ہزارہ کمیونٹی کے دُکھ اور میلی آنکھ کا منترا


ہزارہ کمیونٹی کی ایک لڑکی کی آواز نے دل دہلا دیا جب وہ کوئٹہ کی یخ بستہ رات میں اپنے پیاروں کی لاشیں لیے سڑک پر بیٹھی تھی، سرد لہجے میں آنسو بہائے بغیر بولی میرے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا جو یہ بے جان جسم قبروں میں اتار سکے۔

اپنے خاندانوں کا سہارا، بچوں، بیٹیوں، بہنوں اور والدین کے کفیل، جو ان قبروں جیسی کانوں میں گھس کر رزق اور آنے والی نسلوں کا مستقبل نکال کر لاتے تھے، شناخت کے بعد باندھ کر بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ کسی بھی ذی شعور اور درد دل رکھنے والے انسان کی نیندیں اڑانے کے لیے اس بیٹی اور بہن کی آواز کافی ہے لیکن شاید ہمارے حکمرانوں اور ان کے حکمرانوں میں اس درد کا شدید فقدان ہے۔

مدتوں پہلے جب ان کے اجداد نے افغانستان اور ایران سے ایک نئے وطن کی تلاش میں کوچ کر کے اس علاقے میں پڑاؤ ڈالا اور اسے اپنا وطن مانا تو یقیناً ان کا خیال ہوگا کہ یہ خطہ ان کی نسلوں کے لیے جنت ارضی بن جائے گا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہی زمین ان پر ان کے عقیدے اور نسل کی بنیاد پر اتنی تنگ کر دی جائے گی کہ انہیں اپنی لاشیں دفنانے کے لیے بھی حکمرانوں کی ضمانت چاہیے ہو گی۔ لیکن حکمران بھی ایسے بے دل ٹکریں گے کہ جن کے پاس اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تو بہت وقت ہو گا لیکن ان مظلوموں کو دلاسا دینے کے لیے چند لمحے نکالنا مشکل ہوگا (بے حسی کی اس معراج کے بارے میں یقیناً انہوں نے بھی نہیں سوچا ہو گا۔)

وہی پرانا راگ کہ یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہوا، پچھلے ادوار میں بھی ایسے ہوتا آیا ہے، یعنی یہ ایک معمول کی بات ہے، اگر پوچھا جائے کہ یہ علاقہ کس کی ڈومین ہے تو حکومتی ترجمان فوراً سکیورٹی فورسز کی قربانیاں یاد دلانا شروع کر دیتے ہیں۔

یقیناً یہ واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا لیکن ہر بار نیا واقعہ پچھلے ہوئے واقعے سے زیادہ درد ناک اور ہولناک کیوں ہوتا ہے؟ وہ میلی آنکھ جس کا ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہماری طرف دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی، وہ اتنی ٹارگٹڈ کیوں ہے؟ اسے کیوں معلوم ہے کہ میں جہاں وار کروں گی تو وہاں سے میرے پیچھے آنے والے جلدی تھک جائیں گے؟

لکھنے والے بھی کمال کرتے ہیں جو لکھاری حکومت کے موافق ہیں، وہ شروع میں چند درد بھری سطریں لکھ کر اپوزیشن کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا شروع کر دیتے ہیں، ماضی میں ہونے والے واقعات کا ذکر کر کے ان کی ناکامیاں بتاتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف والے حکومت کی نااہلیاں لکھ لکھ کر ورق کالے کرتے ہیں جیسے انہیں ایک اور موقع مل گیا اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کا اور وہ جن کے پاس اصل میں اختیار ہے، بیرونی خطرات اور سازشوں کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران اس مظلوم لڑکی کی آواز کہیں دور ہوتی چلی جاتی ہے اور بالآخر گم ہو جاتی ہے، پھر سب کچھ نارمل ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد ایک نئی آواز منظر عام پر آ جاتی ہے، یہ گھن چکر تو اب معمول لگتا ہے۔

کاش کہ ہمیں میلی آنکھ کی خبر دینے والے اس کو بند کمروں تک رکھیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ہم سب تھوڑا سا اپنے اندر کی میل کی طرف بھی دھیان کریں جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ شاید ایک وقت آئے کہ بیرونی میلی آنکھ کو ہم پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اس اندر کی میل کی تفصیلات ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں کی کارروائیوں میں دیکھی جا سکتی ہے، شاید یہ میلی آنکھ والے چور ہماری اپنی بغلوں میں ہی نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).