ملکی جی ڈی پی میں بہتری کی پیش گوئی: مگر کیا یہ پاکستانی معیشت کی اصل صورتحال کی عکاسی کرتی ہے؟


کرنسی
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے موجودہ مالی سال میں ملکی جی ڈی پی 1.5 سے 2.5 فیصد بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے۔ پاکستان کے سٹیٹ بینک نے یہ پیش گوئی ملکی معیشت پر موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ میں کی ہے۔

تاہم بینک نے کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جو جی ڈی پی کو متاثر کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے دو فیصد سے زائد بڑھنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

جی ڈی پی کیا ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے ؟

پاکستان کی وفاقی حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف دو فیصد سے زائد رکھا ہے جو کہ گذشتہ مالی سال منفی 0.4 فیصد تک گر گیا تھا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) نے موجودہ مالی سال میں پاکستان کا جی ڈی پی ایک فیصد تک بڑھنے کی توقع کی ہے تو دوسری جانب عالمی بینک نے ملک کے جی ڈی پی کی منفی ایک فیصد ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت میں پیدا ہونے والے منفی رجحانات کے بعد حکومت کی جانب سے اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں اور معاشی بحالی کی وجہ سے جی ڈی پی میں بہتری آرہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں اپوزیشن کی جانب سے گذشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی ہونے پر حکومت کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ترقی تو ہے لیکن قرضے بھی آسمان کو چھو رہے ہیں‘

’تین فیصد کی امید تھی، جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی‘

کیا پاکستان سٹاک مارکیٹ کا ایشیا میں ’بہترین درجہ‘ ملکی معیشت میں بہتری کا اشارہ ہے؟

جی ڈی پی کیا ہے؟

کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا حساب مینوفیکچرنگ، سروسز اور زراعت کے شعبوں کی مجموعی پیداوار پر کیا جاتا ہے۔ ان تمام شعبوں کی پیداوار کو اکٹھا کر کے ان کی اوسط نکالی جاتی ہے۔ اگر جی ڈی پی بڑھ یا گھٹ رہی ہے تو تمام شعبوں میں اضافہ یا کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ کچھ شعبے بہت زیادہ اضافہ دکھا رہے ہوتے ہیں اور کچھ شعبوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہوتی ہے۔

گندم

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معاشیات کے صائم علی نے بتایا کسی ملک میں پیدا ہونے والی مصنوعات، ان کی کھپت، خدمات وغیرہ جی ڈی پی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ملک میں بسنے والے لوگوں کی مجموعی آمدنی بھی اس کا حصہ ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا جی ڈی پی دو طرح کی ہوتی ہے ایک رئیل جی ڈی پی اور دوسری نومینل جی ڈی پی ہوتی ہے. انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ رئیل جی ڈی پی میں مصنوعات اور خدمات کی پیداوار اور ان کی قیمتوں کا ایک مخصوص سال سے گذشتہ سال کے مقابلے میں اندازہ کیا جاتا ہے جب کہ نومینل جی ڈی پی میں صرف ان کی پیداوار کو دیکھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا آئی ایم ایف کے مقرر کردہ معیار پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح جی ڈی پی کا یہی فارمولہ ہے اور وفاق میں فنانس ڈویژن ہر سال بجٹ میں جی ڈی پی کا تخمینہ دیتا ہے اور مالی سال کے اختتام پر اقتصادی سروے میں اس سال کی جی ڈی پی کی شرح میں اضافے یا کمی کے بارے میں بتاتا ہے۔

جی ڈی پی کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے؟

جی ڈی پی کی پیمائش کرنے کے لیے تین طریقے ہیں۔

  1. صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبے میں مجموعی پیداوار

  2. مصنوعات اور خدمات کی مجموعی کھپت اور استعمال

  3. آمدنی کی مجموعی مالیت

صائم علی نے جی ڈی پی پیمائش کے بارے میں کہا کہ مصنوعات اور خدمات کی مجموعی پیداوار کو لے کر دیکھا جاتا ہے کہ اس میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کتنا اضافہ یا کمی ہوئی ہے۔ مثلاً اس سال سیمنٹ اور گندم کی پیداوار میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کیا رجحان رہا۔

تصویر

کھپت اور استعمال پر جی ڈی پی کی پیمائش کے بارے میں صائم علی نے کہا اس میں دیکھا جاتا ہے کہ مصنوعات کی پیداوار تو ہوئی ہے لیکن اس کی کتنی فروخت اور کھپت ہوئی ہے۔ اسی طرح آمدنی پر دیکھا جائے گا کہ کتنی انکم ہوئی ہے کیونکہ آمدنی ہوگی تو لوگ مصنوعات خریدیں گے ورنہ پیداوار کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

پاکستان میں جی ڈی پی کی پیمائش ان تین طریقوں پر کی جاتی ہے۔

جی ڈی پی کا مقصد کیا ہے؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جی ڈی پی ملکی معیشت کی مجموعی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب حکومت جی ڈی پی کا ہدف مقرر کرتی ہے تو سٹیٹ بینک آف پاکستان اس کی مطابق ملک میں شرح سود کا تعین کرتا ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے بینک سستے قرضے فراہم کر سکے تاہم اس کے ساتھ اسے مہنگائی کی شرح پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے تاکہ پیداوار میں اضافے کے ساتھ مہنگائی کی شرح بھی قابو میں رہے۔

کساد بازاری میں کیا اقدامات کیے جاتے ہیں؟

اگر ملک میں کساد بازاری ہو جائے تو اس پر کیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اس کے بارے میں صائم علی نے کہا کہ اس صورت جی ڈی پی میں اضافے کے لیے حکومت مراعاتی پیکج لاتی ہے۔ اس میں ٹیکسوں کی شرح کو کم کیا جاتا ہے تو شرحِ سود میں کمی لائی جاتی ہے اس کے ساتھ قواعد و ضوابط میں نرمی کی جاتی ہے تاکہ ملکی کا پیداواری شعبہ متحرک ہو اور ملازمتیں پیدا ہونے کے ساتھ جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہو سکے۔

معیشت انڈیا

انھوں نے کورونا وائرس کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جی ڈی پی میں اضافے کے لیے حکومت نے مخلتف شعبوں کو مراعاتی پیکج دیے تاکہ پیداوار میں اضافہ کرکے جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے۔

پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں کیا تبدیلی کی جاتی ہے؟

حکومت بجٹ میں جی ڈی پی کا ٹارگٹ رکھتی ہے۔ صائم علی نے کہا کہ پاکستان میں برطانیہ کی طرح ہر مہینے جی ڈی پی کی شرح میں تبدیلی کے اعداد و شمار نہیں دیے جاتے بلکہ سالانہ بنیادوں پر ایک نمبر دیا جاتا ہے کہ اس کہ شرح کتنی بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے۔

اقتصادی سروے میں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں جی ڈی پی کا تخمینہ دیا جاتا ہے جو پورے سال کی جی ڈی پی کی سمت کا تعین کر دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ نو مہینے کے اعداد و شمار تقریباً پورے مالی سال کے جی ڈی پی نمبر کا درست تعین کر دیتے ہیں اور مالی سال کے اختتام پر اس کے نمبر میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آتی۔

جی ڈی پی کی شرح کیا معیشت کی اصل صورت حال کی عکاسی کرتی ہے ؟

پاکستان سٹاک ایکسچینج

جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ یا کمی کیا پاکستان کی معیشت میں ترقی یا خسارے کا اصل پیمانہ ہے؟ اس بارے میں صائم علی نے کہا کہ اصل میں یہ گروتھ نمبر نہیں بلکہ کوالٹی کا ہے ۔ انھوں نے وضاحت کی کہ اگر آپ کے پاس پیداوار زیادہ ہے لیکن اس کی طلب نہیں تو پھر یہ پیداوار جی ڈی پی میں معیاری اضافے کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اس لیے جی ڈی پی میں ایسا اضافہ پائیدار ہے جو آپ کی مصنوعات اور خدمات کو اندرون و بیرون ملک کھپا رہا ہو۔

صائم نے کہا ایسا اضافہ بھی معیاری نہیں ہوتا جو پیداوار میں اضافہ کر رہا ہو لیکن اس شرح سے ملازمتیں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2013 سے 2018 میں جی ڈی پی 4.7 فیصد کی شرح سے بڑھی لیکن اس میں ملازمتیں 47 لاکھ پیدا ہوئیں جب کہ 2008 سے 2013 کے پانچ سال میں جی ڈی پی شرح 2.8 فیصد بڑھی لیکن اس میں 70 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوئیں۔

پاکستان میں ایک بڑی بلیک اکانومی اور غیر رسمی معیشت ہے جو جی ڈی پی کا حصہ نہیں۔ صائم علی نے بتایا کہ پاکستان میں چھوٹا کاروبار دستاویزی معیشت کا حصہ نہیں اور اس کی سرگرمی جی ڈی پی کا حصہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp