں کہ ’چاول کا جدید ہارویسٹر فصل کو بالکل نیچے سے کاٹتا ہے جس کے بعد بچنے والی مڈھی کو جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم اس کو ہل چلا کر زمین میں ملا دیتے ہیں اور وہ کھاد کا کام بھی دیتی ہے۔‘

اس ہارویسٹر کے استعمال کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے کسان کو پرالی بھی مکمل طور پر بچ جاتی ہے۔ یہ پرالی وہ مشین کا کرایہ ادا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ’اگر چھ ہزار اس کا کرایہ ہے تو اتنے کی ہماری پرالی بک جاتی ہے۔ اس طرح آپ کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین

ثمینہ بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کے مرد شروع میں نئے ہارویسٹر کے استعمال پر قائل نہیں تھے

ثمینہ نے نفع نقصان کے اس اندازے سے نہ صرف اپنے خاندان کو قائل کیا بلکہ دیگر کئی کسانوں میں بھی اس حوالے سے آگاہی پیدا کر چکی ہیں۔ گذشتہ دو تین برس سے وہ اسی ہارویسٹر کا استعمال کر رہی ہیں۔

’جو گندم والا ہارویسٹر تھا وہ چاول توڑ دیتا تھا، چاول کا ہارویسٹر ایسا نہیں کرتا اس لیے اس کا وزن اور کوالٹی بہت اچھی ہوتی ہے۔ تو ظاہر ہے اس کی قیمت بھی مارکیٹ میں زیادہ ملتی ہے۔‘

تو کسان اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہے؟

تاہم ثمینہ کے ارد گرد اب بھی بے شمار کسان گندم والے ہارویسٹر ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ محمد بخش نے بھی یہی ہارویسٹر استعمال کیا تھا جس کے بعد انھیں مڈھی کو آگ لگانا پڑی۔

ان کا مؤقف تھا کہ انھیں چاول کا ہارویسٹر دستیاب نہیں ہوا۔ ’کیوبوٹا والوں کے پاس میں گیا تھا وہ لارے لگا رہے تھے کہ آج آئیں گے، کل آئیں گے لیکن نہیں آ رہے تھے۔ ان کے انتظار میں میری فصل گر گئی، اس لیے مجھے مجبوراً دوسرا (گندم والا) ہارویسٹر لانا پڑا۔‘

ان کی بات میں کتنی حقیقت کتنا فسانہ تھا، ان کی کٹی فصل اور اس کی راکھ سے اندازہ لگانا مشکل تھا۔ تاہم وہ بھی چاول کے ہارویسٹر کے استعمال کے مالی فائدے سے آگاہ تھے۔ ’اگر اس سے کٹواتا تو مجھے فی ایکڑ دو من چاول زیادہ بچنا تھا۔‘

یہ ہارویسٹر کم کیوں ہیں؟

ثمینہ بھی محمد بخش کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں چاول کے مخصوص ہارویسٹر کم دستیاب ہیں جبکہ ان کی طلب میں اب بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

’جوں جوں لوگوں کو اس کے فائدے کا پتہ چل رہا ہے وہ اس کے استعمال کی طرف آ رہے ہیں۔ ہم کسانوں کو جمع کر کے بھی انھیں اس کے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔‘

گوجرانوالہ، سموگ، پنجاب، چاول، خواتین

جدید ہارویسٹر کی مدد سے کاٹی گئی فصل کی باقیات جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی جس کے باعث یہ ماحول دوست ہے

تاہم کم دستیاب ہونے کی وجہ سے کئی کسان چاہتے ہوئے بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ نتیجہ آگ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ثمینہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت ان مشینوں کی درآمد پر ٹیکس میں چھوٹ دے تو زیادہ کسان اس سے مستفید ہو سکیں گے۔

’پھر یہ ہارویسٹر سستے ہوں گے تو زیادہ درآمد ہوں گے اور ظاہر ہے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا کرایہ بھی کم ہو گا۔ یہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کی پہنچ میں آ جائیں گے اور دھوئیں کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔‘

’کسی نے باہر سے تو نہیں آنا‘

ثمینہ سمجھتی ہیں کہ مجموعی طور پر چاول کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے پاکستان کو چاول کی برآمدات میں بھی فائدہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مل مالکان بھی ان علاقوں میں کسانوں کو ان مشینوں کے استعمال پر قائل کرنے کے لیے پروگرام چلا رہے ہیں۔

ثمینہ بنیامین ان افراد میں شامل ہیں جو باقی کسانوں کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ دوسروں کو مسلسل قائل کرنے کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

’میں کہتی ہوں کسی نے باہر سے تو نہیں آنا، ہم نے ہی ادھر رہنا ہے۔ دھوئیں سے ہمارے ہی بچے اور جانور بیمار ہوتے ہیں۔ ہمیں ہی اس سے چھٹکارا پانا ہو گا اس لیے آئیں سب مل کر اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp