جنوبی پنجاب کی محرومی کا ازالہ کون کرے گا؟


ڈی جی خان کی دور دراز ٹحصیل تونسہ کے قبائلی علاقے بارتھی سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان خان بزدار کو جب ملک کے سب سے بڑے اور خوشحال ترین صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا تو پورے ملک میں شدید حیرت کا اظہار کیا گیا اور عمران خان کے اس فیصلے پر ہر طرف سے تنقید کی گئی۔ تاہم عمران خان نے اس تمام تر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی یہ توجیہہ پیش کی کہ انہوں نے ملک کے ایک پسماندہ ترین علاقے سے اس لیے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا کہ ان علاقوں کو ملک کے باقی ترقی یافتہ حصوں کے مقابل لایا جائے گا۔

عثمان بزدار کے اپنے گاؤں میں بجلی نہ ہونے کا بتایا گیا اور اس پر ان کے حامیوں نے بھرپور داد دی۔ خود عمران خان میانوالی کی ایک پسماندہ تحصیل عیسیٰ خیل سے منتخب ہو کر وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ عیسیٰ خیل کے پہاڑی علاقے میں جہاں خٹک قبیلہ آباد ہے وہاں آج تک لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں تھا۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے سابقہ حکمرانوں پر یہاں کم ترقیاتی فنڈز لگانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ مبینہ طور پر ان علاقوں کے فنڈز کو اٹھا کر لاہور اور وسطی پنجاب کے دوسرے اضلاع پر لگایا جاتا رہا ہے۔

پچھلے ادوار میں پیپلز پارٹی نے ان علاقوں میں کچھ کام کیا ہے۔ ان علاقوں کی ترقی کے لیے شمال سے جنوب کی جانب بہتے دریاؤں پر پل بنانا بڑی اہمیت رکھتا ہے ، اس سے مختلف علاقوں کے درمیان فاصلے حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتے ہیں جس سے ان علاقوں میں آمدورفت آسان ہونے کی وجہ سے تجارت میں تیزی آ جاتی ہے۔ اس کی مثال پیپلز پارٹی کے دور میں کوٹ مٹھن اور چاچڑاں کے درمیان ایک پل کی تعمیر ہے جس سے راجن پور تک سفر بہت سہل ہو گیا اس طرح روجھان اور رحیم یار خان کے درمیان دریائے سندھ پر پل بنانے کا کام شروع ہوا۔

اس سے پہلے راجن پور سے رحیم یار خان سفر کے لئے پہلے کشمور سندھ جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے واپس رحیم یار خان آنا پڑتا تھا۔ اسی طرح شورکوٹ اور گڑھ مہاراجہ کے درمیان سلطان باہو کا پل بننے سے لیہ تک کے لوگوں کو لاہور اور فیصل آباد سفر کے لیے آسانی پیدا ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے گندم کی قیمت میں قابل ذکر اضافہ کر کے جنوبی پنجاب میں جو خالصتاً ایک زرعی علاقہ ہے ، وہاں کے کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ کیا۔

مسلم لیگ ن ایک تو شہری علاقوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور پھر اپر پنجاب کی بھی چھاپ لگی ہوئی ہے ، اس لیے جنوبی اور مغربی سمت میں واقع اضلاع میں ایک محرومی کا احساس ہے۔ سرائیکی دانشوروں نے تخت لاہور کا طعنہ مسلم لیگ کے پنجاب میں طویل اقتدار اور وہاں سے بیٹھ کر ان کے جینوئن مسائل سے چشم پوشی پر استعمال کیا۔ مسلم لیگ کے طویل دور حکومت میں کسان مسائل کا شکار رہا۔ اسحاق ڈار کی پالیسیاں اینٹی کسان گردانی گئیں۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں کے جنوبی اور مغربی پسماندہ علاقوں سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کی محروم عوام کو بجا طور پر محسوس ہوا تھا کہ اب گردش دوراں ان کی محرومیوں کا مداوا کرے گی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا وعدہ تو صوبہ جنوبی پنجاب تھا۔ اس وعدے کے ایفا ہوتے ہی تخت لاہور سے آزادی نصیب ہو سکتی تھی۔ کئی مسائل خودبخود حل ہو جاتے۔ لیکن صد حیف نصف عرصہ اقتدار گزرنے کے باوجود لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔

جنوبی پنجاب سیکٹریٹ کے نام پر لالی پاپ دینے کی تیاری جاری ہے۔ عثمان بزدار صاحب بھی اپنے علاقے کی حد تک سولنگ، گلی والی ڈویلپمنٹ پر لگے ہوئے ہیں اور خان صاحب بھی اڑھائی سال میں خٹک بیلٹ کی پسماندہ آبادیوں کو پینے کا صاف پانی دے سکے نہ ہی چھ اضلاع پر مشتمل تھل خطے کی اہم ترین گزرگاہ ایم ایم روڈ کو دو رویہ کروا سکے ہیں۔ اس روڈ پر آئے روز خوفناک حادثات کی وجہ سے اس کو خونی روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

یہی حال پسماندہ علاقے تونسہ کے وزیراعلیٰ کے حلقے سے گزرنے والی انڈس ہائی وے کا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ نون لیگ بھی جاتے جاتے کلور کوٹ، ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان اور تونسہ، لیہ کے درمیان دریائے سندھ پر دو اہم ترین پل بنوا گئی مگر پسماندہ علاقوں کی کایا پلٹ کرنے کی دعویدار تحریک انصاف کی گٹھڑی کسی ایسے عمل سے خالی نظر آتی ہے۔ تھل اضلاع میانوالی، خوشاب، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ اور جھنگ میں جو تین سو کلومیٹر طویل علاقہ ہے ایک بھی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔

کوئی ائیرپورٹ نہیں ، کوئی ٹیچنگ ہسپتال نہیں۔ یہ کیا دھرا تو پچھلے ادوار کا ہے مگر اڑھائی سال کے دوران تحریک انصاف نے کیا کیا ہے؟ کیا میانوالی ، بھکر اور خوشاب پر مشتمل ایک نیا ڈویژن نہیں بن سکتا؟ کیا لیہ میں ٹیچنگ ہسپتال نہیں بن سکتا؟ بھکر سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سرگودھا تک سفر پر تین چار گھنٹے لگتے ہیں۔ حادثات کی صورت میں شدید زخمیوں کو ملتان یا فیصل آباد روانہ کیا جاتا ہے اور اکثر راستہ میں ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

اگر سنٹرل پنجاب کے خیر خواہ حکمران لاہور اور فیصل آباد کے علاقوں کو دو موٹر ویز اور دو جی ٹی روڈز سے آپس میں کنیکٹ کر سکتے ہیں تو پسماندہ علاقوں کے یہ سپوت اپنے لوگوں کو کیوں آسانیاں مہیا نہیں کر پا رہے۔ اب تک تو ان کو حکومت چلانے کی سمجھ آ جانی چاہیے۔ امید ہے بچے کھچے عرصہ اقتدار میں وہ کچھ ایسے بڑے کام کر جائیں گے کہ تاریخ میں ان کا نام بھی درج ہو جائے گا۔ زراعت سے وابستہ لوگ بھی مایوس ہیں ان کی آمدنیوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے بلکہ اب تو خسارہ آنے لگا ہے۔ بجلی سستی نہیں کی جا سکی جبکہ انڈسٹری کو بجلی ٹیکسز میں بہت زیادہ ریلیف دیا جا رہا ہے۔ تونسہ، جام پور، کوٹ ادو، اور عیسی خیل کو اضلاع کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ زراعت سے متعلقہ انڈسٹری لگانے کے لیے تجارتی زون بنائے جا سکتے ہیں۔ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی، ایک میڈیکل کالج اور آئی ٹی پارک بنائے جا سکتے ہیں اس سلسلہ میں ایک میگا پیکج برائے ترقی جنوبی و مغربی اضلاع شدت سے درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).