قاتل کٹہرے میں کب پہنچیں گے؟


امید تھی کہ نیا سال امن و امان کے لحاظ سے بہتر ثابت ہو گا مگر اس کی ابتدا ہی وحشت ناک خبروں سے ہوئی ہے۔ ایک نہایت افسوسناک واقعہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں پیش آیا جہاں ہزارہ برادری کے 11 افراد کو جو پیشہ کے اعتبار سے کان کن تھے، سفاکانہ انداز سے قتل کر دیا گیا۔ ان مظلوموں کو 2 جنوری کو بولان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں  نے ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اب ان مزدوروں کے لواحقین منفی درجہ حرارت کی سردی میں مقتولین کی لاشیں لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وہ اس وقت تک لاشیں نہیں دفنائیں گے جب تک وزیراعظم عمران خان ان کے پاس مذاکرات کے لیے نہیں آتے۔

وزیراعظم صاحب کی ترجیحات لیکن یہ ہیں کہ اس واقعے کے روز وہ حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں اپوزیشن کو سخت ترین جواب دینے کی تلقین کر رہے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے کچھ عرصہ تک قبل کہا جا رہا تھا کہ ہمارے ہاں داعش کا کوئی وجود نہیں مگر انہی سطور میں آج سے دو سال میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ پاک افغان سرحدی علاقے تورا بورا میں امریکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کس طرح گھیر گھار کر داعش کو جمع کر رہا ہے اور لامحالہ اسے ہمارے شورش زدہ علاقوں میں استعمال کیا جائے گا۔

ایک اور بری خبر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے آئی جہاں ایک نوجوان اپنے دوست کو چھوڑ کر واپس آ رہا تھا کہ اس کی گاڑی پر پولیس کے اے ٹی ایس اسکواڈ نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ نوجوان موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ حسب روایت ابتدا میں پولیس نے اس واقعے کو ڈکیتی کے خلاف کارروائی کا رنگ دینے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں خود پولیس کی تحقیق میں ثابت ہو گیا کہ مقتول نوجوان کا ڈکیتی کی واردات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بدترین سفاکیت اور بربریت کا یہ مظاہرہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی ہلاکتوں کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں رینجرز  کے اہلکاروں نے کراچی کے ایک پارک میں سرفراز نامی نوجوان کو باوجود منت سماجت کے گولیوں سے بھون رکھ دیا تھا۔ شور شرابا ہوا تو دفع وقتی کی خاطر کیس چلایا گیا اور ان اہلکاروں کو سزا بھی ہوئی لیکن کچھ عرصہ بعد خاموشی سے وہ اہلکار آزاد کر دیے گئے۔ کراچی میں ہی طویل عرصے تک چوہدری اسلم عفریت بنا بیٹھا رہا اور بالآخر ایک خودکش حملے میں مارا گیا۔ اس کے بعد اس کی گدی ایک اور پولیس افسر راؤ انوار نے سنبھال لی، تین سال تک اس کے ہاتھوں بھی چار سو سے زائد افراد قتل ہوئے۔

جن دنوں راؤ انوار دندناتا پھر رہا تھا اس وقت ہماری عدالتیں ایک منصف کی سربراہی میں بڑی فعال تھیں اور جوڈیشل ایکٹوازم سے ہر جگہ ٹانگ اڑائی جا رہی تھی۔ اس عدلیہ کو بھی مگر یہ تحقیق کرنے کی جستجو نہ ہوئی کہ آخر ملیر، سہراب گوٹھ، الآصف اور گڈاپ میں ہی القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کے خطرناک دہشت گرد کیوں ملتے ہیں؟ اور صرف اور صرف راؤ انوار اور اس کی پارٹی کے ہاتھوں ہی کیوں مارے جاتے ہیں؟ نہ میڈیا پر شائع ہونے والی تحریروں پر نظر رکھنے والی آنکھوں یا ادا ہوئے الفاظ پر سیکنڈز میں کھڑے ہونے والے کانوں کو احساس ہوا یہ ظلم قومی سلامتی کے لیے کتنا خطرناک ہے؟

نقیب اللہ نامی نوجوان سوشل میڈیا پر مشہور تھا، اس لیے اس کی موت پر ہنگامہ ہو گیا اور کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے شروع ہو گئے۔ بعض سیاسی قوتوں نے بھی اپنے مقاصد کی خاطر اس کیس کو اچھالا۔ اس کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی حوصلہ ہوا تب جا کر سوموٹو نوٹسز کے ذریعے شہرت کے طالب ہمارے چیف جسٹس صاحب نے اس پر نوٹس لیا، جب تک مگر راؤ انوار مفرور ہو گیا۔ اسے بلانے کے لیے عدلیہ کی طرف سے منت ترلے ہوئے، بھاگ دوڑ ہوئی مفرور پولیس افسر کے اپنے ہی افسران بالا سے مذاکرات ہوئے۔ آج تک خبر نہیں ہوئی کون سی ضمانت دی گئی، کیا شرائط طے ہوئیں اور اس کی سرپرستی کس کے پاس تھی۔ اچانک ایک روز فلمی انداز میں اس کی انٹری ہوئی، تھوڑی بڑھکیں لگیں، انصاف فراہم کرنے کے وعدے ہوئے اور وقتی اچھل کود کے بعد واقعے پر دھول پڑ گئی۔

ساہیوال کے قریب قادر آباد ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے ایک کار پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں شہادتیں ابھی کل کی بات ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ فائرنگ کا نشانہ بننے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آ رہی تھی۔ جسے ایلیٹ فورس کی گاڑی نے روکا اور فائرنگ کردی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ کار میں مرنے والی خاتون کی عمر 40 سال اور بچی کی 13 برس تھی۔ پولیس کی سفاکی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں واقعے کے بعد زندہ بچ جانے والے بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، جہاں انہوں نے عوام کو بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔

کچھ دیر بعد سی ٹی ڈی پولیس بچوں کو پھر اپنے ساتھ موبائل میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر  لے گئی، ایک بچہ جو فائرنگ سے معمولی زخمی ہوا، اسے بعد ازاں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ زخمی بچے عمیر خلیل نے اسپتال میں میڈیا کو بتایا کہ وہ گاڑی میں سوار ہو کر چچا کی شادی میں شرکت کے لیے بورے والا جا رہے تھے۔ بچے کے مطابق گاڑی میں اس کے اور اس کی 2 چھوٹی بہنوں کے علاوہ والد خلیل، والدہ نبیلہ، بڑی بہن اریبہ اور والد کا دوست مولوی سوار تھے، جو واقعے میں جاں بحق ہو گئے۔

بچے نے بتایا کہ اس کے والد نے پولیس والوں سے کہا کہ پیسے لے لو، ہمیں معاف کر دو لیکن انہوں نے فائرنگ کردی۔ مارے جانے والے افراد کے محلے داروں نے بتایا تھا کہ وہ مذکورہ خاندان کو تقریباً 30 سال سے جانتے ہیں، یہ لوگ نمازی پرہیزگار تھے، ان کے والد حیات نہیں اور والدہ بیمار ہیں اور مرنے والے ذیشان کا ایک بھائی احتشام ڈولفن پولیس کا اہلکار بھی ہے۔

سانحہ ساہیوال کے وقت بھی وزیراعظم عمران خان تھے اور انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ سہمے ہوئے بچوں، جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا، کو دیکھ کر ابھی تک صدمے میں ہوں۔ ریاست اب ان بچوں کا ذمہ لے گی اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرے گی، ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابل فہم ہے۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا۔

اس سانحہ کے بعد نہ تو پولیس کے ڈھانچے کا جائزہ لیا گیا نہ ہی پولیس کی اصلاح کے لیے کوئی پروگرام شروع ہوا حالانکہ پولیس کلچر کی بہتری حکمراں جماعت کے منشور کا حصہ تھا۔ وفاق میں ہی اگر قانون فافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی ایسی ہو گی تو پھر باقی صوبوں کا تو اللہ حافظ ہے۔

اب حکومت کے پاس بہت کم وقت باقی ہے ، آئندہ انتخابات جب بھی ہوئے اس کے دعووں کا جائزہ ضرور لیا جائے گا، اس لیے وزیراعظم کو چاہیے اب اپوزیشن کے خلاف انتقامی ایجنڈے پر توانائی مزید ضائع کرنے کے بجائے دیگر اہم اور حل طلب امور پر بھی توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).