خان صاحب! یہ کرسی ہے آپ کی چمڑی نہیں


کوئٹہ کی ہزارہ برادری سالہا سال سے دہشت و بربریت کا شکار ہوتی آئی ہے، ہر دور حکومت میں وقفے وقفے سے یہ برادری اپنی لاشیں اٹھائے کبھی دھرنے دیتی نظر آئی تو کبھی سڑکوں پہ احتجاج کرتی، مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کے جنازوں کے ساتھ ماتم کرتے، رنج و الم کے نوحے پڑھتے نظر آتی ہیں۔

چار پانچ دن پہلے بھی مچھ میں ہزارہ برادری کے گیارہ معصوم کان کن مزدوروں کو بڑی بے رحمی اور درندگی کا نشانہ بناتے ہوئے ذبح کر دیا گیا، ان کا کیا قصور تھا یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا مگر داعش نے ان کے قتل کی ذمہ داری لے کی۔ ہزارہ کمیونٹی اس لرزہ خیز واقعے کے بعد گیارہ بے گناہوں کی میتوں کے تابوتوں کے ساتھ لہو منجمد کرتی شدید ترین سردی میں کوئٹہ میں سراپا احتجاج ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم صاحب خود تشریف لائیں اور ان کے زخموں پہ نہ صرف مرہم رکھیں بلکہ انہیں احساس دلائیں کہ وہ بھی ریاست پاکستان جو اب خان صاحب کے بقول ریاست مدینہ میں تبدیل ہو چکی ہے، کے شہری ہیں اور وہ انہیں اپنے پیاروں کے وحشیانہ قتل عام پر انصاف دلائیں۔

جس وقت یہ سانحہ ہوا بلوچستان کے باریش وزیراعلیٰ دبئی یاترا پر گئے ہوئے تھے، انہیں واقعے کی اطلاع ملی مگر موصوف اپنی گوناگوں مصروفیات اور اپنے صوبے کی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مصروف تھے، اس لیے چار دن تک انہیں فرصت نہ مل سکی کہ وہ کوئٹہ پہنچ کر ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ان کا دکھ درد بانٹتے، انہیں تسلی دیتے، یتیم ہو جانے والوں کو، اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں کو کھو دینے والوں کے زخموں پہ مرہم رکھتے۔ پچھلے پانچ روز سے نقطۂ انجماد سے سات آٹھ درجہ نیچے کی خون جما دینے والی ٹھنڈ میں سڑکوں پر میتیں رکھے سراپا احتجاج ہزارے صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم ان کے پاس آئیں اور ان کی داد رسی کریں۔

2013 کے اوائل میں بھی اس کمیونٹی کے ساتھ اسی طرح کا اندوہناک سانحہ پیش آیا تھا، اس وقت کے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ فوری طور پہ ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے میں پہنچے، نا اہلیت اور سنگین مجرمانہ غفلت کے الزام میں اپنی ہی صوبائی حکومت کو برطرف کر کے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیا اور ہزارہ برادری کے زخموں پہ مرہم رکھنے کی کوشش کی مگر آج کی ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت اور اس کا امیرالمومنین بجائے خود جانے کے ایسے وزراء کو متاثرین کے پاس بھیجتا ہے جو وہاں پہنچ کر متاثرین کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا کرنے اور انہیں انصاف کا یقین دلانے کے بجائے ان سے سودے بازیاں کرتے نظر آئے، مقتولین کے زخم زخم، لہو لہو لواحقین اپنے امیرالمومنین کے ان احساسات سے عاری متکبرانہ رویوں کی وجہ سے ریاست سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں، جس وقت ہزارہ برادری کے مقتولین کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں رکھے احتجاج کر رہے تھے اور چھ مقتولین کی بہنیں اپنے گھر کے تمام مردوں کے قتل ہوجانے پہ نوحہ کناں تھیں، اس وقت دارالحکومت میں ریاست مدینہ کے امیر اپنے ترجمانوں کی فوج کو سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے احکامات صادر فرما رہے تھے۔

سانحہ مچھ کے وقوع پذیر ہونے کے دو روز بعد امیرالمؤمنین نے ٹویٹر پہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دکھ کے اظہار کی زحمت اٹھائی مگر ان معصوم بے گناہ ذبح ہونے والوں کے لواحقین کا دکھ بانٹنے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ خان صاحب کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ جنازوں میں شرکت کرنا پسند نہیں کرتے، انہوں نے اپنی اس والدہ کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا نہ ہی ان کے جنازے کو کندھا دے کر لحد میں اتارنے کی سعادت حاصل کی جس کے نام سے انہوں نے پوری دنیا سے چندے، زکوٰۃ، خیرات، صدقات و عطیات جمع کر کے کینسر ہسپتال بنایا۔

وزیراعظم عمران خان نے ایسے ہی کرخت رویے کا مظاہرہ ساہیوال سانحے کے وقت بھی کیا تھا جب چار معصوم و بے گناہ لوگوں کو ریاستی اداروں نے دہشت گرد قرار دے کر گولیوں سے بھون دیا تھا اور خان صاحب قطر یاترا پر یہ کہہ کر تشریف لے گئے کہ قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا اور لواحقین سے قطر سے واپسی پہ ملاقات کروں گا۔ واپسی پر مقتولین کے لواحقین کو انصاف ملا نہ قاتل پکڑے گئے بلکہ قاتلوں کو کلین چٹ دے دی گئی اور خان صاحب نے مقتولین کے لواحقین کو سی ایم ہاؤس بلا کر امدادی چیک دیتے ہوئے صرف تصویر بنانے پر ہی اکتفا کیا۔

انہوں نے یہ رویہ اپنے دور حکومت کے دوران ہونے والے ہر تکلیف دہ واقعے سانحے کے موقع پر اپنایا یہ بھول کر وہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں اور وہ خود بارہا فرما چکے ہیں کہ وہ بحیثیت وزیراعظم قوم کے والد کی جگہ ہیں،  تو کیا والد اپنے بچوں کو تکلیف میں چھوڑ کر حیلے بہانے کرتا ہے یا ان کی ایک آہ پہ اپنا سب کچھ اپنے بچوں پہ نچھاور کر دیتا ہے؟ وزیراعظم عمران خان اس وقت وزیراعظم کی کرسی پہ بیٹھے یہ بھول چکے ہیں کہ یہ کرسی ہے جو سدا کسی کی نہیں رہی،  یہ ان کے جسم کی کھال نہیں ہے جو ان سے الگ نہیں ہو سکتی۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی آدھی مدت اقتدار میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ چوبیس کلومیٹر پر محیط چھوٹے سے دارالحکومت کو سنبھالنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے، ان کے بھانت بھانت کے جمع کیے ہوئے اکابرین نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہر ادارے میں کشمکش کی سی صورتحال ہے، وزراء میں آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ایک جماعت ہے مگر مختلف الخیال لوگوں نے ایک جگہ جمع ہو کر اس جماعت کو چوں چوں کا مربہ بنا ڈالا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اگر سانحہ ساہیوال اور ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا اور وحشیانہ قتل کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہوتا اور ذمہ داران کو بے نقاب کر کے انہیں نشان عبرت بنایا ہوتا تو شاید آج اسلام آباد کی سڑکوں پر نہ معصوم و نوجوان اسامہ ستی کا ریاستی سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں وحشیانہ قتل ہوتا نہ ہی مچھ کے معصوم ہزارہ شیعہ مسلمان اس بے دردی سے ذبح کیے جاتے۔

وزیراعظم عمران خان ایک فرد نہیں رہے بلکہ ایک رویے کا روپ اختیار کر چکے ہیں جو نفرت، تعصب، عدم برداشت، دشنام طرازی، گالم گلوچ سے شروع ہو کر مفاد پرستی، ذاتی انا، تکبر اور گھمنڈ پہ ختم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ قوم کے وزیر اعظم بن کر ان کے دکھوں تکالیف کا نہ صرف مداوا کریں بلکہ ہر آفت اور دکھ کی گھڑی میں سب سے پہلے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں تحفظ کا احساس دلائیں نہ کی انہیں لاشیں اٹھائے احتجاجی دھرنوں پہ مجبور کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).